پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے جس میں 3اپریل کے حکومتی چال کو آئین کے مترادف قرار دیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے جس میں 3اپریل کے حکومتی چال کو آئین کے مترادف قرار دیا ہے۔ عمران خان جس طرح آئین مخالف کردار ادا کرتے ہوئے اپنے خلاف عالمی سازش کا ڈرامہ پیش کرتے ہوئے اپنے ڈپٹی اسپیکرکے معرفت پہلے سے طعہ شدہ منصوبے کے معرفت عدم اعتماد کی تحریک کو رد کرواکر بعد میں قومی اسیمبلی کو تحلیل کرنے کا جو عمل کیا وہ آئینی تقاضوں کے مطابق نہیں تھا۔ عمران خان کے اس عمل پر ملک کے ہر باشعور فرد نے تنقید کی۔ سپریم کورٹ کی طرف سے اس عمل کا ازسرخود نوٹس لیا گیا اور 7 اپریل کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے نہ صرف قومی اسیمبلی کو بحال کیا بلکہ اس نے عدم اعتماد کی تحریک کو دوبارہ عمل میں لانے کا حکم بھی صادر فرمایا۔ اس عمل سے سپریم کورٹ نے ”نظریہ ضرورت“ کے غیرآئینی اور غیر جمہوری روایت کو دفن کرکے عوام کے امنگوں کی ترجمانی کی۔
پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) سمجھتی ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ آئین کے مطابق ہے مگر صرف یہ فیصلہ ملک کے حالات کو درست نہیں کرسکتا۔پاکستان برسوں سے کرپشن اور اقرباپروری کے جس دلدل میں دھنسا ہوا ہے اس سے نکلنے کے لیے عوام کی بھرپور جدوجہد درکار ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیاں جو کشمکش جاری ہے وہ عوامی حقوق کے لیے نہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ دراصل حکمران طبقے اور ان کے حواری اس قسم کے بحران پیدا کرکے عوام کا دھیان حقیقی مسائل سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ملک میں جمہوری روایات قائم ہوں اور عوام کو ان کے چھینے ہوئے حقوق حاصل ہوں۔ اس وقت ملک جن حالات سے گذر رہا ہے اس میں مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ عمران خان کی حکومت کے پاس بیکار بہانوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ حزب اختلاف کے پاس ایسا پروگرام نہیں جس میں بیروزگاری اور مہنگائی کم کرنے کا کوئی راستہ ہو۔
پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) عدلیہ کے حالیہ فیصلے کو درست سمت میں ایک قدم ضرور سمجھتی ہے مگر ملک میں موجود مسنگ پرسنس سے لیکر انسانی حقوق کی شدید ترین پائمالی تک بہت سارے اشوز ایسے ہیں جس پر عدلیہ کو موثر کردارا دا کرنا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اب تک جمہوری اقتدار کی ترجمانی نہیں کرتی۔ اب تک ہماری ملکی معیشت آئی ایم ایف کے زیردست ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرض کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ہے اور عوام مختلف ٹیکسز کی صورت مں حکمرانوں کی کرپشن کا جرمانہ ادا کرنے پر مجبور ہے۔ ملک میں طبقاتی ظلم ہر روز بڑھتا جا رہا ہے۔ کسان اور مذدور طبقہ پیٹ بھرنے کے قابل نہیں رہا ہے۔ جب کہ عورتوں کے حقوق ابھی تک قانونی اور سماجی روایات کے قید میں ہیں۔ ملک میں آئے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کا باعث پورا معاشرہ خوف اور دہشت کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں ملک کی انقلابی جماعتوں کو مل کر عوامی حقوق کی بازیابی کے لیے مضبوط محاذ بنانا چاہیے۔
ہماری تعلیم کا نظام ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ علاج نہ ہونے کی وجہ سے غریب لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ امن امان کی صورتحال خطرناک حد تک خراب ہو چکی ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا سیاسی استعمال ایک ایسی روایت بن چکا ہے جس کو چیلینج کرنے کے لیے ملک کے باشعور افراد کے پاس کوئی لاحیہ عمل نہیں ہے۔ ایسے حالات میں بنیادی تبدیلی صرف اس صورت میں آسکتی ہے جب بائیں بازو کی سامراج مخالف قوتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ناانصافی کے خلاف بھرپور کردار ادا کرنے کے لیے تیار نوجوانوں اور محنت کشوں کی نمائندگی کرے۔ پاکستان میں جب تک زرعی اصلاحات حقیقی طور پر عمل میں نہیں آئیں گے اور ملٹی نیشنل سرمائیداری کی عوام دشمن راہیں نہیں روکی جائیں گی تب تک حقیقی معنی میں ملک اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا ہے۔ عوام اس وقت حقیقی متبادل کے منتظر ہیں اور کرسی کا کھیل کھیلنے والی اقتدار پرست جماعتیں اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ بذات خود مسئلہ ہیں۔