‘کیوں نہ پیکا قانون کی شق 21 ختم کردیں، اظہار رائے پر پابندی نہیں لگ سکتی، FIA کا کام عوامی نمائندوں نہیں عوام کا تحفظ ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی محسن بیگ کے گھر ایف آئی اے چھاپہ کو اختیارات سے تجاوز قرار دیتے ہوئے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ بابر بخت قریشی کو شوکاز نوٹس جاری دیا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ:
‘یہ دھمکی ہے کہ اظہار رائے کی کوئی آزادی نہیں، عدالت یہ برداشت نہیں کریگی۔
ایف آئی اے کو روگ ایجنسی نہیں بننے دینگے، آپکا کام لوگوں کی خدمت کرنا ہے، ہر کیس میں ایف آئی اے اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے۔
عدالت اختیار کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دیگی۔
‘کیوں نہ پیکا قانون کی شق 21؍ ختم کر دیں، ایف آئی اے کا کام عوامی نمائندوں نہیں عوام کا تحفظ ہے.
ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کیلئے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے جس پر تشویش ہے، کسی جمہوری ملک میں کسی ایجنسی یا ریاست کا ایسا کردار قابل برداشت نہیں ہے، گرفتاری کا خوف پبلک آفس ہولڈرز کے غلط کاموں یا اداروں کی کرپشن بے نقاب کرنے میں اثر انداز ہو سکتا ہے۔
‘عام افراد کی نسبت عوامی نمائندوں پر تنقید کی حدود زیادہ ہیں، منتخب نمائندوں کو معلوم ہے کہ پریس اور عوام انکی اسکروٹنی کر سکتے ہیں، عوامی نمائندوں کی ساکھ کو ریاستی اختیارات کے غلط استعمال سے تحفظ نہیں دیا جا سکتا۔
اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق اور لوگوں کی ساکھ کے تحفظ میں توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 24 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو بھی ایف آئی اے کے دفاع کیلئے طلب کر لیا۔
اور
کہا کہ اٹارنی جنرل مطمئن کریں کہ:
‘اس جرم سے متعلق دفعہ کوکیوں نہ ختم ہی کر دیا جائے؟
عدالت نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے کہا کہ:
‘بیان حلفی جمع کرائیں کہ اختیارات کے غلط استعمال پر کیوں نہ آپ کیخلاف کارروائی کی جائے؟
عدالت نے آئی جی پولیس اسلام آباد کو بھی درج مقدمہ کی منصفانہ انوسٹی گیشن کرنے اور درخواست گزاروں کو ہراساں نہ کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
گزشتہ روز صحافی محسن بیگ کے گھر چھاپہ مارنے سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے حکام سے استفسار کیا کہ:
‘آپ نے اس عدالت اور سپریم کورٹ کو کیا انڈر ٹیکنگ (یقین دہانی) دی تھی؟
‘کیا ایس او پیز بنائے؟
آپ کو کہا تھا کہ:
ہتک عزت کے معاملے کو آپ نے فوجداری قانون میں رکھا ہوا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ:
‘ہر کیس میں ایف آئی اے اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ سے استفسار کیا کہ:
‘آپ کو شکایت کہاں ملی تھی؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے بتایا کہ:
‘وفاقی وزیر مراد سعید نے 15 فروری کو لاہور میں شکایت درج کرائی۔
چیف جسٹس نے استفسار کہ:
‘کیا مراد سعید وہاں دورے پر گئے ہوئے تھے؟
‘آپ پڑھ کر بتائیں کس جملے سے ہتک عزت کا پہلو نکلتا ہے؟
جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے مراد سعید سے متعلق محسن بیگ کا جملہ پڑھ کر سنایا۔
اور
کہا کہ:
اس جملے میں کتاب کا حوالہ ہے۔
ڈائریکٹر سائبر کرائم کے جواب پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ:
‘کیا کتاب کا صفحہ نمبر محسن بیگ نے پروگرام میں بتایا ہے؟
جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے جواب دیا کہ:
‘نہیں! یہ بات پروگرام میں نہیں کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ:
آپ کو توہین عدالت کا شوکاز جاری کر رہے ہیں۔
فاضل چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ:
‘آپ نے شکایت ملنے پر محسن بیگ کو کوئی نوٹس جاری کیا؟
ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے بتایا کہ:
‘محسن بیگ کو نوٹس جاری نہیں کیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ:
‘آپ کے قانون میں ہے کہ آپ نے پہلے انکوائری کرنی ہے، آپ نے کوئی انکوائری نہیں کی کیونکہ شکایت وزیر کی تھی، ٹاک شو ٹیلی ویژن پر ہوا تو پھر متعلقہ سیکشن کا اطلاق نہیں ہوتا۔
ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے کہا کہ:
جب وہ ٹاک شو فیس بک، ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو ہم نے کارروائی کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ:
‘آپ نے کیا انکوائری کی ہے؟
‘کیا ملزم نے وہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل کیا؟
‘اس پروگرام میں کتنے لوگ تھے؟
‘سب نے وہی بات کی تو باقی لوگوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟
ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے جواب دیا کہ:
باقی لوگوں نے وہ بات نہیں کی جو محسن بیگ نے کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ:
‘کیا آپ کو اس بات کا یقین ہے؟
‘کیا آپ نے وہ کلپ دیکھا ہے؟
‘ایف آئی اے کے پاس کتنی شکایات زیر التوا ہیں؟
جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے بتایا کہ:
‘پورے پاکستان میں 14 ہزار شکایات زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ:
‘کیا آپ نے تمام شکایات پر گرفتاریاں کیں؟
پیکا ایکٹ کی سیکشن 21 ڈی پڑھیں۔
‘آپ خود کو مزید شرمندہ کرنا چاہتے ہیں؟
‘یہ بتائیں اسکے کیا معنی ہیں؟
آپ اس سیکشن کا کہہ کر شکایت کنندہ کو بھی شرمندہ کر رہے ہیں اور آپ خود شرمندہ ہونے کے بجائے مزید دلائل دے رہے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ:
‘کیا اس ملک میں مارشل لا لگا ہوا ہے؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے کہا کہ:
‘یہ قانون پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے؟
عدالت نے کہا کہ:
آپ کو شوکاز جاری کرکے اٹارنی جنرل کو طلب کر رہے ہیں، اٹارنی جنرل کو آکر آپ کا دفاع کرنے دیں۔
ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے کہا کہ:
‘وہ یہاں آکر میرا کیوں دفاع کرینگے؟
ساری اتھارٹی میں تو ایکسرسائز نہیں کرتا۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ:
پھر آپ لکھ کردیں کہ:
‘آپ کو کس نے ہدایات دیں۔
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے کہا کہ:
‘کتاب میں کیا لکھا ہے وہ سب جانتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ:
‘سب کیا جانتے ہیں؟
‘آپ جانتے ہونگے، یہ عدالت بار بار کہتی رہی ہے کہ آپ محتاط رہیں، عدالت اختیار کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دیگی، اگر یہ عام شکایت ہوتی تب بھی گرفتاری نہیں بنتی تھی، یہ پبلک آفس ہولڈر کی شکایت ہے۔
‘آپ کیا پیغام دے رہے ہیں؟
عدالت میں جمع کرائے گئے ایس او پیزکی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ:
یہ دھمکی ہے کہ اظہار رائے کی کوئی آزادی نہیں، عدالت یہ برداشت نہیں کرے گی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ:
‘میری ریڈنگ پر بھی سیکشن 21 ڈی نہیں بنتا۔
عدالت نے کہا کہ:
ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کیلئے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کررہی ہے جس پر تشویش ہے، افریقہ کے ممالک نے بھی ہتک عزت کے معاملات کو فوجداری قوانین سے نکالا ہے، صحافیوں کیلئے غیرمحفوظ ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے جس کی وجہ اختیارات کا غلط استعمال ہے۔
‘کیا آپ اس معاشرے کو پتھر کے زمانے میں لے جانا چاہتے ہیں؟
یہ ایف آئی اے کے اختیارات کے غلط استعمال کی عمدہ مثال ہے۔
رپورٹ: ہیلپ لائن (786) نیوز