احساسات!!!
پاکستانی مسائل اور افغان مہاجرین
رضوان احمد گدی(حیدرآباد)
پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی انگریز سامراج کے سرحدی امور و تقسیم سے متعلق ریڈ کلف ایوارڈ کی وجہ سے بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان سے ڈیورنڈ لائن سرحدی امور پر تنازع کا شکار رہا یوں یہ نوزائدہ مملکت دو اطراف سے دشمنوں میں گھر گئی اور ہم 1950 میں امریکن بلاک کا حصہ بننے کا فیصلہ کر چکے تھے انڈیا اور افغانستان سوویت یونین بلاک کا حصہ بن چکے تھے اور یوں سرد جنگ ہم پر شروع میں ہی مسلط ہو گئی سپر پاور سوویت یونین بھی خطہ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتا تھا افغانستان میں وہ اپنے قدم جما چکا تھا اور پاکستان میں اشتراکی لٹریچر کے ذریعے اس کے بہت سے ہم نوا موجود تھے جو اسلام بیزاری اور روس کی حمایت کرتے تھے بالآخر 1971 میں پاکستان ان عالمی شازشوں، نااہل سیاستدان،فوجی جنتا کی ناکامی کے باعث ٹوٹ گیا بھٹو صاحب باقی ماندہ پاکستان کے سربراہ بنے تو دوسری طرف امریکہ کے ایماء پر اسرائیل سے عرب مار کھا چکے تھے اور عرب اور پاکستان میں مسلم بیداری کی لہر تھی اور مسلم دنیا نے اوپر اٹھنے کا فیصلہ کیا مسلم سربراہ کانفرنس لاہور اسی سلسلے کی کڑی تھی یہ ساری صورتحال میں یورپ اور امریکہ نے عربوں کو الجھانے کے لئے ایک مسلمان ملک ایران میں اسلامی انقلاب جو بعد میں شعیہ انقلاب میں تبدیل ہوا اور 1979 میں ایران میں امام خمینی صاحب برسراقتدار آ گئے اس طرح صدیوں سے پسے ہوئے اہل تشیع پہلی بار ایک ریاست کے مالک بن گئے اور اپنے عقیدے کے پھیلاؤ کے لئے عرب و پاکستان میں کوشش کرنے لگے جو کہ عرب اور پاکستان میں سنی طبقہ کو تشویش و تحفظات تھے تو اس طرح پاکستان پہلے بھارت،پھر افغانستان اور اب ایران کی جانب سے دراندازی اور سازشوں کا سامنا کر رہا تھا سونے پہ سہاگا روس افغانستان میں آ گیا اور اب اس کی نظر پاکستان پر تھی اور وہ پاکستان کو امریکن بلاک میں شمولیت پر سزا دینا چاہتا تھا جبکہ پاکستان میں بہت بڑا طبقہ اسلام کو پسند کرتا تھا اور امریکن نے اسی ہتھیار سے ویت نام میں روس کے ہاتھوں بدترین شکت کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا اور اس نے افغانستان میں روس کو الجھانے اور بدلہ لینے کے لئے پاکستانی سرزمین کا انتخاب کیا پاکستان مشرقی پاکستان میں ہزیمت کے بعد دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے اپنا ایٹمی پروگرام خاموشی سے جاری رکھے ہوئے تھا جو مغرب اور امریکہ کو بلکل قبول نہیں تھا اور بھٹو صاحب پھانسی کے پھندے پر لٹک کر اس کی قیمت چکا چکے تھے پاکستان نے جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں اس عالمی طاقتوں کی جنگ میں اترنے کا فیصلہ کیا کہ تین اطراف سے پاکستان دشمنوں میں گھرا ہوا تھا ایک افغان بارڈر تو محفوظ ہو لیکن جیسے ہی افغانستان میں 1980 میں پاکستان اور امریکہ کے تیار کردہ مجاہدین نے مزاحمت شروع کی تو افغانستان سے لاکھوں مہاجرین کا سیلاب آ گیا جو شروع میں مہاجرین کیمپوں میں رہے اور کمر سیدھی ہوتے ہی پاکستان بھر میں پھیل گئے دوسری طرف سے پاکستانی اشرافیہ کے لئے بھی اس جنگ کی بدولت ڈالروں کا سیلاب آ گیا تو وہ جامع پلاننگ کے بجائے اشرافیہ،سول بیوروکریسی،سیاسی و مذہبی طبقے نے اس میں بھی کاروبار ڈھونڈ لیا افغانستان سے لوگ ہجرت کر کے پہلے کوئٹہ،پشاور،قبائلی علاقوں میں آتے اور ناقص سیکورٹی لاچار سول بیوروکریسی کی بدولت پورے ملک میں پھیل جاتے اس وقت افغانستان جنگ زدہ حالت میں تھا مغربی ممالک،عرب اور امریکہ افغانستان کی مدد کر رہے تھے اور ان پر سفری سہولیات میں نرمی تھیں لہذا افغان لوگوں کے ایک طبقہ نے اس صورت حال کا فائیدہ اٹھاتے ہوئے افیون کاشت کرتے ہوئے نیا نشہ ہیروئن تیار کی اور پیسے کمانے کے لئے پاکستان اور یہاں سے پوری دنیا میں سپلائی شروع کر دی پاکستان کی سیکورٹی اہلکاروں،سیاسی شخصیات،سول بیوروکریسی کے لوگ راتوں رات اس دور اس کاروبار سے کروڑ پتی،ارب پتی بن گئے دوسری طرف افغان لوگوں کو جو ہتھیار روس سے لڑنے کے لئے دئیے گئے وہ بھی چوری چھپے پاکستان میں فروخت ہونے لگے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جہاں پاکستان کے قوانین کا کم نفاذ ہوتا تھا وہاں مقامی طور پر اسلحہ زیادہ تعداد میں تیار کیا جانے لگا کہ یہ افغانستان میں مزاحمت کے لئے کام آئے گا لیکن افغان مہاجرین کے ذری رخ رخعے وہ بھی پاکستان کے گلی کوچوں میں پہچنے لگا اس طرح پاکستان ہیروئن اور کلاشنکوف کے سمندر میں غرق ہو گیا اور اس کو روکنے کے ذمہ دار پیسوں کے لالچ میں پاکستان کو غرق کرتے گئے 1980 کی دہائی میں پاکستان میں ایران کی ایماء پر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ بنائی گئی تو کاؤنٹر کے لئے سپاہ صحابہ کی تشکیل ہوئی اور دیوبندی،وہابی جماعتیں افغانستان کے جہاد کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی جہاد شروع کر دیا اور پاکستان فرقہ واریت و لسانیت اور بدامنی کا شکار ہو گیا دوسری طرف انڈیا نے بھی سندھ اور بلوچستان میں ناراض لوگوں پر ہاتھ رکھ دیا اور وہ بھی آسانی سے دستیاب اسلحہ لیکر مسلح ہو گئے اور 1980 کی دہائی میں افغان مہاجرین و مجاہدین اور انڈین را کی بدولت پاکستان میں کئی مسلح گروہ تیار ہو گئے جو بعد میں بڑی تباہی کا باعث بنے افغانستان سے تین طرح کے طبقوں نے پاکستان ہجرت کی ایک طبقہ جس نے پاکستان آتے ہی یہاں کی اشرافیہ سے دوستی تعلقات بنانے اور ان کی معاونت سے افیون،اسلحہ، اور اسمگلنگ کے ذریعے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ساتھ خود بھی اربوں روپے کمائے اور یہاں کے افسران و سیاستدانوں کو بھی اربوں پتی بنا دیا اور پاکستان میں بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک بن گئے اور پاکستان کے تمام ضروری کاغذات بنوا کر پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کیا اور اگر بیرونی ممالک میں پکڑے گئے تو پاکستان بدنام ہوا دوسرا طبقہ پاکستان آیا یہاں ہوٹلیں، دکانیں، کاروبار شروع کیا اپنے خاندان اور رشتے دار پاکستان لائے محنت کی اور یہاں تعلقات بنائے اور چھوٹی موٹی اسمگلنگ کے ذریعے خود بھی مالا مال ہوئے اور یہاں دوستوں کو بھی کیا اور تمام کاغذات بنوا کر یہ طبقہ بھی پاکستانی ہو گیا یہ دونوں طبقات ٹیکس و پاکستانی قوانین کو روندنے میں مصروف عمل رہے تیسرا طبقہ غریب افغانی تھے جن کے بچے آپ کو روڈوں پر کچرا چنتے نظر آئیں گے اور ماں باپ فاقہ زدہ اور ان کے کچھ بچے مدارس میں پڑھتے ہوئے بھوک،معاشرتی ناانصافی اور سماج کی وجہ سے جنگجو بن جاتے ہیں جنہیں درج بالا دو طبقوں نے پاکستان میں استعمال بھی کیا نائین الیون کے بعد انڈین اثرورسوخ کی بنیاد پر افغانستان کے ایک طبقہ نے انڈیا کا رخ کیا وہاں کاروبار کیا اور انڈین را کے پروپگنڈے کے باعث پاکستان کے دشمن بن گئے اور پاکستان میں بدامنی و تباہی کے درپے ہو گئے انڈیا پاکستان دشمنی میں انہیں ہر سہولیات دیتا ہے افغانستان کی کرکٹ ٹیم جسے کرکٹ کی طرف راغب پاکستان نے کیا آج کرکٹ کے میدانوں میں جب نام بن گیا تو وہ کرکٹ بھی اس طرح کھیلتے ہیں جیسے جہاد کر رہے ہوں اور پاکستان کو زچ کرنے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑتے انڈیا،اسرائیل و دیگر پاکستانی دشمن کے ذریعے افغانستان سے اسمگلنگ،اسلحہ مسلح جتھوں ٹی ٹی پی کی صورت میں پاکستان کی مسلح افواج اور معیشت پر حملہ کر کے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا پاکستان میں ماضی اور حالیہ ماہ میں جتنے خود کش دھماکہ ہوئے انمیں خود کش بمبار افغانستان سے آئے دہشت گردی کے واقعات ،فورسز پر حملے کے ماسٹر مائنڈ بھی افغانستان میں پائے گئے کراچی میں لاکھوں افغان غیر قانونی مقیم ہیں اور انمیں اکثر بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم میں ملوث پائے گئے اب دوبارہ طالبان کی اسلامی حکومت افغانستان میں برسراقتدار آئی جس میں پاکستان کی درپردہ کوشش بھی شامل تھی کہ افغانستان میں امن ہو انڈین اثرورسوخ ختم ہو اور مہاجرین واپس جائیں لیکن پاکستان کی یہ خواہش بھی خواہش ہی رہی سوال یہ ہے کہ اسلامی طالبان پاکستان میں مقیم مسلمانوں کو خودکش دھماکوں کے ذریعے معصوم لوگوں اور فوجی جوانوں کو شہید کرنے والوں سے صرف نظر کرنا اور ایٹمی پاکستان جسے دنیا ایٹمی اسلامی طاقت کے نام سے جانتی ہے اس ملک کی معیشت،امن و امان کو تباہ کرے امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد طالبان کی حکومت جسے امریکہ سے دوحا مذاکرات کے بعد مرحلہ وار افغانستان میں اقتدار سنبھالنا تھا لیکن طالبان کا دعویٰ کہ ہم ملک سنبھال سکتے ہیں اور عجلت میں کابل سمیت افغانستان پر قبضے کے بعد ملک کو چلانے کے لئے انہیں ڈالروں سمیت دیگر وسائل درکار تھے وہ کہاں سے آئیں گے ان کی انکے پاس آج تک کوئی پلاننگ نہیں ہے دنیا نے ان کی حکومت کو بدعہدی اور امریکی ڈر کے باعث تسلیم نہیں کیا وہ گزشتہ دو سال سے اسمگلنگ،افیون کی کاشت کے ذریعے ملک چلا رہے ہیں پاکستان میں شکر،گندم،پیٹرول،ڈالروں کے ٹرک کے ٹرک روزانہ پاکستان سے افغانستان جا رہے تھے اس میں پاکستان کی اشرافیہ و سول بیوروکریسی سیاستدانوں کی بڑی تعداد ملوث تھی جن کی وجہ سے وہ طبقہ تو راتوں رات امیر ہوتا گیا لیکن عام پاکستانی زندہ درگور ہوتا گیا کیونکہ ڈالر اوپر جانے اور اسمگلنگ کے باعث کی وجہ سے یہاں مہنگائی ناقابل برداشت ہوتی گئی دوسری طرف انڈین پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعے پاکستان میں یہ بات پھیلائی گئی کہ افغانستان میں ڈالر 60 روپے پیٹرول 27 روپے امن و امان مثالی ہے تو بھائی پھر دیر کس بات کی ہے اگر آپ کا ملک مثالی بن چکا ہے تو اب پاکستان میں افغان غیر قانونی مقیم باشندوں کو واپس چلا جانا چاہیے تا کہ وہ خوشحال ملک میں رہ سکیں حکومت پاکستان نے دیر آید درست آید کی مصداق صیح فیصلہ کیا کہ پاکستان میں تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جائے رجسٹرڈ مہاجرین و غیر ملکیوں کے لئے یہ حکم نہیں ہے ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی ہو پاکستان دشمن طاقتوں نے پاکستان کے نوجوان طبقہ میں مایوسی پھیلانے کے ذریعے پاکستان کو مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبا رہے ہیں آج پاکستان میں فلسطینی حماس کی ایرانی حمایت کا بہت چرچا ہے اور دل جلے پاکستانی ایٹم بم،فوج حکمرانوں پر پھبتیاں کس رہے ہیں جبکہ افغان بھائی جب امریکہ، روس کے خلاف جہاد کر رہے تھے تو ایران نے اپنی بارڈر بند کی ہوئی تھیں اور ان کی کسی قسم کی مدد نہیں کی اور یہ سارا جہاد کا وزن پاکستان نے اٹھایا اب سوال پیدا ہوتا ہے اس وقت ایران نے اپنے ازلی دشمن امریکہ کے خلاف اسلامی بھائی افغانستان کی مدد کیوں نہیں کی یہ دوسری بات ہے کہ اب حماس کی مدد کر کے ایران نے اسرائیل سعودیہ،عرب امارات کے معاہدوں کو سبوتاژ اور انہیں فلسطینیوں پر مظالم پر عربوں میں رسواء کیا ہے اور انکی ساکھ خراب کی ہے پاکستانی معیشت کو اسمگلنگ اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے پاکستان کو 3.3 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے اور افغانستان میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ گزشتہ مالی سال میں 4 ارب ڈالر سے 7 ارب ڈالر تک پہنچ گئی اور بدقسمتی سے پاکستان میں موبائل فون 74 فیصد،ڈیزل 53 فیصد،انجن آئل 43 فیصد،ٹائرز 40 فیصد، آٹو پارٹس 16 فیصد اسمگل ہو کر آتے ہیں اس کے علاؤہ پاکستان سے 150 ملین ماہانہ یعنی سالانہ 2 ارب ڈالر اسمگل ہوتے ہیں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور پیٹرولیم مصنوعات کی غیر قانونی اسمگلنگ سے پاکستان کو سالانہ 310 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے ڈیڑل پیٹرول کی اسمگلنگ کے باعث پاکستان کی آئل ریفائنری کی استعداد کم ہے اس کے علاوہ پاکستان کی گولڈ مارکیٹ 2200 ارب روپے ہے جس میں صرف 30 ارب روپے کا سونا قانونی طریقے سے پاکستان آتا ہے اس کے علاوہ اسی طرح بے شمار اعدادوشمار ہیں مختصر یہ کہ اس اسمگلنگ کے ذریعے ایران ، افغانستان اسلامی برادر ملک اور پاکستان کے سیاستدان، سول بیوروکریسی و اشرافیہ تو کھربوں پتی ہو گئے لیکن ٹیکس چوری،بدامنی،اشیائے خوردونوش و دیگر اسمگلنگ کے باعث ایک عام پاکستانی تباہی کا شکار ہے وہ آج دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہا ہے اگر یہ سارا مال قانونی طریقے سے آتا تو ٹیکس کے ذریعے خزانہ بھرتا اور عام آدمی خوشحال ہوتا اب جب نگراں دور حکومت میں سول و ملٹری بیوروکریسی نے طے کر لیا ہے کہ پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے تو دیر آید درست آید کی مانند ہم سب کو ملکر اپنی اور آنے والی نسلوں کے لئے حکومت کا ساتھ دینا چاہیے ڈوبتے پاکستان کو بچانے کے لئے یہ ازحد ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ان پاکستانی سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے جن کی وجہ سے آج یہ ملک اس حال میں پہنچا ہے اور غلط پروپیگنڈا اور مایوسی پھیلانے کا باعث بننے والوں کو بھی کیفر کردار پر پہنچانے سے ہی پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا