’پاکستان میں وہ یتیم خانہ اب تک نہیں بنا جس کے لیے میں نے 40 ہزار پاؤنڈز عطیہ کیے تھے‘
مصنف,خالد کرامت
عہدہ,بی بی سی اردو، لندن
برطانیہ میں رمضان شروع ہوتے ہی فون، ای میلز، واٹس گروپس، خط بلکہ ٹی وی پر آنے والے پروگراموں میں بھی فلاحی کاموں کے لیے مدد کی اپیلوں میں بہت تیزی آ جاتی ہے۔ اس تیزی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رمضان میں مسلمان پہلے سے بھی زیادہ فراخدلی سے صدقہ، خیرات اور زکات دیتے ہیں۔
برطانیہ میں کچھ عرصے پہلے شائع کی گئی ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ مسلمان باقی سب مذاہب کے مقابلے میں عطیات دینے میں سب سے آگے ہیں لیکن خیرات کے نام پر پیسے لینے والے سب ادارے ہمیشہ قابل اعتبار نہیں ہوتے یا اکثر ایسے ادارے اپنے کام کے بارے میں پوری طرح شفاف نہیں ہوتے کہ جو پیسے وہ آپ سے لے رہیں ہیں انھیں کب، کہاں اور کیسے خرچ کیا جائے گا۔
رمضان کے آغاز کے ساتھ یہ سوال بھی لوگوں کے ذہن میں آیا کہ کیا اس بات کی کوئی گارنٹی ہے کہ جو مختلف تنظیمں ضرورت مندوں کے لیے پیسے جمع کرتی ہیں وہ یہ رقم اُن تک پہنچاتی بھی ہیں۔
برطانیہ میں ایک پاکستانی نژاد خاتون عشرت بیگ نے سات سال پہلے پاکستان میں ایک یتیم خانہ بنانے کے لیے چالیس ہزار پاؤنڈ دیے اور وہ اب بھی اس یتیم خانے میں بچوں کے بسنے کا انتظار کر رہی ہیں۔
اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عشرت بیگ نے کہا کہ ’میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میں بچوں کے لیے ایک محفوظ جگہ بناؤں، یہ تحفہ میں اپنے والدین کو دینا چاہتی تھی تاکہ جب وہ اس دنیا سے بھی رخصت ہو جائیں تب بھی یہ کوشش ان کے لیے صدقہ جاریہ ہو۔‘
عشرت نے یہ عطیہ برطانیہ کے ایک فلاحی ادارے ’پینی اپیل‘ کو دیا تھا جو ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں کام کرتی ہے۔
عشرت بیگ نے سات سال پہلے پاکستان میں ایک یتیم خانہ بنانے کے لیے چالیس ہزار پاؤنڈ دیے اور وہ اب بھی اس یتیم خانے میں بچوں کے بسنے کا انتظار کر رہی ہیں
عطیہ دیتے وقت عشرت کو بتایا گیا تھا کہ سنہ 2012 میں پنجاب کے ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں یتیم خانوں کے لیے لانچ کیے گئے کمپلیکس میں سے ایک عشرت کے دیے گئے پیسوں سے بنے گا۔
عشرت بیگ نے اس کے لیے سنہ 2017 کے رمضان میں رقم ادا کی۔
اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عشرت بیگ نے کہا کہ ’جب میں نے 2017 میں پیسہ دے دیا تو کام آہستہ ہو گیا۔ مجھے اُن کے ساتھ تواتر کے ساتھ بات کرنی پڑی کہ کتنا کام ہوا۔‘
عشرت بیگ اس بارے میں مزید کہتی ہیں کہ وہ پریشان تھیں اور انھیں کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔ اس پر عشرت بیگ نے سب کچھ سوشل میڈیا پر بتانے کا عندیہ دیا۔
عشرت بیگ کہتی ہیں کہ ادارے نے اس پر اُن سے معافی مانگی اور کہا کہ اس منصوبے کا باقاعدہ روڈ میپ بنایا جائے گا اور اس پر عمل کیا جائے گا لیکن عشرت بیگ کا دعویٰ ہے کہ روڈ میپ پر عمل نہیں کیا گیا۔
’پینی اپیل‘ نے عشرت بیگ کو رقم دیتے وقت بتایا تھا کہ یتیم خانہ ایک سال تک تیار ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا اور کئی بار شکایات کے بعد عشرت کو بتایا گیا کہ یتیم بچوں کو دسمبر 2023 تک یتیم خانے میں شفٹ کر دیا جائے گا اور پھر یہی دعویٰ رواں سال فروری کے لیے بھی کیا گیا۔
اس دوران بی بی سی کی ٹیم تین بار تعمیراتی سائٹ پر گئی۔ پہلے بی بی سی کو بتایا گیا کہ یہ یتیم خانہ دسمبر تک تیار ہو جائے گا۔ دو ماہ قبل عشرت کو ایک تصویر بھیجی گئی اور بتایا گیا کہ یتیم خانہ بچوں کے لیے تیار ہے لیکن جب بی بی سی کی ٹیم وہاں پہنچی تو حالات کچھ مختلف تھے۔
سنہ 2021 میں عشرت نے اپنے پیسے واپس مانگے مگر ان سے کہا گیا کہ ایسا ممکن نہیں۔
عشرت کو عطیہ دیے سات برس سے زیادہ گزر جانے کے بعد چیریٹی آرگنائزیشن ’پینی اپیل‘ نے کہا کہ ’عشرت کا یتیم خانہ مارچ 2023 میں تیار ہو گیا تھا اور مارچ 2024 میں بچے یہاں شفٹ ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ہم عشرت کے اس فراغ دلانہ عطیے کے لیے شکر گزار ہیں۔ ہمیں اس تاخیر کے سبب انھیں ہونے والی مایوسی کا احساس ہے۔‘
عطیات حقداروں تک پہنچنے میں تاخیر یا اس معاملے میں شفافیت نہ ہونا یا پھر رقم ضرورت مندوں تک نہ پہنچنا پاکستان میں بھی عام ہے۔
کچھ برس پہلے پاکستان میں بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کی سوشل میڈیا اپیل پر 20 لاکھ ڈالر سے زیادہ عطیات ملے۔ اس رقم کا استعمال کہاں ہوا اس پر بہت سے سوال اُٹھے لیکن مبینہ طور پر ادارے کی طرف سے واضح تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
اسی طرح 2022 میں جب پاکستان میں سیلاب زدگان کے لیے مدد کی اپیل کی گئی تو برطانیہ کے چیرٹی ریگولیٹر نے ایک ایڈوائزی جاری کی کہ ’لوگ جعلی تنظمیوں اور مجرموں کو عطیے دینے سے بچیں اور صرف رجسٹرڈ تنظیموں کو عطیات دیں۔‘
صرف رمضان میں ہی نہیں بلکہ قدرتی آفات، وبا یا کسی اور غیر معمولی صورتحال میں اکثر سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس پر مدد کے لیے میسجز آتے ہیں۔ اس طرح ذاتی اپیلز پر لوگ جذبے سے مدد کرتے ہیں لیکن دھوکے باز افراد اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
چیریٹی مانگنے والے بعض اداروں اور افراد کا ضرورت مندوں تک امداد پہنچانے کا دراصل کوئی ارادہ ہی نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ہسپتالوں سے مریضوں یا بد حال بچوں کی تصاویر دکھا کر بھی دھوکے باز پیسے بٹورنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
پاکستان کی حکومت نے بارہا عطیات کو غلط ہاتھوں میں دینے سے لوگوں کو خبردار کیا۔ چند برس پہلے حکومت نے پی پی سی (Pakistan Peace Collective) نامی ایک منصوبے کے ذریعے اس بارے میں آگاہی کی مہم بھی چلائی لیکن اگر پھر بھی لوگ عطیات دیتے ہوئے دھوکے میں آ جائیں تو کیا کوئی راستہ رہ جاتا ہے؟
بی بی سی کی ٹیم تین بار یتیم خانے کی تعمیراتی سائٹ پر گئی
اس بارے میں پی پی سی کی سابق سربراہ بشری تسکین نے بتایا کہ ’اگر کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ وہ جہاں عطیات دے کر آئے ہیں یا دیتے رہیں ہیں اور اُس ادارے کے بارے میں انھیں پتا چلے کہ وہ اُس جگہ پر پیسے استعمال نہیں کر رہے جس مقصد کے لیے رقم جمع کی گئی تھی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں، حکومت اور ایف آئی اے کے پاس پورا نظام موجود ہے کہ وہ ایسے ادارے کو بند کریں اور اُن سے وہ رقم واپس حاصل کریں۔‘
لیکن پاکستان میں ایسے بے شمار ادارے اور چھوٹی مہمات ہیں جو راہ چلتے یا گلی محلوں میں عطیات جمع کرتے ہیں اور نقد رقم وصول کرتے ہیں۔ جہاں عطیہ دینے والے کو احساس ہو یہ بعد میں علم ہو کہ عطیہ لینے والے دھوکہ کر رہے ہیں تو اس بارے میں بات کرتے ہوئے بشری تسکین کا کہنا تھا کہ ’ایسی صورت میں بھی پولیس اور ایف آئی اے سے رابطہ کیا جا سکتا ہے جو مدد فراہم کر سکتی ہے۔ ‘
غیر سرکاری ادارے پی پی سی نے فراڈ پر مبنی اپیلز کی صورت میں عطیہ کرنے والوں کو حاصل مدد کے راستے تو بتائے مگر اس طری کے فراڈ سے بچنے کے لیے کسی بھی چیریٹی کو پیسے دیتے وقت کچھ باتوں کی احتیاط ضروری ہے تاکہ عطیہ دینے سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آپ کے عطیات صحیح جگہ اور درست مقصد کے لیے استعمال ہوں۔
اس بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی ادارے کو عطیہ دینے سے پہلے یہ ضرور دیکھیں کہ وہ باقاعدہ رجسٹرڈ ہو۔
یہ بھی دیکھیں کہ آپ کے اردگرد باقی لوگ اس چیریٹی ادارے کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی ادارے کی شہرت ضرور دیکھیں۔
قابل اعتبار چیریٹی ادارے آپ کے پیسوں کو کیسے استعمال کرتے ہیں اس بارے میں وہ شفاف ہوتے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات اپنی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پر باقاعدہ اپ ڈیٹ کرتے ہیں۔
ادارے کے مشن اور ٹریک ریکارڈ کے ساتھ ساتھ اُن کی سالانہ رپورٹس اور اکاؤنٹس پر بھی نظر ڈالنی چاہیے جو ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہوتی ہے۔
چیریٹی کے لیے ای میلز یا ٹیلیفونز کی اپیلوں سے بچیں اور کسی ادارے کو پیسے پوری تسلی کے بعد ہی دیں۔
لین دین کے طریقے وہ رکھنے کی ضرورت ہے جس کا ریکارڈ ہو۔ مثلاً نقد کی بجائے بینک ٹرانسفر یا کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی بہتر طریقہ ہے۔
جب عطیہ لینے والے کے اکاؤنٹ کی تفصیلات ہوں گی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بھی اکاؤنٹ چلانے والوں تک پہنچنا آسان ہو گا۔
احتیاط نہ کرنے کی صورت میں دھوکہ بازی اور فراڈ کا سلسلہ جاری رہے گا اور نقصان صرف عطیہ دینے والے کا نہیں بلکہ ان کا بھی ہوگا جو ان عطیات کے اصل مستحق ہیں۔