گھوٹکی کے کچے کے علائقے میں ایک ڈی ایس پی، دو ایس ایچ او اور کئی جوان شہید و زخمی ہوئے ہیں۔ کچے کے متعلق کچھ زمینی اور تاریخی حقائق معذرت کیساتھ

Pinterest LinkedIn Tumblr +

تحریر : نیاز احمد کھوسہ ایڈووکیٹ

گھوٹکی کے کچے کے علائقے میں ایک ڈی ایس پی، دو ایس ایچ او اور کئی جوان شہید و زخمی ہوئے ہیں۔ کچے کے متعلق کچھ زمینی اور تاریخی حقائق معذرت کیساتھ۔

جس طرح فوج نیوی کی جگہ کام نہیں کرسکتی یا ایئر فورس بری افواج کی جگہ کام نہیں کرسکتی اسی طرح کچے کے علائقے میں پولیس کچھ نہیں کر سکتی، کچے کا علائقہ کچھ اس طرح کا ہے کہ وہاں بری فوج بھی نیوی اور ایئر فورس کی مدد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی ۔

کچے میں آپریشن پولیس کے بس کا کام نہیں ہے، آگر پولیس یا رینجرز کو کچے میں آپریشن کرنا پڑے تو اس طرح لاشیں ہی اُٹھائی جاتی رہیں گی، پولیس کی آگر اسطرح کی تربیت ہوتی تو وزیرستان آپریشن، سوات آپریشن، کراچی آپریشن، بلوچستان آپریشن پولیس نے کیئے ہوتے،

ہماری پولیس اور سیاسی قیادت ایک میٹرک کے طالب علم سے یونیورسٹی کا امتحان لینا چاہتے ہیں۔ آگر اس طرح کیا جائے گا تو نتائج لاشوں کے بجائے کچھ بھی نہیں ہوگا ۔
جہاں بھی بھارت کی مداخلت کے بعد اپنے لوگ ہتھیار اٹھا لیتے ہیں وہاں فوج نے ہی ان کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے۔

سندھ میں ڈاکو راج، کاپی کلچر، کلاشنکوف کلچر، ہیروئن کلچر، کراچی میں ایک لسانی تنظیم کی بنیاد رکھنے کا سہرا جناب ضیاالحق صاحب کے سر ہے،
جناب ضیاالحق کے دور میں سندھ میں اغوا برائے تاوان کی انڈسٹری نے زور پکڑا اور دیکھتے دیکھتے حیدرآباد سے لیکر کشمور تک دریائے سندھ کا کچہ اسلحہ اور ڈاکوئوں سے بھر دیا گیا۔

دریائے سندھ تبت سے نکلتا ہے اور چترال سے پہلے پاکستانی حدود میں داخل ہوتا ہے سوال یہ ہے کہ پنجاب کے 646 کلومیٹر کچے کا علائقہ پُرآمن ہے اور کشمور سے لے کر حیدرآباد تک 463 کا علائقہ کسی میدان جنگ سے کم نہیں۔ اب کے حالات یہ ہیں کہ آگر فوج نے بھی اچانک کوئی آپریشن شروع کیا تو فوج کا بھی جانی نقصان ہوگا ۔ آگر اعلانیہ آپریشن شروع ہوا تو کچے کے آغوا کار اسلحہ مٹی میں دبا کر ادہر اُدھر نکل جائیں گے اور فوج کے واپس چلے جانے پر وہ بھی واپس آجائیں گے۔

جناب ضیاالحق کے دور میں ہی کراچی میں سہراب گوٹھ، لیاری، کٹی پہاڑی اور کچھ دوسرے علائقے نوگو ایریا بنے، اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری خرابیاں سندھ میں کیوں پروان چڑاہی گئی ہیں ؟ یہ علائقے لاہور، اسلام آباد، مُلتان کوئٹہ اور پشاور میں کیوں نہیں ہیں ؟؟؟؟؟
اس کا جواب یہ ہے کہ علائقہ اضراب اور انتشار کا شکار رہے، بدنام ہو، کاپی کلچر کی وجہ سے تعلیم میں پیچھے رہے، بدامنی کی وجہ سے اقتصادی ترقی رُک جائے، اغوا برائے تاوان اور بھتہ کلچر کی وجہ سے عوام پریشان اور غریب سے غریب تر ہوتے جائیں۔

ضیاالحق صاحب نے جب کراچی میں یونٹ انچارج اور سیکٹر انچارج کی شکل میں منظم انداز میں مسلح گروپ بنائے تو وہ لوگ آگے چل کر بھارتی ایجنسی را سے مل گئے اور فوج کو کراچی میں مسلح گروپوں کی کاروائیاں روکنے کیلئے آپریشن کرنا پڑا اور اب لگتا یہ ہے کہ کچے کے علائقے میں بھی را کا اثر رسوخ بڑھ گیا ہے آج فوج جن مسلح کچے کی قوموں کو نظر انداز کر رہی ہے کل کہیں یہی لوگ طالبان کی طرح درد سر نہ بن جائیں ۔

اس کا حل بھی چیف آف آرمی اسٹاف کے پاس ہے کہ جناب ضیاالحق کے دیئے ہوئے روڈ میپ کو منسوخ کرے اور کچے کی کرمنل مسلئح گروپوں کو ختم کرنے کیلئے آرمی کو حُکم کرے کہ علائقے کو کلیئر کریں تاکہ سندھ میں بسنے والے ہر قوم کی عوام سُکھ کا سانس لیں ۔

Share.

Leave A Reply