انڈیا میں پاکستان بنگلہ دیش اور افغانستان سے نقل مکانی کرکے آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دینے کے لیے شہریت کا ترمیمی قانون (سٹیزنشپ امینڈمنٹ ایکٹ – سی اے اے) نافذ کردیا گیا ہے۔
تاہم یہ قانون نہ صرف انڈیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی زیر بحث ہے۔
پاکستان سے نقل مکانی کر کے آنے والے ہندو خاندانوں کی ایک بڑی تعداد راجستھان میں آباد ہے۔ نئے قانون کا نفاذ جہاں کچھ خاندان کے لیے خوشی کی نوید لایا ہے وہیں ان میں سے اکثر خاندان اس سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
ہیم سنگھ اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان سے انڈیا نقل مکانی کرکے آئے تھے۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ جودھ پور کی آنگنوا بستی میں آباد ہیں۔
’ہمارے بہت سے جاننے والوں کو سی اے اے کے تحت انڈین شہریت ملنے سے راحت ملے گی۔ لیکن، ذاتی طور پر میں بہت پریشان ہوں۔‘
ان کے مطابق، وہ 11 جنوری 2015 کو اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا آئے۔ ’نئی شہریت کے قانون کے مطابق، صرف 11 دن کی تاخیر سے انڈیا پہنچنے کی وجہ سے میرے خاندان کو انڈین شہریت نہیں ملے گی۔‘
سی اے اے قانون کے تحت، صرف وہی افراد انڈین شہریت کے اہل ہیں جو 1 دسمبر 2014 سے قبل پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے انڈیا پہنچے ہیں۔
ہیم سنگھ کہتے، ’ہم بھی ہندو ہیں، ہم بھی ظلم و سِتم کا نشانہ بننے کے بعد پاکستان سے نقل مکانی کرکے انڈیا آئے ہیں۔‘
متنازع شہریت کا قانون بیک وقت خوشی مسرت اور مایوسی کا سبب
جودھ پور ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباً 13 کلومیٹر دور ڈھائی سو خاندانوں کے آٹھ سو لوگوں پر مشتمل آنگنوا بستی واقع ہے۔
ان میں سے بیشتر کے آباؤ اجداد کئی دہائیوں قبل انڈین ریاست سے پاکستان چلے گئے تھے۔
یہاں رہنے والے تقریباً چالیس افراد نئے سی اے اے قوانین کے تحت شہریت حاصل کر پائیں گے۔
تقریباً بیس کے قریب افراد کالونی کی ایک جھونپڑی میں بیٹھے سی اے اے پر بحث کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک رام چندر سولنکی ہیں۔ وہ 31 دسمبر 2014 کو اپنی اہلیہ، دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ انڈیا آئے تھے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ، ’ہم بہت خوش ہیں کیونکہ اب ہم باقاعدہ انڈین شہری بن جائیں گے۔‘
مگر ہر کوئی ان کے جتنا خوش نصیب نہیں۔ جھونپڑی میں بیٹھے دوسرے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’سی اے اے کے نفاذ سے ہم جتنے خوش ہیں، اتنے ہی غمگین بھی ہیں۔ ہماری کالونی کے دو گھروں میں خوشی کا ماحول ہے تو تین سو گھروں میں اداسی ہے کیونکہ نئے قانون کے تحت 31 دسمبر 2014 کے بعد آنے والے شہریت حاصل نہیں کرپائیں گے۔‘
ہیم بھیل بھی اس ہی کالونی میں آباد ہیں۔ وہ 2014 میں اپنے بھائی، چار بچوں اور بیوی کے ساتھ انڈیا آئے تھے۔
ہیم بھیل کہتے ہیں، ’ہم نے سنا ہے کہ حکومت نے قانون بنایا ہے کہ اب ہمیں شہریت ملے گی۔ ہمارا مستقبل تو مزدوری میں گزرنے والا تھا۔ لیکن ہمارے بچوں کا مستقبل بہتر ہو گا یہ سن کر اچھا لگتا ہے۔‘
ہیم بھیل کی بیوی امر بائی کا کہنا ہے کہ ‘آج میں نے پاکستان میں رشتہ داروں سے بات کی تھی جو وہاں بطورِ مزدور کام کرتے ہیں، وہ بھی کہہ رہے تھے کہ آپ لوگوں کو شہریت مل جائے گی۔‘
زیرِ تعلیم بے گھر بچوں کے لیے امید کی کرن
ہیم بھیل اور امر بائی کی بیٹی کویتا آٹھویں جماعت کی طالبہ ہے۔ ان کو پاسپورٹ کی بنیاد پر سکول میں داخلہ ملا تھا۔
کویتا کہتی ہیں کہ ان کے والد نے انھیں بتایا ہے کہ جلد ہی ان کو شہریت مل جائے گی اور وہ شہری بن جائیں گے۔
’ہمیں امید ہے کہ شہریت ملنے سے ہمیں پڑھائی اور نوکری حاصل کرنے میں فائدہ ہو گا۔ میں آئی پی ایس آفیسر بننا چاہتی ہوں۔‘
ہیمی بائی بھی اس ہی کالونی میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ ستمبر 2014 میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان سے انڈیا آئی تھیں اور پچھلے سال ستمبر میں ان کی شادی ہوئی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ انھیں ایک روز پہلے ہی اطلاع ملی تھی کہ انڈین حکومت سی اے اے قانون نافذ کر دیا ہے۔
وہ جودھپور گورنمنٹ گرلز کالج سے بی اے کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
ہیمی بائی کہتی ہیں کہ انھوں نے پاکستان میں صرف پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ انڈیا آنے کے بعد ان کو سکول میں داخلے کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔ وہ پرامید ہیں کہ شہریت ملنے کے ان کا مستقبل بہت بہتر ہو جائے گا۔ ’ہم انڈین بن جائیں گے۔ اگر مجھے شہریت مل گئی تو مجھے نوکری بھی مل جائے گی۔‘
ان کا بی اے کے بعد بی ایڈ کرنے کا ارادہ ہے تاکہ وہ استاد بن سکیں۔
’ہمیں بھی شہریت ملنی چاہیے‘
ہیم سنگھ سی اے اے قانون کے تحت انڈین شہریت حاصل نہیں کر پائیں گے کیونکہ وہ نئے قانون کے تحت دی گئی ڈیڈ لائن گزرنے کے 11 روز بعد انڈیا پہنچے تھے۔
ان کا شکوہ ہے کہ ان کو وہ سہولتیں نہیں ملیں جو ملنی چاہئے تھیں۔ ’ہمیں انڈیا آئے نو سال ہو گئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے والدین اور بچوں کو وہ سہولیات ملیں جو ہندوستان کے دوسرے لوگوں کو حاصل ہیں۔‘
رام چندر سولنکی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو نئے قانون کے تحت انڈین شہریت کے اہل ہیں۔ ان کی خواہش ہے ہجرت کرنے والے تمام افراد کو کو شہریت دے دی جائے۔
وہ کہتے ہیں، ’سنہ 2015، سنہ 2016 یا اس کے بعد آنے والے تمام لوگوں کو اس میں شامل کیا جائے۔‘
سولنکی کہتے ہیں کہ ان کے بزرگ انھیں انڈین شہریت حاصل کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ’ہم اسی امید پر جی رہے ہیں۔‘
ہندو سنگھ سودھا پاکستان سے انڈیا ہجرت کرنے خاندانوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم سیمنت لوک سنگٹھن کے صدر ہیں۔ وہ سی اے اے قانون میں 2014 کی ڈیڈ لائن کے خلاف ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سنہ2014 سے سنہ 2024 تک دس سال ایک طویل سفر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر اس شخص کو شہریت ملنی چاہیے جس نے انڈیا میں چھ سال پورے کرلیے ہیں۔
انڈیا ہجرت کرنے والے پاکستانی افراد کے پاسپورٹ
شہریت ملنے سے کیا تبدیلی آئے گی؟
اکھل چودھری راجستھان ہائی کورٹ میں وکیل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’شہریت ملنے کے بعد ان افراد کو دیگر انڈین شہریوں کی طرح تمام سہولیات، سرکاری سکیموں کے فوائد اور قانونی حقوق ملیں گے۔‘
گووند بھیل جودھ پور کی کالی بیری بستی کے رہائشی ہیں۔ انھوں نے سنہ 1997 میں پاکستان سے انڈیا نقل مکانی کی اور انھیں سنہ 2005 میں شہریت ملی۔
وہ کہتے ہیں، ’شہریت ملنے سے پہلے، سب مجھے ہراساں کرتے تھے۔ لیکن، شہریت ملنے کے بعد زندگی آسان ہو گئی۔‘
لیکن ان کا گلہ ہے کہ شہریت ملنے کے بعد بھی ان کے پاس اپنی چھت نہیں ہے۔
ہیم بھیل کا کہنا ہے کہ ’ابھی بھی ہمیں کافی مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستانی تارکین کو اب بھی وہ سکولوں اور ہسپتالوں میں وہ سہولیات میسر نہیں جو دوسرے انڈین شہریوں کو حاصل ہیں۔ شہریت ملنے کے بعد ہمیں بھی وہ سہولیات مل جائں گی۔‘
سودھا کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو ظلم و ستم کا نشانہ نشانہ بننے کے بعد انڈیا آئے تھے، انھیں نہ صرف شہریت دی جانی چاہیے بلکہ ان کی بحالی کا بھی انتظام کیا جانا چاہیے۔
’ان کے پاس بجلی، پانی، سکول، بیت الخلاء، سڑکیں کچھ بھی نہیں ہے۔ تبدیلی تب ہی آئے گی جب یہ تمام سہولیات میسر ہوں گی۔‘
پاکستانی پناہ گزینوں کی ایک اور کالونی
جودھ پور ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباً بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر کالی بیری واقع ہے۔ جودھ پور قلعہ کے آگے سے گزرنے والی سڑک سورساگر سے ہوتی ہوئی کالی بیری تک پہنچتی ہے۔
کالی بیری کے قریب کئی کانیں واقع ہیں۔ یہاں کام کرنے والے کئی مزدور وہ ہیں جو پاکستان سے مقل مکانی کرنے کے بعد یہاں آئے ہیں۔
کالی بیری کی بھیل کالونی چار سو پاکستانی خاندانوں کا گھر ہے۔
مین روڈ کے بائیں جانب اس بھیل بستی میں کچی اور پکی سڑکیں ہیں۔ یہاں ایک سرکاری سکول بھی ہے جس کے بورڈ پر لکھا ہے ‘گورنمنٹ ہائر پرائمری سکول پاک ڈسپلیسڈ’۔
مایا کا گھر سکول کے ساتھ ہی ہے۔ وہ 2013 میں اپنے خاندان کے 10 افراد کے ساتھ انڈیا آئی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے شہریت کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن ان کو شہریت نہیں ملی۔ بالآخر انھوں نے تھک کر کوششیں چھوڑ دیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ شہریت کے اس نئے قانون کے بارے میں کچھ جانتی ہیں تو مایا کا کہنا تھا کہ ، ’میں نے فون پر دیکھا تھا کہ حکومت شہریت دینے جا رہی ہے۔ ہم خوش ہیں۔ یہ اچھا اقدام ہے، یہ ہمارا ملک ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اگر انہیں شہریت مل گئی تو ان کے بچوں کو نوکری مل جائے گی اور ان کی نقل و حرکت پر بھی کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
مایا کے پانچ میں سے تین بیٹے پتھر کی کانوں میں کام کرتے ہیں اور جبکہ دو ابھی تعلیم کاصل کر رہے ہیں۔
کالی بیری بستی کے قریب واقع پتھر کی کان
گُڈی بھی اس ہی کالونی میں رہتی ہیں۔ وہ مارچ 2014 میں اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا آئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’میں دیوالی جیسی خوشی محسوس کر رہی ہوں۔‘
ان کے خاندان میں ان کے شوہر کے علاوہ چار بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ جن کے پاس شہریت ہے وہ زمین، گاڑی خرید سکتے ہیں اور انھیں سرکاری مراعات بھی ملتی ہیں۔ ہمیں کوئی فائدہ نہیں ملتا۔
مایا کے شوہر منو رام کہتے ہی٘ں کہ انھوں نے دو سال قبل شہریت کے لیے درخواست دی تھی۔ انھیں این او سی بھی مل چکا ہے لیکن شہریت کا سرٹیفکیٹ ابھی تک نہیں ملا۔
وہ پر امید ہیں کہ انڈین حکومت کی جانب سے نئے قانون کے نفاذ کے بعد انھیں شہریت مل جائے گی۔ ’ہم سرکاری سکیموں سے فائدہ اٹھا سکیں گے، ہم گاڑی خرید سکیں گے، شہریت کے بغیر مزدوری کے سوا کوئی کام نہیں کر سکتے۔‘
وہ کہتے ہیں اس سے قبل ان کا آدھار کارڈ ان کے پاسپورٹ اور طویل المدتی ویزے کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔
’مذہبی ظلم و ستم کے شکار ہر فرد کو شہریت دی جانی چاہیے‘
ارونا رائے ایک سماجی کارکن ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں سی اے اے قانون آئین میں دی گئی برابری کی شق کے خلاف ہے۔
ارونا رائے کا کہنا ہے کہ ’اس قانون کے متعلق نہ کسی سے مشورہ کیا گیا اور نہ ہی اس قانون کے بارے میں کوئی بات چیت ہوئی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ آر ٹی آئی، نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ اور فوڈ سیکورٹی جیسے قوانین بناتے وقت نہ صرف عوام کی رائے لی گئی بلکہ ان تجاویزات پر عمل درآمد بھی کیا گیا۔ ’لیکن سی اے اے میں کسی سے مشورہ نہیں کیا گیا۔‘
دوسری جانب ہندو سنگھ سودھا سی اے اے میں 31 دسمبر 2014 کی آخری تاریخ مقرر کرنے کے خلاف ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ، ’جو شخص بھی مذہبی ظلم و ستم کے بعد آ رہا ہے اسے شہریت دی جانی چاہیے۔‘
کیا بے گھر مسلمانوں کو بھی شہریت ملنی چاہیے؟
جب ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو ہندو سنگھ سودھا کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ کسی اسلامی ملک سے آرہے ہیں تو انھیں وہاں مذہبی ظلم و ستم کا سامنا نہیں کرنا پڑ سکتا۔ تاہم، انڈیا اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اکثر سرحد پار شادیاں بھی ہوتی ہیں، اسی لیے میں نے سنہ 2004 میں بھی انتظامیہ سے اپیل کی تھی کہ انھیں بھی شہریت دی جانی چاہیے۔
سی اے اے قانون کے بارے میں انتظامیہ کیا کہتی ہے؟
راجستھان کے محکمہ داخلہ کے ڈپٹی سیکرٹری راجیش جین نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت 27,674 بے گھر افراد طویل المدتی ویزوں پر راجستھان میں رہ رہے ہیں۔
اس سوال پر کہ اب تک کتنے بے گھر افراد کو شہریت دی جا چکی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’2016 سے اب تک 3,648 بے گھر افراد کو شہریت دی گئی ہے۔ جب کہ 1,926 بے گھر افراد کی شہریت درخواستوں پر کارروائی جاری ہے۔‘
پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والے تقریباً تمام افراد ہی راجستھان میں آباد ہیں۔ ان میں سے 18 ہزار لوگ صرف جودھ پور میں رہتے ہیں۔ تاہم، سی اے اے کے قوانین کے تحت انڈیا آنے کی آخری تاریخ کی شرط کے باعث ان میں سے محض 18 فیصد شہریت حاصل کر پائے ہیں۔
جودھ پور کے کلکٹر گورو اگروال کا کہنا ہے کہ، ’پاکستان سے آئے تقریباً 18 ہزار جودھ پور ضلع میں رہتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 3300 لوگوں کو شہریت مل گئی ہے۔‘
’نئے ترمیم شدہ قانون کے تحت تین سے چار ہزار دیگر لوگوں کو شہریت ملے گی۔‘
انڈین حکومت نے شہریت دینے کے لیے رجسٹریشن پورٹل بنا دیا ہے۔
تاہم، راجستھان کے محکمہ داخلہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری آنند کمار کے مطابق فی الحال ریاستی حکومت کو مرکزی حکومت سے اس بارے میں کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئی ہیں۔
غیر ملکی رجسٹریشن آفیسر (ایف آر او) ایڈیشنل ایس پی رگھوناتھ گرگ کا بھی کہنا ہے کہ ’ہدایات موصول ہونے کے بعد وہ اس کے مطابق عمل کو آگے بڑھائیں گے۔‘
گڈی مارچ 2014 میں اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا آئی تھیں
سی اے اے سے پہلے پاکستان سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو سٹیزن شپ ایکٹ 1955 کے تحت شہریت دی جاتی تھی۔ ایکٹ کے سیکشن 51A سے 51E میں ان کی شہریت کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔
اس ایکٹ میں ترمیم کے بعد مرکزی حکومت نے جے پور، جودھ پور اور جیسلمیر کے کلکٹروں کو شہریت دینے کا اختیار تفویض کر دیا ہے۔
ضلع مجسٹریٹس کی سطح پر، اہل بے گھر افراد کو طریقہ کار کے مطابق شہریت فراہم کی گئی تھی۔ محکمہ داخلہ کے مطابق، آخری بار شہریت دینے کا کیمپ نومبر 2009 میں لگایا گیا تھا۔