وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: امبر کو چھونے چلا میرا بلوچستان
وسعت اللہ خان
تجزیہ کار
تین مشہور جاپانی بندروں کی کہانی تو آپ نے سنی ہو گی۔ نہیں سنی تو تصویر ضرور دیکھی ہو گی۔ ایک بندر نے منھ پر، دوسرے نے کانوں پر اور تیسرے نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ یعنی نہ بُرا کہو، نہ بُرا سنو، نہ بُرا دیکھو۔
جب بھی میں کوئی ملی نغمہ سنتا یا دیکھتا ہوں تو مجھے یہ تینوں یاد آ جاتے ہیں۔
کسان کھیتوں میں جھک سفید کپڑے پہنے ناچ رہا ہے، مزدور سلیقے سے بال سنوارے خوشی خوشی خراد مشین چلا رہا ہے، کلکاریاں مارتے بچے تالاب میں چھلانگ لگا رہے ہیں، بچیاں کڑک یونیفارم پہنے ترو تازہ چہرے لیے گاؤں کے نویں نکور سکول میں داخل ہو رہی ہیں۔
جیل کے صدر دروازے پر قومی جھنڈا لہرا رہا ہے اور قیدی قطار میں کھڑے جانے کس خوشی میں ٹھمک رہے ہیں۔ چاق و چوبند دستے مارچ پاسٹ کر رہے ہیں۔ ایک منظم ہجوم کے ہاتھ میں سوائے قومی پرچم کے کچھ نہیں۔
پنکھے چل رہے ہیں، ٹیوب ویل سے موٹی موٹی دھاریں نکل رہی ہیں، پائلٹ ہنستے ہنستے جہاز کو ایڑ لگا رہے ہیں، راہگیر کیمرے کی جانب دیکھتے ہوئے چمکتی بتیسی نکوس رہے ہیں۔ اور اس بیچ نجات دھندہ کا دمکتا چہرہ بھی بار بار درشا رہا ہے۔
سونے جیسی زمین، چاندی جیسے لوگ، چاروں طرف خوشحالی اور مسرتوں کا سیلاب۔ یہ ہے اصلی وطن۔
میں جب بھی ایسے ملی نغمات سنتا یا دیکھتا ہوں تو مجھے ہر اس دانشور، سیاست داں، لکھاری، ٹی وی چینل، اخبار، صحافی، اینکر اور تجزیہ نگار سے بیزاری سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ جس کے خیال میں کچھ اچھا نہیں ہو رہا۔
وہ ہمیں بس یہی بتا رہا ہے کہ جیلوں کی حالت بری ہے، عدالتیں کچھوا چھوڑ گونگھے کی رفتار سے بھی نہیں چل پا رہیں، جس کے پاس اثر و رسوخ یا پیسہ ہے قانون اس کا غلام ہے، آئین خود بے آئین ہے۔
مہنگائی سے عام آدمی پس رہا ہے، بے روزگاروں کی فوج بولائی بولائی پھر رہی ہے، سڑکیں ادھڑی ہوئی ہیں، نالیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، سکولوں کی چھت جھک چکی ہے، ہسپتال میں مریض برآمدوں میں پڑے ہیں، سگنلز پر بھکاریوں کی فوج ہے، بچیاں چھوڑ اب تو لاشیں بھی ریپ سے محفوظ نہیں۔
نوجوان ملک چھوڑنا چاہ رہے ہیں، رشوت کے نرخ بڑھ گئے ہیں، ہر دوکان دار کی اپنی بادشاہت اور اپنا پاکستان ہے۔شہری دن دھاڑے غائب ہو جاتے ہیں اور ان میں سے بہت کم صحیح سلامت چہرے کے ساتھ لوٹتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔