عمران خان کا آئی ایم ایف کو خط ’سیاسی غلطی‘ ہے یا نئی حکومت پر دباؤ بڑھانے کا مؤثر طریقہ؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے ترجمان کی جانب سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کو ایک خط ارسال کیا گیا ہے جس میں پاکستان کو بیل آؤٹ پیکج دیتے وقت سیاسی استحکام کو مدنظر رکھنے کی درخواست کی گئی ہے۔

یہ خط بانی پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرکو لکھا ہے اور گذشتہ روز سے ہی اس خط کے مندرجات اور اس کے اثرات کے بارے میں خاصی بحث جاری ہے۔

پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ نو ماہ کا پروگرام مارچ کے آخر میں ختم ہو رہا ہے اور ملک کو معاشی استحکام کے لیے اپریل سے آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام پر مذاکرات شروع کرنے ہیں۔

اس کی اہمیت کا اندازہ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے اس بیان سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان کی نئی

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی نئی حکومت کو فوری طور پر معاشی صورتحال کو ترجیح دینی چاہیے کیونکہ آئندہ کئی ماہ کی پالیسیاں پاکستانیوں کے لیے معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہوں گی۔‘

پاکستان میں عام انتخابات کے بعد آج وفاق میں حکومت سازی اور پارلیمانی عمل کا آغاز ہو گیا ہے اور قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں نومنتخب اراکین اسمبلی کی حلف برداری نے ایک نئے پارلیمانی دور کی بنیاد رکھی ہے۔

مگر اس سب کے درمیان ملک میں سیاسی عدم استحکام اور رسا کشی کی گونج اب بھی سنائی دے رہی ہے اور اس کی وجہ پاکستان تحریک انصاف کے جانب سے ملک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر دھاندلی اور مینڈیٹ چوری کے الزامات عائد کرنا ہے۔

مگر جہاں ملک میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال برقرار ہے وہیں ملک کے معاشی مستقبل پر بھی کچھ خطرات منڈلا رہے ہیں۔

تاہم اس سب کے بیچ عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کو لکھا گیا خط کس قسم کی اہمیت کا حامل ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ اس خط میں کیا لکھا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کے خط میں کیا لکھا گیا؟
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی ہدایت پر لکھے گئے خط میں عالمی ادارے سے کہا گیا ہے کہ وہ دو ہفتوں کے اندر قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 30 فیصد نشستوں کا آڈٹ یقینی بنائے اور بیل آؤٹ پیکیج کے وقت پاکستان کے سیاسی استحکام کو مدنظر رکھے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو مالی سہولت دینے سے پہلے گڈ گورننس کے ساتھ ساتھ دیگر شرائط رکھے۔

مزمل اسلم نے خط کے مندرجات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’صرف منتخب حکومت کے ساتھ ہی مذاکرات کیے جا سکتے ہیں اور پی ٹی آئی پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت ہے، پاکستان کے عوام کے اعتماد کی حامل منتخب حکومت ہی اس حوالے سے بات چیت کا اختیار رکھتی ہے۔‘

خط میں کہا گیا ہے کہ جب کسی ایسی حکومت کو ملک پر مسلط کیا جائے جسے عوام کی حقیقی نمائندگی حاصل نہ ہو تو اس کے پاس ملک کو چلانے کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہوتی اور ٹیکس کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کر سکتی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن پر 50 ارب روپے کے اخراجات آئے لیکن اس میں بڑے پیمانے پر مداخلت اور ووٹوں کی گنتی اور حتمی نتیجے میں فراڈ کیا گیا، یہ فراڈ اتنا واضح تھا کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک نے انتخابات کی شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ ہم حکومت سازی، قرضوں کی ادائیگی اور قانون کی حکمرانی کے لیے آئی ایم ایف کی ڈیل کی اہمیت سے آگاہ ہیں، پی ٹی آئی آئی ایم ایف کی سہولت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتی کیونکہ یہ وہ سہولت ہے جو ملک کی طویل مدتی معاشی بہبود کو فروغ دیتی ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آئی ایم ایف تحقیقاتی ادارے کا کام کرے لیکن فافن اور پٹن کولیشن 38 جیسے اداروں کے تعاون سے الیکشن کا شفاف آڈٹ کر کے تمام سٹیک ہولڈرز کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔

حکومت کو فوری طور پر معاشی صورتحال کو ترجیح دینا ہو گی۔‘

Share.

Leave A Reply