کل چئیرمن سید مصطفی کمال نے ایک بات کی کہ اگر عمران خان جاتے ہیں اور انکا متبادل زرداری صاحب اور متحدہ ہیں تو ہماری سپورٹ عمران خان کے ساتھ ہے دراصل انہوں نے یہ بات صوبہ سندھ میں ان دونوں پارٹیوں کی طرز حکمرانی کے تناظر میں کہی ہے کیونکہ آج سندھ میں کرپشن اور بدانتظامی عروج پر ہے متحدہ تیس سال سے کراچی حیدرآباد کی بلا شرکت غیرے مینڈیٹ کی حامل رہی ہے ایک سال پہلے تک ان دونوں شہروں میں مئیر تھے لیکن انہوں نے شہری مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور اب ایسے موقع پر بھی منافقت کی سیاست نہیں چھوڑی کہ وزیراعظم کو جو کہ حالات سے پریشان تھے انہیں بہادر آباد مرکز بلایا اور عوام کو بتلایا کہ ہر وزیراعظم نے ہمارے در پر سجدہ کیا اور اگلے ہی دن تمام متحدہ قیادت حالات سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسلام آباد زرداری صاحب،شہباز اور مولانا سے ملنے پہنچ گئے ابھی کچھ دنوں پہلے پپلز پارٹی کو سندھ دشمن،قاتل کرپشن اور مہاجر صوبہ کی بات کرنیوالے عوام کو بے وقوف سمجتے ہیں بس انہوں نے سوچا عمران کی کشتی ڈوب رہی ہے ہم تو اپنی لائن سیدھی کریں تو چئیرمن سید مصطفی کمال نے ٹھیک کہا کہ اگر سندھ جیسی تبدیلی اور حکومت یہ لوگ لانا چاہتے ہیں تو عمران خان ٹھیک ہے اسے اپنی مدت پوری کرنی چاہیے جس طرح ق لیگ،پپلز پارٹی،ن لیگ نے اپنے پانچ سال پورے کئے
عمران خان کی کشتی بھنور میں ڈول رہی ہے آج ہر پاکستانی سوشل میڈیا،میڈیا کے ذریعے ملنے والی خبروں کے بعد تشویش میں مبتلا ہے عمران خان کے مخالف اسکی غلطیاں گنوا رہے ہیں اور اس کے حامی اس کی خوبیاں پاکستان کی تاریخ سے واقف لوگوں کے لئے یہ حالات نئے نہیں ہیں آج سندھ ہاؤس میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے سرخیل زرداری صاحب ہیں اور اسے اون نواز شریف و مولانا فضل الرحمان کر رہے ہیں اور وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین ضمیر کی آواز پر یہاں موجود ہیں حالانکہ اگر ان کا ضمیر جاگ گیا تھا یا جگا دیا تھا تو وہ اسمبلی جاتے کہتے کہ ہم عمران خان کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے اب ہم ساتھ نہیں چل سکتے ہم مستعفیٰ ہوتے ہیں اور وہ زرداری یا ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے جیت کر ووٹ عمران خان کے خلاف ڈالتے حیدرآباد سے مخصوص نشست پر خاتون نزہت پٹھان، مخصوص نشست پر ڈاکٹر رمیش کمار دونوں سندھ ہاؤس میں موجود ہیں ارے بھائی مخصوص نشست تو ہوتی ہی پارٹی کی مہربانی تم نے کونسا حلقہ میں جا کر مقابلہ کیا تھا تماری کونسا حلقہ میں ووٹ بنک تھا تماری پارٹی کو زیادہ نشستیں ملیں انکے حصہ میں جو مخصوص نشستیں آئیں تمہارا فارم بھروایا منتخب کروا دیا لیکن پاکستان کی مروجہ سیاست جہاں الیکٹبلز،کو لینا ضروری ہوتا ہے یا کسی کا احسان اتارنے کی وجہ سے ان لوگوں کو ٹکٹ دینا ہوتا ہے ورنہ نزہت پٹھان اور ڈاکٹر رمیش کمار دونوں کا ماضی داغدار ہے دونوں ق لیگ،پپلز پارٹی،ن لیگ اور اب پی ٹی آئی میں تھے یہ عمران خان کی کرپشن تو ڈھونڈ نہ سکے گزشتہ دنوں حیسکو میں ملاقات تھی ایک زمہ دار صاحب نے کہا کہ پانی بجلی کی قائمہ کمیٹی کی ممبر ایم این اے نزہت پٹھان حیسکو سے اپنا حصہ برابر وصول کرتی ہیں جب حال یہ ہو تو تبدیلی کیسے آتی دوسرا کیا اب وفاداری خدا واسطے تبدیل کی ہو گی ہماری بد قسمتی یہ ہی رہی ہے کہ ہمارے سیاست دان بونے ہیں ان کا قد بہت چھوٹا ہے آج یہ جو عمران خان کے خلاف ملے ہوئے ہیں ماضی کی تقریریں،اقدامات انکی طرز حکمرانی دیکھ لیں آج جو عمران خان کے خلاف کر رہے ہیں یہ آپس میں بھی کرتے رہے ہیں کسی نے ملک و عوام کا نہیں سوچا اسی طرح جوڑ توڑ،جرنیلوں سے ساز باز کر کے حکومت بناتے ہیں اور بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر چلتے ہیں ڈرون حملے ہوتے رہیں پکڑ پکڑ کر پاکستانی کو حوالے کرتے رہیں بجلی آٹا مہنگا کرتے رہیں بیرونی قرضے لیکر اپنا کمیشن لیکر باہر منتقل کرتے رہیں پاکستان میں صحافت،ججز،الیکشن کمیشن جو آواز اٹھائے اسے خرید لو یا دبا دو جو لوگ انکی پارٹیوں سے منسلک ہوں وہ راتوں رات امیر بن جائیں عوام کا جنازہ نکل جائے عمران خان کی غلطیاں بے شمار ہیں اسے حکومت بنانے کے لئے الیکٹبلز کا سہارا لینا پڑا سادہ اکثریت بھی نہ تھی اتحادی مجبوری تھے لیکن اسے اپنے پانچ سال پورے کرنے چاہئیں جس طرح انہوں نے پورے کئے