وہ افغان شہزادی جنھیں ان کی شاعری کی وجہ سے صوفی کا درجہ ملا

Pinterest LinkedIn Tumblr +

ڈالیا وینٹورا
عہدہ,بی بی سی نیوز ورلڈ

’سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک محبت کی داستان ہے۔‘

یہ کہنا تھا عبداللہ شادان کا جو بی بی سی ورلڈ سروسز کے لیے کام کرتے ہیں۔ مگر اپنے آبائی ملک افغانستان میں عبداللہ اداکاری کیا کرتے تھے اور آج سے تقریباً 50 سال قبل انھوں اس ہی محبت کی داستان پر بنی ایک فلم میں کام بھی کیا ہے۔

اس فلم کی کہانی قرونِ وسطٰی کی ایک شہزادی رابعہ بلخی کے گرد گھومتی ہے جنھیں ایک شخص سے محبت ہو جاتی ہے اور اس کی پاداش میں رابعہ کو انھی کے بھائی قتل کر دیے ہیں۔

شادان نے اس فلم میں شہزادی کے محبوب کا کردار ادا کیا تھا۔

’وہ (رابعہ) محبت کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ انھوں نے محبت کی خاطر سب کچھ لٹا دیا۔ اور یہی وہ چیز ہے جو لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرتی ہے۔‘

پی ایچ ڈی کی امیدوار شمیم ​​ہمایوں کا کہنا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ، اس محبت کی دی گئی تشریح پر منحصر ہے، رابعہ کو ایک مسلمان ولی کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے جس کی محبت پاکیزہ تھی، جب کہ دوسروں کی نظر میں وہ ایک فیمینسٹ ہیں جن کی محبت بہت بے باک تھی۔

اس سب سے قطعِ نظر، رابعہ کا شمار اسلام کے سنہرے دور کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی امیدوار منازا ابتکار کے خیال میں رابعہ افغان تخیل کی سب سے زیادہ قابل احترام شخصیات میں سے ایک ہیں۔

رابعہ کا تعلق بلخ سے تھا جو آج کے زمانے میں افغانستان کا حصہ ہیں۔ نویں صدی عیسوی میں بلخ شہر ریاضی اور فلکیات کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا جبکہ 10ویں صدی کے مشہور فلسفی اور سائنسدان ابنِ سینا کا تعلق بھی اس ہی شہر سے تھا۔

رابعہ کی پیدائش کی صحیح تاریخ تو معلوم نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ وہ 940 سنِ عیسوی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی ابتدائی زندگی کے متعلق زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہے۔

تاہم، اس کے باوجود ان کی داستان کی نسل در نسل منتقلی نہیں رکی۔ اور ہر راوی نے اپنی اپنی تشریح کے مطابق رابعہ کے داستان کے مختلف پہلوؤں پر زور دیا ہے جنھیں وہ سب سے ضروری سجھتے تھے۔ اس ہی وجہ سے اس کہانی کی کئی شکلیں ہیں۔

لیکن، منزہ جو داستان سناتی ہیں وہ لوگوں میں سب سے مقبول ہے۔

 رابعہ بلخی کی زندگی سے متعلق پوسٹر

پنجشیر کے بازارک میں بی بی آمنہ ہائی سکول میں سکول کی طالبات کی طرف سے بنایا گیا رابعہ بلخی کی زندگی سے متعلق پوسٹر

منزہ کی جانب سے سنائی جانے والی داستان کے مطابق ’بلخ کے امیر کے ہاں جب ان کی بیٹی رابعہ کی پیدائش ہوئی تو اسے گلاب کے پانی سے نہلایا گیا، ریشم سے سجایا گیا اور سنہری رتھ میں بٹھایا گیا۔ بلخ کے لوگوں نے اس کے جنم کا جشن منایا۔

’رابعہ کی پرورش ایک محل میں ہوئی جہاں انھیں فنون، ادب، شکار اور تیر اندازی کی تعلیم دی گئی، یہاں تک کہ وہ دانشمندی کی عمر کو پہنچ گئیں۔‘

لندن یونیورسٹی کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز کی نرگس فرزاد نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت خطے میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانا کوئی غیر معمولی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اسلام سے پہلے کی روایات اور ثقافتیں اسلامی دور تک اچھی طرح سے جاری رہیں، اس لیے امرا اور شرفا اپنی بیٹیوں کو وہاں تعلیم دیتے جو اپنے بیٹوں کو ڈلواتے تھے۔‘ فرزاد کہتی ہیں کہ رابعہ تو پھر ایک امیر باپ کی لاڈلی بیٹی تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس زمانے کے فارسی کے مشہور شاعر رودکی بھی رابعہ کی فصاحت، زبان پر ان کی کمان اور شاعرانہ صلاحیتوں سے متاثر تھے۔

روایات کے مطابق ’رابعہ نہ صرف وضع قطع میں خوبصورت تھیں بلکہ ان کے الفاظ بہت دلکش ہوا کرتے تھے۔‘

’کہا جاتا ہے کہ رابعہ نے اپنی شاعری سے اپنے وقت کے شاعروں اور ادیبوں کو حیران کر دیا تھا۔ اور انھوں نے نہ صرف اپنی والدہ اور والد کے دلوں کو موہ لیا بلکہ بلخ کے لوگوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔‘

مگر ان کی یہ مقبولیت ان کے بھائی حارث کو زیادہ پسند نہ آئی اور ان کے دل میں رابعہ لیے حسد پیدا ہوگیا۔

بسترِ مرگ پر حارث کے والد نے ان سے وعدہ لیا تھا کہ وہ رابعہ کا خیال رکھیں گے مگر اس کے باوجود بادشاہ بننے کے بعد وہ اپنی بہن کی موت کا باعث بنے۔

رابعہ نے اپنی شاعری سے اپنے وقت کے شاعروں اور ادیبوں کو حیران کر دیا تھا

طالبان کے قبضے کے بعد توڑ پھوڑ سے قبل افغانستان کی سپریم کورٹ کی حفاظتی دیوار پر چسپاں رابعہ بلخی کا پوسٹر

خون سے لکھے خطوط
روایت کے مطابق، ایک دن رابعہ اپنی بالکونی میں کھڑی باغ کی جانب دیکھ رہی تھیں جب انھوں نے ایک خوبصورت شخص کو اپنے بھائی حارث کو شراب پیش کرتے دیکھا۔

منزہ کی سنائی گئی داستان میں بتایا گیا ہے کہ، حارث کے ترک غلام اور خزانے کے محافظ کا نام بکتاش تھا جنھوں نے رابعہ کے دل میں جگہ بنا لی۔

’یہی وہ لمحہ تھا رابعہ کی محبت کی کہانی اور شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی المناک تقدیر کا آغاز ہوا۔‘

رابعہ نے اپنی وفادار نوکرانی رعنا کے ذریعے بکتاش کو پیار بھرے خطوط بھیجنا شروع کر دیے۔

’اے غائب و حاضر! کہاں ہو تم؟ آؤ اور میری آنکھیں اور دل کو جی بھر کے دیکھ لینے دو، ورنہ تلوار لے کر میری زندگی ختم کر دو۔‘

اور ان کو اپنے پیار کے اظہار کا بھی ویسا ہی پیار بھرا شاعرانہ جواب ملا۔

اور جب قندھار کے حکمران نے بلخ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو حارث کو ان کے مشیروں بتایا کہ وہ بکتاش کی مدد کے بغیر وہ اپنے دشمن کو شکست نہیں دے سکیں گے۔

حارث نے بکتاش سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ان کے دشمن کو مار ڈالے تو وہ ان کو من چاہا انعام دے گا۔ بکتاش اس کام میں کامیاب تو ہو گیا لیکن اس کوشش میں ان کی جان جانے والی تھی۔

’جب وہ اپنی جان سے ہاتھ دھونے کو تھا تو ایک سپاہی، جس نے اپنا چہرہ ڈھانکا ہوا تھا، اسے بچانے کے لیے سرپٹ دوڑتا ہوا میدان جنگ میں آگیا۔ یہ سپاہی کوئی اور نہیں بلکہ رابعہ تھی۔‘

لیکن، جب حارث کو ان کی محبت کے بارے میں پتہ چلا تو اس نے بکتاش کو کنویں میں پھینکنے کا حکم دے دیا جبکہ رابعہ کو ترکش حمام میں بند کردیا گیا۔

کچھ روایتوں کے مطابق، حارث نے رابعہ کی کلائی کی رگیں کاٹنے کا حکم دیا تھا جبکہ کچھ روایتوں میں آتا ہے کہ رابعہ نے خود اپنی کلائی کی رگیں کاٹ لیں تھی۔

لیکن، اس بات پر سب متفق ہیں کہ رابعہ نے اپنے آخری شعر اپنے خون سے شاہی غسل خانے کی دیواروں پر لکھا تھا۔

’میں تیری محبت کی اسیر ہوں، اس قید سے فرار ممکن نہیں‘

’محبت ایک بنا لامحدود سمندر ہے جس میں کوئی عقلمند تیرنا نہ چاہے گا‘

اگر تم آخری لمحے تک پیار کرنا چاہتے ہو، تو ناقابلِ قبول کو قبول کرنے کے لیے تیار رہو، مسکرا کر مشکلات کو خوش آمدید کہو اور زہر کو شہد بول کے پی جاؤ۔‘

اس کے کچھ روز بعد، رعنا کی مدد سے بکتاش کنویں سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے حارث کا سر قلم کر دیا۔ اس کو ’حمام میں رابعہ کی خون میں لت پت لاش اور دیواروں پر ان کی لکھی آخری محبت کی نظم ملی۔‘

’اس کے بعد وہ زمین پر گر گیا اور اپنے محبوب کے ساتھ اس نے جان لے لی‘۔

رابعہ کی موت کے بعد صدیوں تک، شاعر ان کی خوبیوں اور حسن کا تذکرہ کرتے رہے

رابعہ کی موت کے بعد صدیوں تک، شاعر ان کی خوبیوں اور حسن کا تذکرہ کرتے رہے

فرزاد کہتی ہیں کہ رابعہ کی موت کے بعد صدیوں تک، شاعر ان کی خوبیوں اور حسن کا تذکرہ کرتے رہے۔

ان میں سے ایک، ابو سعید ابو الخیر (متوفی 1049) تھے۔ ابو الخیر پہلے صوفی شاعر جنھوں نے یہ دعوٰی کیا کہ اس محبت کی کہانی کی مرکزی کردار رابعہ ولی ہیں۔

ہمایوں کا کہنا ہے کہ ابو الخیر نے رابعہ کو محسوس ہونے والی محبت کی نوعیت کے بارے میں حیرت کا اظہار کیا اور انھوں نے ’یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اتنی شدید محبت صرف مقدس ہی ہو سکتی ہے۔‘

ہمایوں بتاتی ہیں کہ اگرچہ ابو الخیر کی تحریر اب موجود نہیں ہے، مگر 13ویں صدی میں فارسی شاعر فرید الدین عطار کی جانب سے رابعہ کی کہانی کو دوبارہ بیان کرنے کی بدولت وہ آج بھی لوگوں کو معلوم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دونوں شاعروں کا محرک یہ ظاہر کرنا تھا کہ رابعہ ایک حقیقی صوفی تھیں۔

اس تشریح کے مطابق، بکتاش سے رابعہ کی محبت دنیاوی ہوس سے متاثر نہیں تھی، بلکہ انھوں نے اپنے محبوب کے ذریعے خدائی محبت کا اظہار کیا تھا۔

تاہم، کچھ کے لیے رابعہ نسائی ہمت کا مترادف ہے اور وہ ان محبت کو مزاحمت کی علامت کے طور دیکھتے ہیں۔

سنہ 2018 میں کابل میں قابل ذکر خواتین کے حوالے سے منعقد کی جانے والی ایک نمائش میں، افغان آرٹسٹ اور فوٹوگرافر ردا اکبر نے رابعہ کو ’پدر شاہی خلاف بغاوت کی علامت اور اس قیمت کی یاد دہانی کے طور پر بیان کیا افغان خواتین زمانے سے چکاتی آرہی ہیں۔‘

ابتکار کہتے ہیں کہ ’آزادی اظہار اور محبت کی قیمت ادا کرنے کے لیے۔‘

دہائیوں پہلے، جب افغانستان کی پہلی آزاد فلم ’رابعہ بلخی‘ ریلیز ہوئی تو مشہور میگزین ژوندون نے اپنے ایک مضمون میں رابعہ کی کہانی کو افغان ’معاشرے کی خواتین کی گلے میں گھونٹ دی جانے والی چیخ ہے۔‘

 رابعہ بلخی

’اب یہ نہیں کیا جا سکتا‘
اس فلم میں عبداللہ شادان نے بخشش کا کردار ادا کیا تھا، اور شہزادی سے محبت ہو گئی تھی، خاص طور پر سیما سے، جنھوں نے ان کا کردار ادا کیا تھا، جن سے انھوں نے شادی کی تھی، ایک ایسی شادی جس نے سنسنی پیدا کی۔

شادان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ سب سے مشہور فلموں میں سے ایک ہے۔‘ لیکن طالبان کے دور میں اب ایسا کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا تقریبا 40 عورتوں نے اس پر کام کیا!

صرف یہی نہیں فلم کی رابعہ ایک پرجوش، آزاد اور مضبوط ملکہ ہیں اور وہ اور دیگر خواتین کابل میں 1970 کی دہائی کے فیشن ایبل سٹائل میں شاندار چُست لباس کے ساتھ بال بناتے نظر آتی ہیں۔

درحقیقت یہ فلم 1996 میں طالبان کے سینسر والے ماحول سے بچ جانے والوں میں سے ایک تھی کیونکہ کابل میں نیشنل فلم آرکائیو میں کام کرنے والوں نے جلد بازی میں تعمیر کی گئی جھوٹی دیوار کے پیچھے تقریبا 6،000 انتہائی قیمتی افغان فلمیں چھپائی تھیں۔

تاہم بلخ میں رابعہ کی پناہ گاہ کو بند کر دیا گیا کیونکہ انھیں سماجی بدعنوانی کی جگہ سمجھا جاتا تھا۔

اس سے پہلے اور بعد میں خواتین کے لیے بنائے جانے والے متعدد ادارے انھیں کے نام پر رکھے گئے، سکولوں سے لے کر ہسپتالوں تک جہاں آج افغان خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنا یا کام کرنا ایک بار پھر مشکل ہو گیا ہے۔

تاہم، نوجوان افغان ایبتیکر کہتی ہیں کہ ’رابعہ کی وراثت نوجوان خواتین کو اپنے معاشرے میں عائد غیر منصفانہ حدود (اور عالمی تصورات) کو چیلنج کرنے اور ان سے آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہے۔

Share.

Leave A Reply