غزہ میں جاری لڑائی کے تناظر میں مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے کردار پر دنیا کی توجہ ایک بار پھر مرکوز ہو چکی ہے۔
ایران اسرائیل-غزہ تنازعے میں حماس کی حمایت کرتا ہے۔ وہ عراق، شام اور پاکستان میں حملے کر چکا ہے اور اس کے ہتھیار روس نے یوکرین کے خلاف استعمال کیے ہیں۔
اگرچہ ایران مشرق وسطیٰ میں بعض حملوں میں براہ راست ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے جن میں لبنان سے اسرائیل پر حملے، اردن میں امریکی فوجیوں پر ڈرون حملہ اور یمن میں بحیرۂ احمر میں مغربی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے والے حملے شامل ہیں مگر ایران کے حمایت یافتہ گروہ ان کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
لیکن یہ گروہ کون ہیں اور ان تنازعات میں ایران کا کیا دخل ہے؟
ایران کن گروہوں کی حمایت کرتا ہے؟
ایران کے حمایت یافتہ گروپ عراقی شیعہ پاپولر موبلائزیشن فورس کے ارکان نے حالیہ امریکی فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تصاویر اٹھا رکھی ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں ایران کے ساتھ تعلقات رکھنے والے مسلح گروہوں کی بہتات ہے، جن میں غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثی، اور عراق، شام اور بحرین میں سرگرم دیگر گروپ شامل ہیں۔
’مزاحمت کے محور‘ کے نام سے جانے جانے والے ان میں سے بہت سے گروہوں کو مغربی ممالک نے دہشت گرد گروہ قرار دیا ہے، اور تھنک ٹینک کرائسز گروپ میں ایرانی امور کے ماہر علی واعظ کے مطابق، ان کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ ’خطے کو امریکہ اور اسرائیل سے لاحق خطرات سے بچایا جائے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ایران سمجھتا ہے کہ اسے سب سے بڑا خطرہ امریکہ سے ہے اور پھر اس کے فوراً بعد اسرائیل ہے، جسے ایران خطے میں امریکہ کے گماشتے کے طور پر دیکھتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ایران کی طویل المدتی حکمتِ عملی نے یہ ناقابل یقین نیٹ ورک بنایا ہے جو اسے اپنی طاقت دکھانے کی اجازت دیتا ہے۔‘
ایران نے 28 جنوری کو اردن میں ہونے والے اس ڈرون حملے کے پیچھے براہ راست اپنا ہاتھ ہونے کی تردید کی تھی، جس میں تین امریکی فوجی مارے گئے تھے لیکن عراق میں ’اسلامی مزاحمت‘ نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ تنظیم بہت سے گروہوں پر مشتمل ہے، جن میں سے کچھ ایران کی حمایت یافتہ بھی ہیں۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غزہ پر فوج کشی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ امریکی فوجی اس خطے میں حملوں میں مارے گئے، اس لیے امریکی صدر جو بائیڈن پر دباؤ تھا کہ وہ جوابی کارروائی کریں۔
اس کے جواب میں، امریکہ نے ایک ہفتے بعد پہلے عراق اور شام میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس اور اس سے منسلک ملیشیا پر اور پھر یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی اہداف پر برطانیہ کے ساتھ مل کر حملہ کیا۔
ایران اپنے آپ کو اکثر تنازعات میں گھرا پاتا ہے، حالانکہ اس ملک کو آخری بار سرکاری طور پر کسی جنگ میں شامل ہوئے تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
اگرچہ ایران اکثر پراکسیز کے ساتھ براہ راست تعلق کی تردید کرتا ہے۔ تہران نے 45 سال قبل ملک میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد سے عسکریت پسند گروپوں کی حمایت کی ہے، اور وہ 1980 کی دہائی کے اوائل سے ہی حکومت کی قومی سلامتی کی حکمت عملی کا ایک نمایاں حصہ بن گئے تھے۔
ایران کی تاریخ اور امریکہ سے تعلقات
ایک پرانے ایرانی کرنسی نوٹ پر عراق کے خلاف جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں کی تصویر
ایران کی جدید تاریخ کے دو واقعات خطے میں ملک کی پوزیشن اور امریکہ کے ساتھ اس کے کشیدہ تعلقات کو واضح کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
سنہ 1979 کے ایرانی انقلاب کا نتیجہ ملک کی مغرب سے دوری کی شکل میں نکلا۔
واشنگٹن میں صدر کارٹر کی حکومت تقریباً ایک سال سے ایرانی دارالحکومت تہران میں یرغمال بنائے گئے 52 امریکی سفارتی اہلکاروں کو رہا کروانے کے لیے بے چین تھی اور یہ احساس تھا کہ ایران سزا اور بین الاقوامی سطح پر تنہا کر دیے جانے کا مستحق ہے۔
اس وجہ سے امریکہ اور مغربی اتحادیوں نے ایران کے خلاف عراق کی حمایت کی، جس پر صدام حسین کی حکومت تھی۔ یوں ایران عراق جنگ شروع ہوئی جو سنہ 1980 سے 1988 تک جاری رہی۔
یہ تنازعہ ایران اور عراق کے جنگ بندی پر متفق ہونے کے ساتھ ختم ہوا، لیکن دونوں ممالک نے اس کی بھاری قیمت ادا کی۔ فریقین کے 10 لاکھ افراد ہلاک یا زخمی ہوئے اور ایران کی معیشت تباہ ہو گئی۔
اس کے بعد ایرانی اعلیٰ حکام کے ذہن میں یہ سوچ پختہ ہو گئی کہ ملک کو مختلف طریقوں سے مستقبل میں کسی بھی حملے کو روکنے کے قابل ہونا چاہیے جس کے لیے بیلسٹک میزائل پروگرام اور پراکسیز کا نیٹ ورک تشکیل دیا گیا۔
بعد میں، افغانستان (2001) اور عراق (2003) پر امریکی قیادت میں اتحادی حملوں کے ساتھ ساتھ 2011 کے بعد سے عرب دنیا میں ہونے والی مختلف بغاوتوں نے اس نظریے کو تقویت بخشی۔
ایران چاہتا کیا ہے؟
اسلامی انقلاب کے بعد سے امریکہ کے ساتھ ایران کے تعلقات کشیدہ ہی رہے ہیں
عسکری لحاظ سے ایران کو امریکہ کے مقابلے میں بہت کمزور سمجھا جاتا ہے، اس لیے بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیٹرنس کی اس حکمت عملی میں ہی ایرانی حکومت کی بقا کی چابی ہے۔
مشرق وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ میں ایران پروگرام کے بانی ڈائریکٹر الیکس واٹنکا کا کہنا ہے کہ ’امریکہ کے ساتھ جنگ آخری چیز ہے جو ایران اور مزاحمت کا محور چاہیں گے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ایران امریکہ کو مشرق وسطیٰ سے باہر نکالنا چاہتا ہے۔ یہ دوسرے فریق کو تھکا دینے کی ایک طویل المدتی حکمت عملی ہے۔‘
برطانیہ کی یونیورسٹی آف سسیکس سے تعلق رکھنے والے کامران مارٹن اس خیال سے متفق ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ ایران عالمی سطح پر ایک طاقتور کھلاڑی بننا چاہتا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کے سینیئر استاد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، “قدیم ایران کا، جسے تاریخی طور پر فارس کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ شاندار ماضی ہے اور وہ 12 صدیوں سے زیادہ عرصے تک مغربی ایشیا پر غالب قوم تھی۔
’ایران کا خیال ہے کہ وہ علاقائی اور عالمی معاملات میں ایک اہم کردار کا مستحق ہے، اس کے فارسی فن اور ادب کی بھرپور ثقافت ایران کو ایک عظیم ریاست اور طاقت کے طور پر اس تصور میں شامل کرتی ہے۔‘
ایران کے پاس کتنا کنٹرول ہے؟
سیاسی کارکن اور ایرانی سکالر یاسمین ماتھر کا کہنا ہے کہ ایران کا اپنے گماشتوں پر اتنا زیادہ کنٹرول نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی سیاسی کارکن اور ایرانی سکالر یاسمین ماتھر کا کہنا ہے کہ ایران کا اپنے گماشتوں یا پراکسیز پر اتنا زیادہ کنٹرول نہیں ہے۔
بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملہ کرنے والی یمنی حوثیوں کی مثال دیتے ہوئے ماتھر کہتی ہیں ’وہ صرف ایران کے احکامات پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ ان کا اپنا ایجنڈا ہے کہ وہ خطے میں ایک طاقتور طاقت کے طور پر ظاہر ہوں، نہ کہ صرف ایران کے گماشتے کے طور پر۔‘
کرائسز گروپ سے تعلق رکھنے والے علی واعظ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’اپنی علاقائی پالیسی کو غیر ریاستی کرداروں کو ایک حد تک سونپنے والی ایران جیسی ریاست کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اس کا نیٹ ورک پر مکمل کنٹرول نہیں ہے۔‘
واعظ کا یہ بھی خیال ہے کہ ایران کی طاقت کو اکثر حد سے زیادہ سمجھا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ایران پورے خطے میں شطرنج کے اس پورے کھیل کو چلانے کا منصوبہ ساز ہے لیکن ایران اور اس کے اتحادی اسرائیل کو (غزہ میں) جنگ بندی پر رضامند کرنے پر مجبور کرنے سے لے کر، امریکہ کو خطے سے بےدخل کرنے تک، اپنے کسی بھی اہم سٹریٹجک مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔‘
تاہم، ایران کے پاس جوہری پروگرام ہے، جس کے بارے میں واعظ کا کہنا ہے کہ گذشتہ 20 برس کو دیکھا جائے تو اس وقت یہ پروگرام اپنی سب سے ترقی یافتہ شکل میں ہے اور ان کے خیال میں ’یہ ایران کی اپنے شراکت داروں اور پراکسیز کے نیٹ ورک کے ذریعے کیے جانے والے اقدمات کے مقابلے میں اسرائیل اور مغرب کے لیے زیادہ بڑا مسئلہ پیدا کر سکتا ہے۔‘
تیسری عالمی جنگ؟
زیادہ تر ماہرین اس بات سے متفق ہیں کہ ایک مکمل جنگ کسی فریق کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے
جیسے جیسے پورے خطے میں حملے بڑھ رہے ہیں، اسی طرح انٹرنیٹ پر ’تیسری عالمی جنگ‘ کے حوالے سے تلاش بڑھتی جا رہی ہے۔
ایم ای آئی سے منسلک واتنکا کا کہنا ہے کہ ایران کو احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ حکومت کے خلاف خواتین کی قیادت میں حالیہ برسوں میں بڑے مظاہروں کے بعد اسے اپنی سرحدوں کے اندر دباؤ کا سامنا ہے۔
’ایک بہت ناراض ایرانی آبادی ہے جو خطے میں ایرانی حکومت کے اقدامات کا کوئی مقصد نہیں سمجھتی۔‘
یورپین کونسل میں امورِ خارجہ کے حوالے سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام کی نائب سربراہ ایلی جیرنمایا کا کہنا ہے کہ مغرب بھی ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔
وہ کہتی ہیں، ’امریکی صدر انتخابات کے سال میں اس کا متحمل نہیں ہو سکتے۔ اسرائیل اس کا متحمل نہیں ہو سکتا جبکہ وہ جانتا ہے کہ وہ غزہ میں اپنی کارروائیوں کے پیش نظر اس وقت بین الاقوامی سطح پر بہت کمزور ہے۔‘
زیادہ تر ماہرین کی طرح جیرنمایا بھی اس بات سے متفق ہیں کہ ایک مکمل جنگ کسی فریق کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔
’امریکہ اور ایران ایک دوسرے کو نشانہ بنانے اور حملہ کرنے کے لیے علاقائی کرداروں کو استعمال کر رہے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر ایک ہاتھ پیٹھ کے پیچھے باندھ کر لڑ رہے ہیں تاکہ براہ راست تصادم سے بچ سکیں اور دونوں ہی اس تصادم کے متحمل نہیں ہو سکتے جس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔‘
اگرچہ، پچھلی دہائی کو دیکھتے ہوئے، جسے جیرنمایا نے ’خطرناک اور افراتفری سے بھرپور‘ قرار دیا ہے، وہ متنبہ کرتی ہیں: ’سنجیدہ سفارت کاری کے بغیر، واشنگٹن اور تہران ایک دوسرے کو مزید فوجی راستے پر گھسیٹیں گے اور اگر صرف ایک اہم فریق احتیاط اور ضبط کا مظاہرہ نہیں کرتا، بات اس سے بھی کہیں زیادہ بڑھ سکتی ہے جتنی ہم نے اب تک دیکھی ہے۔‘