پاکستان کی سیاست میں مردوں کی اجارہ داری چلتی آرہی ہے جو ہمیں اگلے انتخابات میں بھی دکھائی دے گی۔ 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات میں کراچی جیسے بڑے شہر سے گنتی کی چند خواتین ہی انتخابی میدان میں موجود ہیں۔
پاکستان میں 1970 میں پہلی بار عام انتخابات کے بعد 8 فروری 2024 کو بارہویں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں اور اس دوران اسمبلیوں کے وقار میں اضافہ کرنے کے لیے انتخابی عمل میں درجنوں تبدیلیاں دیکھی گئیں لیکن خواتین اور اقلیتی برادری کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
آئین پاکستان کا آرٹیکل 34، تمام شعبوں میں خواتین کی بھرپور شرکت یقینی بنانے کا کہتا ہے لیکن بدقسمتی سے ملک میں ہونے والے پہلے عام انتخابات سے لیکر 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات تک خواتین کو اسمبلیوں میں کسی سیاسی جماعت نے یکساں مواقع فراہم نہیں کیے۔
ایوان میں خواتین کی اہمیت بڑھانے کے لیے سابق صدر پرویز مشرف نے آئین میں ترمیم کے ذریعے خواتین کے لیے مخصوص نشستیں بحال کرتے ہوئے ان کی تعداد 60 کردی تاکہ خواتین بھی مردوں کی طرح انتخابات میں حصہ لے سکیں لیکن 2013 کے انتخابات تک زیادہ تر سیاسی جماعتیں خواتین کو مخصوص نشستوں پر ہی ایوان کا حصہ بناتی رہی ہیں۔
اگرچہ الیکشن ایکٹ 2017 نے ہر سیاسی جماعت کو پابند کردیا ہے کہ وہ کم از کم 5 فیصد خواتین کو جنرل نشست پر ٹکٹ دیں گے لیکن اس میں بھی اکثر سیاسی جماعتیں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور جو زیادہ تر سیاسی جماعتیں خواتین کو ان حلقوں سے ٹکٹ جاری کرتی ہیں جہاں سے اس پارٹی کا جیتنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، یعنی وہ صرف قانونی پیچیدگی دور کرنے کے لیے ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے۔
اس حوالے سے فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ترجمان صلاح الدین صفدر کا کہنا تھا کہ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کا کوٹہ عارضی طور پر متعارف کیا گیا تھا جس کا بنیادی مقصد خواتین کو بااختیار بنانا تھا تاکہ وہ پارلیمنٹ میں مردوں کے ساتھ بیٹھ کر سیاسی عمل میں شامل ہوکر حلقہ کی سیاست کرنے کے قابل ہوجائیں لیکن افسوس اس کا مقصد اب تک پورا نہیں ہوسکا۔
پاکستان میں ہونے والی پہلی مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے ڈیٹا کے مطابق ملک میں ووٹرز کی مجموعی تعداد 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 ہے جس میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 92 لاکھ 63 ہزار 704 اور خواتین ووٹرزکی تعداد 5 کروڑ 93 لاکھ 22 ہزار 56 ہے۔
ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد پر نظر ڈالی جائے تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ عام انتخابات میں جنرل نشست پر 60 فیصد مرد اور 40 فیصد خواتین میدان میں اترتی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اگر ہم کراچی کی بات کریں تو 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں مجموعی طور پر کراچی سے قومی اسمبلی کی 21 سیٹوں پر صرف 15 خواتین نے الیکشن لڑا تھا جن میں پیپلزپارٹی کی شہلا رضا، پی ٹی آئی کی زنیرہ رحمان، ایم کیو ایم پاکستان کی کشور زہرہ پی ایس پی کی فوزیہ قصوری جیسے بڑے نام بھی شامل تھے۔
8 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات میں صورتحال 2018 کے عام انتخابات سے بھی بدتر ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف (جس کے امیدوار اب آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیں گے)، مسلم لیگ (ن)، جمیعت علمائے اسلام، جماعت اسلامی سمیت کسی سیاسی جماعت نے بھی کراچی کی قومی اسمبلی کی نشست کے لیے خاتون امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیا۔
البتہ صرف واحد ایم کیو ایم پاکستان ایسی جماعت ہے جس نے کراچی کی 21 سیٹوں پر 2 خواتین امیدواروں کی ٹکٹ جاری کیے جن میں این اے 229 سے فوزیہ حمید اور این اے 232 سے آسیہ اسحاق شامل ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017 کی لاج رکھنے کے لیے ان حلقوں سے خواتین کو ٹکٹ جاری کیے کیوں کہ ماضی قریب میں ایم کیو ایم پاکستان کی قومی اور صوبائی تو دور بلدیاتی انتخابات میں بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ حالانکہ 2013 تک یہ حلقہ این اے 257 تھا جو بعد ازاں 2018 کی حلقہ بندیوں کے نیتجے میں ٹوٹ کر این اے 237 اور این اے 238 میں تبدیل ہوگیا تھا اور تب سے یہاں پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے امیدواروں میں مقابلہ ہوتا آیا ہے۔
اس حوالے سے ترجمان فافن صلاح الدین صفدر نے بتایا کہ سیاسی جماعتیں صرف الیکشن ایکٹ 2017 کو پورا کرنے لیے صرف 5 فیصد خواتین کو ہی ٹکٹ جاری کرتی ہیں جب کہ خود خواتین پارلیمنٹیرین یہ شکوہ کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ ہمیں ایسے حلقوں کے ٹکٹ ملتے ہیں جہاں سے ہماری پارٹی بالکل صفر ہوتی ہے اور یہ ٹکٹ صرف خانہ پوری کی لیے دی جاتی ہیں۔
حلقہ کی سیاست میں خواتین کے کردار سے متعلق سوال پر ترجمان فافن کا کہنا تھا کہ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ خواتین کو حلقہ کی سیاست میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ انہیں مردوں کی طرح مکمل آزادی حاصل نہیں ہوتی لیکن چونکہ وہ سیاست کا حصہ ہیں تو سیاسی رہنما ہی معاشروں میں تبدیلیاں لاتے ہیں لہذا انہیں ان چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔
ادارہ شماریات پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آبادی 2017 میں ایک کروڑ 60 لاکھ 24 ہزار 894 تھی جو 2023 میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری کے منظور شدہ نتائج کے مطابق 2 کروڑ 3 لاکھ 82 ہزار 881 ہوگئی ہے۔
کراچی کے ضلع ملیر کی بات کریں تو کسی دور میں لیاری پاکستان پیپلزپارٹی کا گڑھ کہلایا جاتا تھا لیکن 2018 کے عام انتخابات میں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو نہ صرف شکست ہوئی تھی بلکہ دوسرے نمبر پر آنے والے ٹی ایل پی کے امیدوار ان سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ تاہم ملیر میں صورتحال اس کے برعکس ہے جہاں زیادہ تر پیپلزپارٹی کے امیدوار ہی کامیابی سمیٹتے ہیں۔
ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق ضلع ملیر کی آبادی 2017 میں ہونے والی مردم شماری میں 19 لاکھ 24 ہزار 346 تھی جو 2023 میں 24 لاکھ 3 ہزار 959 ہوچکی ہے۔
ضلع ملیر میں قومی اسمبلی کی تین نشستیں (این اے 236،237،238) جو حالیہ حلقہ بندیوں کے بعد (این اے 229،230،231) ہیں اور عموماً یہ نشستیں پیپلزپارٹی جیتنے میں کامیاب رہتی ہے۔ 2018 میں بھی پی پی پی تینوں سیٹیں نکالنے میں کامیاب رہی تھی، حالانکہ این اے 237 کی سیٹ ابتدائی طور پر پی ٹی آئی کے سابق رہنما کیپٹن جمیل جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن پھر ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی کے حکیم بلوچ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو شکست دیکر یہ نشست حاصل کرلی تھی۔
کراچی کے حلقہ این اے 237 یعنی 231 کی بات کریں تو 2018 کے عام انتخابات کے موقع پر حلقہ کی کل آبادی 6 لاکھ 73 ہزار 678 تھی جو اب 7 لاکھ 86 ہزار 160 ہوچکی ہے۔ اس حلقہ سے 2018 کے عام انتخابات اور بعد ازاں 2022 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں کسی خاتون امیدوار نے حصہ نہیں لیا اور 2024 کے عام انتخابات میں بھی اب تک یہی صورتحال دکھائی دے رہی ہے۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق ابھی تک حتمی فہرست جاری نہیں کی گئی ہے کیوں کہ امیدوار ابھی بھی دستبردار ہورہے ہیں لہذا یہ سلسلہ مکمل ہونے کے بعد ہی حتمی فہرست جاری کی جائے گی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے موصول ہونے والی اب تک کی فہرست کے مطابق این اے 231 ملیر تھری سے آزاد امیداروں سمیت کل 26 امیدوار میدان میں ہیں جس میں کوئی ایک خاتون بھی شامل نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کی فہرست کے مطابق عبدالحکیم بلوچ پیپلزپارٹی، جمیل احمد خان مسلم لیگ (ن)، عمر فاروق جماعت اسلامی جب کہ خالد محمود علی کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ جاری کیا تھا جو الیکشن کمیشن کی جانب سے بیٹ کا نشان لیے جانے کے بعد آزاد حیثیت میں میدان میں ہیں۔
خیال رہے کہ کیپٹن ریٹائرڈ جمیل احمد خان 2018 کے عام انتخابات میں اسی حلقہ سے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور بعد ازاں 2022 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں عبدالحکیم بلوچ اس نشست پر کامیاب قرار پائے تھے۔
اس حوالے سے حلقہ کے عوام کی رائے ہے کہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں حکیم بلوچ اور کیپٹن (ر) جمیل احمد خان کے درمیان دلچسپ مقابلے کی توقع ہیں تاہم کچھ لوگ تحریک انصاف کے امیدوار کی جیت کے لیے بھی پرعزم ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی سے گزشتہ 35 سال سے وابستہ خاتون عہدیدار اور این اے 231 کی یو سی 4 کی کونسلر شمیم اختر نے حلقہ کے مسائل سے متعلق بتایا کہ پارٹی نے ہمیں کونسلر تو بنا دیا ہے لیکن ہم صرف برائے نام ہیں کیوں کہ ہمارے پاس کسی قسم کے اختیارات یا فنڈز نہیں ہیں جس سے ہم لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرسکیں یا کم از کم ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حلقہ میں سیکڑوں ایسی خواتین ہیں جو کسی مجبوری کے تحت گھروں سے نہیں نکل سکتی اور ایسے میں ان کے نادرہ کے کاموں سمیت دیگر مسائل حل کرنا بطور سیاسی رہنما ہمارا فرض بنتا ہے لیکن ہمارے پاس پارٹی سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے الٹا ہماری بدنامی ہورہی ہے، لوگ سمجھتے ہیں ہم پارٹی میں رہ کر پیسے بنارہے ہیں لیکن پیپلزپارٹی میں خواتین کے لیے کم از کم ایسا کچھ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں سے کوئی خاتون بھی کونسلر بننے کے لیے تیار نہیں تھی۔
پیپلزپارٹی کی بات کروں تو مجھے نہیں یاد کہ ضلع ملیر سے آج تک کسی خاتون امیدوار کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہو؟ تو کیا اس پورے ضلع میں کوئی بھی خاتون الیکشن لڑنا ہی نہیں چاہتی یا پھر کوئی اور وجہ ہے؟
انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو شہید ہمیشہ خواتین کے حقوق کی بات کرتی تھیں لیکن ان کے جانے کے بعد پارٹی میں اتحاد دکھائی نہیں دیتا، بلاول بھٹو صاحب پوری کوشش کرتے ہیں لیکن یہاں ہر کوئی لیڈر بنا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی خواتین کسی بھی عہدے پر سامنے نہیں آنا چاہتی کیوں کہ اگر وہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ بھی کرلے تو پارٹی انہیں سپورٹ نہیں کرے گی اور مان لیا کہ وہ کسی طرح الیکشن جیتنے میں بھی کامیاب ہوجاتی ہے تو اس معاملے میں پارٹی اس کا ساتھ نہیں دے گی۔
اگر پارٹی نے 2024 کے انتخابات کے لیے شمیم کو ٹکٹ دینے کا اعلان کردیا تو آپ کو اس الیکشن مہم کے دوران کن خطرات یا چینلجز کا سامنا ہوگا؟
شمیم اختر کا کہنا تھا کہ اگر پارٹی آپ کے ساتھ کھڑی ہے تو الیکشن مہم کوئی بڑی بات نہیں، مجھ سمیت کوئی بھی خاتون ہر قسم کے چینلجز سے نمٹ لے گی اگر اسے اپنی پارٹی کی مکمل سپورٹ حاصل ہو لیکن سیاسی جماعتیں خواتین کو اس طرح سپورٹ فراہم نہیں کرتی کیوں کہ سیاسی جماعتوں میں مردوں کی اجارہ داری ہے۔
پیپلزپارٹی خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی چند سیاسی گھرانوں کو اہمیت دیتی ہے، کیا پیپلزپارٹی نے آج تک کسی خاتون ورکر کو مخصوص نشست پر قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا؟
انہوں نے کہا کہ میں کونسلر بننے پر آمادہ نہیں تھی بلکہ میری خواہش تھی کہ میں قومی یا صوبائی اسمبلی میں بیٹھ کر اپنے حلقے کی نمائندگی کروں لیکن اس معاملے میں مجھ سمیت پارٹی جیالوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور گھوم پھر کر چند خاندانوں کے لوگ ہی مخصوص نشستوں پر منتخب ہوتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ ان کا پارٹی میں اثر ورسوخ ہونا ہے لیکن جن خواتین کی پارٹی سے طویل عرصے سے وابستگی ہے، انہیں قیادت کے قریب نہ ہونے یا پھر مالی طور پر مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے نظرانداز کردیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پیراشوٹرز خواتین کو مخصوص نشستوں پر ٹکٹ دیے گئے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں 8 فروری کے عام انتخابات میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے جمع کرائی گئی فہرستوں پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں ترجیحی فہرست میں وہیں نام دکھائی دیتے ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے اسمبلی میں موجود رہے ہیں۔
اسی حلقہ سے پہلی بار کونسلر بننے والی طاہرہ مبین کا کہنا تھا کہ انتخابات سے پہلے ہمیں گائیڈ لائن دی جاتی ہے کہ گھر گھر جاکر حلقہ کی خواتین کے مسائل سنیں اور انہیں یقین دہانی کروائیں تاہم افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جیتنے کے بعد ہمارے اپنے رہنماؤں کو پاس ان مسائل کا کوئی حل نہیں ہوتا۔ حلقہ کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ تو غربت اور بے روزگاری ہے اور خواتین ہم سے بے نظیر کارڈ اور بچوں کے اسکول کے لیے فریادیں کرتی ہیں لیکن ہماری جماعت یہ مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے خواتین انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کرتیں۔
کیا آپ نے کبھی کسی بھی سطح پر براہ راست انتخاب لڑنے میں دلچسپی ظاہر کی؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے دبے لفظوں میں پارٹی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں لیکن اگر ہم نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو ہمارے پیچھے کوئی نہیں ہوگا اور اس کے علاوہ ہمیں شکست کا بھی خوف ہوتا ہے کہ اگر ہم ہار گئے تو ہمارے لیے مسائل بڑھ جائیں گے، بس اسی خوف سے کبھی نہیں کھڑے ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس حلقہ میں آپ کو بہت کم خواتین ملیں گی جو سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں، چونکہ زیادہ تر یہاں غریب طبقہ آباد ہے تو وہ خواتین اپنے گھروں میں رہنا پسند کرتی ہیں اور سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتی، یہ ہم جیسی کچھ خواتین ہیں جو پارٹی کی خاطر اپنا گھر اور بچے چھوڑ کر تن تنہا اندرون سندھ بھی جاتی ہیں لیکن ان سب قربانیوں کے باوجود پارٹی ہماری قدر نہیں کرتی، شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ دیگر خواتین سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
پارٹی سپورٹ سے متعلق خاتون کونسلر کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی خواتین کو سپورٹ کرنے کا صرف نعرہ لگاتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، میں اگر اپنی بات کروں تو اس عہدے پر ایک سال گزرنے کے باوجود نہ تو ہمیں کسی قسم کا فنڈ ملا اور نہ ہوئی ہمارا کوئی مسئلہ حل کیا گیا، جب پارٹی میں ہماری سنوائی ہی نہیں ہورہی تو ایسے میں ہم دیگر خواتین کو کس طرح ووٹنگ کی جانب راغب کریں گے۔
اس حوالے سے پاکستان پیپلزپارٹی کراچی کے صدر سعید غنی اور سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔