وزیر اعظم عمران خان قوم سے خطاب کر رہے ہیں، دھمکی آمیز خط سے متعلق امریکا کا نام لے لیا
اپنے خطاب کے آغاز میں وزیراعظم عمران خان نے قوم سے کہا کہ وہ آج اپنے دل کی باتیں کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مقصد عظیم تھا، ہمیں اسلامی فلاحی ریاست بننا تھا، کیونکہ اس سے براہِ راست ریاست مدینہ کا تصور ملتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسلامی ریاست کے بنیادی اصول اپنے منشور میں لکھے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے تھے کہ ’آپ کو سیاست میں آنے کی کیا ضرورت تھی؟‘
انہوں نے صوفی بزرگ کے قول کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا، اللّٰہ نے ہمیں پر دیے، لیکن انسان چیونٹیوں کی طرح دینگتا رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے وہ وقت دیکھا جب پاکستان ترقی کر رہا تھا، دنیا میں پاکستان کی ترقی کی مثالیں دی جاتی تھیں، لوگ یہاں دیکھنے آتے تھے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بعد میں ہم نے اس ملک کی ترقی کو نیچے آتے اور ذلیل ہوتے دیکھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ اللہ نے ہمیں عظیم صلاحیتیں دی ہیں، لیکن اس کے لیے رسٹرکشنز لگائی ہیں۔ اقبال کا شاہین کس وقت اوپر جاتا ہے، جب وہ اپنے سامنے مسائل کا سامنا کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے پاکستان میں بچوں کو سیرت النبیﷺ پڑھانا چاہتا ہوں کیونکہ وہ عظیم ترین شخص تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیشہ کہا کہ میں نہ کبھی کسی کے سامنے جھکوں گا نہ ہی اپنی قوم کو جھکنے دوں گا۔ مجھے جب اقتدا ملا تو فیصلہ کیا کہ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں تھا کہ میں بھارت یا امریکا مخالف ہوں گا، میں ان ممالک کے لوگوں کے مخالف نہیں ہوں، ان کی پالیسی کے خلاف ہوں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں ہم سے کہا گیا کہ امریکا زخمی شیر کی طرح ہے، ایسا نہ ہو کہ ہمیں مار دے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد میں نے بار بار کہا کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے، 9/11 میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا، تو ہم اس جنگ میں کیوں جائیں؟
انہوں نے کہا کہ 1980 کی دہائی میں یہ تاثر بن گیا کہ ہم امریکا کے اتحادی ہیں، سویت یونین کے خلاف ہیں، یہاں قبائلی علاقوں میں جنگ ہوئی۔
سویت افغان کے جنگ کے اختتام پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جو امریکا سویت یونین کے خلاف جنگ میں ہمارا اتحادی ہے وہ یہاں سے جانے کے بعد ہم پر پابندیاں لگادیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا قبائلی علاقے میں جرائم نہیں ہوتھے تھے، لیکن 9/11 کے بعد کی صورتحال سے متعلق نہیں بتا سکتا کہ ان لوگوں پر کیا گزری۔
وزیراعظم نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں شورش کے دوران جو لوگ بچ گئے وہ معذور ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ دیا، کیا کبھی کسی نے ہم سے کہا کہ ’شاباش پاکستان‘۔؟
انہوں نے کہا کہ مدارس پر ڈرون حملے ہوئے، بچے مارے گئے، شادیوں کی تقریبات پر بھی ڈرون حملے ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے خلاف بولنے سے ہمارے سیاست دان ڈرتے ہیں، کہیں امریکا ناراض نہ ہوجائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب حکومت ملی تو پہلے دن کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستان کے لوگوں کے لیے ہو، کسی کے خلاف نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے خلاف اس وقت بات کی جب انہوں نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق 5 اگست کا اقدام کیا۔
اپنی تقریر کے دوران عمران خان یہ نام لے لیا کہ ’ہمیں 8 مارچ کو امریکا سے خط آیا‘ وزیراعظم نے اتنے الفاظ ہی کہے تھے کہ انہیں غلطی کا احساس ہوا اور واپس کہا کہ ’ایک ملک سے خط موصول ہوا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان عدم اعتماد میں ہار جاتا ہے تو پھر ہم پاکستان کو معاف کردیں گے، لیکن اگر یہ تحریک ناکام ہوتی ہے تو پاکستان کو برے وقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ جو تین لوگ انہیں پسند آئے اس کی کیا وجہ ہے؟ پرویز مشرف کے دور میں 11 ڈرون حملے ہوئے، لیکن ان دونوں کی 400 سے زائد حملے ہوئے لیکن ان کا ایک مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر میرے آرمی چیف کو کوئی برا بھلا کہے اور مجھے اچھا کہے تو میں کیسے چپ رہوں؟ مودی نواز شریف کے گھر شادیوں میں آرہا تھا جبکہ جنرل راحیل شریف کو برا بھلا کہ رہا تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم امن میں آپ کے ساتھ ہیں لیکن جنگ میں آپ کے ساتھ نہیں ہیں، جب خارجہ پالیسی آزاد ہو تو آپ ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں۔