ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کی مختصر تحریری رائے جاری

Pinterest LinkedIn Tumblr +

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کی مختصر تحریری رائے جاری کردی۔

صدارتی ریفرنس میں سوال کیا گیا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینا عدالتی قتل تھا؟ یا سزا دینا منصفانہ تھا؟

لارجر بنچ نے متفقہ رائے میں کہا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس کی بنیاد پر نہ ہی شواہد کا دوبارہ جائزہ لے سکتی ہے اور نہ ہی فیصلہ کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

لارجر بنچ نے رائے دی کہ ہم تفصیلی رائے میں ذوالفقار علی بھٹو ٹرائل میں شفاف ٹرائل اور قانونی طریقہ کار میں آئینی و قانونی خامیوں کی نشاندہی کریں گے۔

صدارتی ریفرنس میں سوال کیا گیا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں درست تھا؟ اس سوال کے جواب میں تحریری رائے دی گئی کہ ہمیں اس معاملے پر معاونت ہی فراہم نہیں کی گئی، اس لیے رائے بھی نہیں دے سکتے۔ سپریم کورٹ: ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ غیر شفاف قرار
صدارتی ریفرنس میں مزید پوچھا گیا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے فیصلے کا اطلاق سپریم کورٹ اور تمام عدالتوں پر بطور عدالتی نظیر لازم ہے؟ جس پر تحریری رائے میں بتایا گیا کہ اس سوال میں قانونی نقطہ نہیں اٹھایا گیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ غیر شفاف قرار دے دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی رائے تمام 9 ججز کی متفقہ ہے، ججز قانون کے مطابق ہر شخص کیساتھ یکساں انصاف کے پابند ہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کیلئے کوشاں ہیں، ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کسی حکومت نے پیپلزپارٹی کی حکومت کا بھیجا گیا ریفرنس واپس نہیں لیا، ذوالفقار علی بھٹو کی سزا آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی، ذوالفقار بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں تھا، ان کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں۔

Share.

Leave A Reply