ان آنکھوں میں کوئی خواب بھی تو آئیں!‘‘
محمد خان داؤد
ان آنکھوں میں کوئی خواب بھی تو آئیں!‘‘
محمد خان داؤد
وہ عورتیں جو کہیں دور دراز جگہوں خوشبو بھرے پانی کے ٹپوں میں اپنے جسموں کو نہیں دھو تیں۔وہ عورتیں جو خوشبو ملے پانی کے بعد،،سن باتھ،،نہیں لیا کرتیں۔وہ عورتیں جو اپنے شوہروں کے ساتھ نہیں رہتیں۔اگر رہنے کی غلطی کرتی بھی ہیں تو بچے نہیں جنتیں۔اگر بچے بھی جنتی ہیں۔تو اتنے بچے نہیں جنتی جتنے بچے میری دادی کے تھے یا جتنے بچے میری ماں کے!وہ عورتیں جو بس اپنے کپڑوں کا ہی نہیں۔اپنے چھیرے کا ہی نہیں پر اپنے ناخنوں کا بھی خیال ایسے رکھتی ہیں جیسے دھات میں پہلی دفعہ ماں بننے پر کوئی بچی اپنے بچے کا خیال رکھتی ہے۔وہ عورتیں جو اپنی ملبوسات کے میچنگ کے جو تے پہنتی ہیں۔وہ عورتیں جو کسی نہ کسی سیاسی ونگ کا حصہ ہیں۔جو پارٹی میٹنگ میں بہت ہی باروبن نظر آتی ہیں۔وہ عورتیں جو کبھی بھی اپنے ملازم کو اس کے نام سے نہیں بلا تی۔ڈرائیور کو ڈرائیور!کُک کو کُک!مالی کو مالی!اور چوکیدار کو چوکیدار ہی کہتی ہیں۔یہاں تک کہ ان ملازموں کی عمریں گل سڑ جا تی ہیں پر ان کو ان گھروں میں ان بیبیوں سے وی عزت نہیں ملتی جن کے وہ متہمنی ہو تے ہیں
اور عزت کیا ہو تی ہے کہ بس انہیں وہ میم صاحب ایک دن نام سے بلائے!
انہیں احمد کہے!انہیں رشید کہے!انہیں صالم کہے!
نہیں ان گھروں اور ان گھروں کی یہی روش رہتی ہے کہ یہاں پر انہیں نام سے نہیں بلانا وگرنہ یہ سر پر چڑھ جائیں گے۔پھر آنی والی نسلیں بھی انہیں چوکیدار،کُک۔ڈرائیور ہی پکارتے ہیں۔
حالانکہ وہ میمیں ہی نہیں پر وہ بچے بھی یہ بات جانتے ہیں کہ یہ چوکیدار جب سے یہاں ہے جب سے ان کی میمی یہاں پر بہا کر لائی گئی ہے۔
وہ عورتیں جو اپنے ہاتھوں پر مہکتے لوشن نہیں ملتی ہیں۔وہ عورتیں جو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بوفوں کا ڈنر لیتی ہیں۔وہ عورتیں جو مہکتے کمروں سے نکل کر مہکتی گاڑی میں سوار ہو جا تی ہیں۔اور مہکتی گاڑی سے اتر کر پھر مہکتے کمرے میں برجمان ہو جا تی ہیں۔وہ عورتیں جو انگریزی میں سوچتی ہیں۔انگریزی میں گالی دیتی ہیں اور جب شریر بچہ باز نہیں آتا تو اپنی ماں کی بولی میں انہیں موٹی گالی دیتی ہیں۔وہی عورتیں اپنے گھروں میں ملازموں کو گالی بھی انگریزی میں دیتی ہیں۔وہ عورتیں نہیں جو بس سگریٹ ہی نہیں پر انگور کا پانی بھی پیتی ہیں۔وہ عورتیں نہیں جو عورتوں کے حقوق کی بہت بڑی داعی ہیں۔وہ عورتیں نہیں جو جب غریبوں کے محلے میں جا تی ہیں تو اپنے منہ پر رومال رکھ دیتی ہیں۔اور وہی عورتیں جب خوشبو بھرے ہالوں میں داخل ہو تی ہیں تو ان ہی غریب عورتوں کی سب سے بڑی حمائتی بن جا تی ہیں۔
وہ عورتیں نہیں جن کے موبائل فونوں میں شہر کے طاقتور فسادیوں کے نمبر فکسڈ ہو تے ہیں اور وہ ان نمبروں سے گیم کرتی رہتی ہیں۔وہ عورتیں نہیں جو بہت عریاں لباس پہنتی ہیں۔جن کے پیٹ اچھی خوراک سے بھرے رہتے ہیں اور وہ شہر کی عالی شان ہوٹلوں میں بھوک پر لیکچر دیتی نظر آتی ہیں۔
وہ عورتیں نہیں جو اپنے سے ایک روپیہ بھی نہیں کما تیں پر ان کے پرس کریڈٹ کارڈ اور کیش سے بھرے ہو ئے ہو تے ہیں۔جن کے اے ٹی ایم چلتے پھرتے بولتے سانس لیتے انسان ہو تے ہیں وہ جیسے ہی حکم کرتی ہیں۔وہ چلتے پھرتے سانس لیتے اے ٹی ایم پیسے اگلانا شروع کر دیتے ہیں۔
وہ عورتیں جنہوں نے اپنی زندگی میں ایک اینٹ کیا پر کسی گائے کا گوبر بھی نہیں اُٹھایا ہوتا وہی عورتیں مزدوروں کے عالمی دن پر،،بھٹہ عورت مزدور،،پر لیکچر دے رہی ہو تی ہیں!
وہ عورتیں جنہوں نے کبھی ناک اور کان نہیں چھدوائے۔جن عورتوں کے ایسے کوئی خواب نہیں جو پو رے نہیں ہو ئے پھر بھی خوشبو والے بند ہالوں میں خوابوں کے پو رے نہ ہونے پر افسردہ باتیں کرتی ہیں۔
یہ عورتیں آج کے دن پر ایسی اداکا ری کر رہی ہیں کہ تمام ایکٹنگ اسکول ہی بند کر دیے جائیں!
یہ مہکتے بدن والی بیبیاں آج کے دن پر قابض ہو چکی ہیں پر وہ یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں کہ یہ آج کا دن ان کا نہیں ہے۔یہ شہر کے عالی شان ہوٹلوں میں اپنے چھیروں پر لائیٹ سا میک اپ کر کے اپنے بدن پر تیز خوشبو مل کر ان پروگراموں میں جا رہی ہیں۔پر وہ یہ بات جانتی ہیں کہ وہ مزدور نہیں ان کے پڑھے لکھے شوہر مزدور نہیں ان کا سرمائیدار باپ مزدور نہیں۔اور ان پھٹی جینز والا بیٹا جو رات کو جاگتا ہے اور دن کو سوتا ہے مزدور نہیں۔پر وہ بی بی پھر بھی ڈرائیور کے ساتھ ہیں جا رہی ہے جہاں ان جیسی بہت سی بی بی اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے لیے موجود ہیں۔وہ بیبیاں ایک دوسرے کے کپڑے دیکھیں گی ایک دوسری کی جھوٹی تعاریف کریں گی۔ایک دوسرے کے بدن کی خوشبو کو محسوس کریں گی۔
ایک دسرے کے ڈھلتے جسموں کو دیکھیں گیں۔ایک دوسرے سے اپنے چھیرے کی جھریاں چھپائیں گی اور دل ہی دل میں خوش ہونگی کہ وہ فلاں سے ابھی زیا دہ جوان دکھتی ہے۔
پر وہ بیبیاں یہ نہیں جانتیں کہ جن مزدور عورتوں کے نام آج وہ شہر کے عالی شان ہوٹل میں جمع ہیں اور اس ہوٹل کا پر مغز ڈنر کھا چکی ہیں وہ عورتیں کس حال میں ہونگی۔جو دن کو سخت مزدو ری کر تی ہیں اور رات کو جگیوں میں سخت جنسی تشدد بر داشت کرتی ہیں۔وہ بیبیاں یہ بات نہیں سمجھ پائیں گی کہ وہ عورتیں جو اپنی فزیکلی عمر سے بچیاں دکھتی ہیں وہ اتنی جلدی مائیں کیوں بن جا تی ہیں؟!!
وہ مہکتے بدن والی بیبیاں یہ نہیں جان پائیں گی کہ وہ بچیاں اتنی تیزی سے بچے کیوں جنتی ہیں؟!
ایک بچہ اتنا چھوٹا ہے کہ اسے ماں کے دودھ کی اشد ضرورت ہے۔دوسرا بچہ ماں کی سوکھی چھاتی سے دودھ تلاش کر رہا ہے اور تیسرا بچہ بس آنے کو ہے!
تو یکم مئی ان بیبیوں کا نہیں ہے جن کے جدید موبائل فونوں میں شہر کے مہنگے ہوٹلوں کے کیپچر کیے فوٹو محفوظ ہیں نہیں یہ دن ان کا نہیں ہے۔پر یہ دن تو ان بیبیوں کا ہے جن بیبیوں نے بہت ہی چھوٹی عمر میں اپنی بیبو کے ساتھ گوبر کے اپلے اُٹھائے۔اپنے ناک اور کان چھدوائے۔جب شعور بھری ہوئیں تو اپنے ایک کمر پر بچہ اور دو سری کمر پر بھٹہ سے سریں!
یہ دن ان بیبیوں کا ہے جن کی آنکھوں میں کوئی نیند نہیں اور کوئی خواب نہیں!
جن بیبیوں اور جن آنکھوں کے لیے مشفق خواجہ نے کہا تھا کہ؛
،،ان آنکھوں کو میں کیسے آنکھیں مان لو
ان آنکھوں میں کوئی خواب بھی تو آئیں!،