جنوبی وزیرستان کے 1200 پولیس اہلکار دو دن سے ہڑتال پر کیوں ہیں؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے جنوبی وزیرستان کے تقریباً بارہ سو پولیس اہلکار گذشتہ روز سے ہڑتال پر ہیں۔

لوئر جنوبی وزیرستان کے چھ تھانوں توئی خولہ، سپین، تنائی، شکئی، اعظم ورسک، زغزائی اور ان سے منسلک چوکیوں میں جاری ہڑتال کو اتوار کے روز دوسرا دن ہے۔

جنوبی وزیرستان کے چھ تھانوں اور ان سے منسلک چوکیوں میں سنیچر کے روز سے روزنامچے میں کوئی اندراج نہیں کیا گیا ہے۔

پولیس قوانین کے مطابق، کسی بھی تھانے میں روزمرہ کے فرائض کی ادائیگی جس میں گشت، کیسز کی تفتیش، چھاپے، ایف آئی آر کا اندراج، عدالتوں میں پیشی پر حاضری، اہلکاروں کی حاضری سمیت تمام امور کا انحصار روزنامچے پر ہوتا ہے۔

تھانے یا پولیس چوکی کا روزنامچہ ہی بتاتا ہے کہ کس اہلکار کو کیا ڈیوٹی کرنی ہے۔

ایسے میں جب روزنامچہ میں اندراج نہیں ہوتا تو پولیس اہلکار اپنے فرائض بھی سر انجام نہیں دے سکتے۔

جبکہ دوسری جانب پولیس اہلکاروں کی ہڑتال کے باعث جنوبی وزیرستان میں عوام مسائل کا شکار ہیں۔ تھانہ اعظم ورسک کی حدود کے باسی گل نصیب کا کہنا تھا کہ مجھے کچھ لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے مگر پولیس اہلکار رپورٹ نہیں لکھ رہے ہیں۔ اس طرح کے مزید واقعات بھی رونما ہورہے ہیں۔

اس وقت عملاً لوئر جنوبی وزیرستان کے چھ تھانوں میں پولیس اہلکار کسی بھی قسم کے فرائض ادا نہیں کررہے ہیں۔

 پولیس اہلکاروں کا الزام ہے کہ انھیں قوانین کے تحت حاصل اپنے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے

لوئر جنوبی وزیرستان کے چھ تھانوں اور ان سے منسلک چوکیوں میں جاری ہڑتال دوسرے روز میں داخل ہوچکی ہے

پولیس اہلکار ہڑتال کیوں کر رہے ہیں؟
جنوبی وزیرستان میں ہڑتال پر جانے والے پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ انھیں علاقے میں دوران ڈیوٹی سرکاری امور کی ادائیگی کے لیے ذاتی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال کرنے پر محکمانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کے علاوہ انھیں اپنے قانونی اختیارات کے استعمال کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیرستان میں اس وقت پولیس اہلکاروں کو دہشتگردوں کی جانب سے خطرات کا سامنا ہے۔

انھوں نے کہا ایسے میں اگر وہ سرکاری گاڑی یا پولیس موبائل استعمال کریں گے تو ان کی شناخت باآسانی ہو سکتی ہے اور دہشتگردوں کی جانب سے حملے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ رات کے اوقات میں دہشتگردوں کی جانب سے ان پر حملے کیے جانے کا یہ خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔

اس پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ اس ہی وجہ سے سرکاری فرائض کی انجام دہی کے لیے اکثر اہلکار اپنی ذاتی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ نان کسٹم پیڈ وہ گاڑیاں ہوتی ہیں جن کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں لایا جاتا ہے اور ان پر کسٹم ڈیوٹی ادا نہیں کی جاتی ہے۔

پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وزیرستان سمیت ملک کے قبائلی و شمالی علاقاجات میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ وزیرستان میں تقریبًا تمام ہی افراد کے زیرِ استعمال گاڑیاں نان کسٹم پیڈ ہیں۔

ان پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ جب یہ پورے علاقے کے افراد کو استعمال کرنے کی اجازت ہے تو ہمیں ان کے استعمال پر محکمہ کارروائی، انکوائری اور کوارٹر گارڈ میں بند کر دیے جانے جیسے اقدامات کا سامنا ہے۔

پولیس اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ جمعہ کو اعظم ورسک تھانہ سے تعلق رکھنے والے دو پولیس اہلکاروں کو نان کسٹم پیڈ گاڑی استعمال کرنے پر محکمانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑا اور ان کو کوارٹر گارڈ بند کر دیا گیا جبکہ ان کی گاڑی بھی قبضے میں لے لی گئی ہے۔

اس سے قبل، تین ہفتے پہلے بھی چار پولیس اہلکاروں کے خلاف نان کسٹم پیڈ گاڑی استعمال کرنے پر محکمانہ انکوائری شروع کی جا چکی ہے۔

پولیس اہلکار کے مطابق، وہ ایک عجیب و غریب صورتحال سے دوچار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اگر اپنے فرائض میں کوتاہی کرتے ہیں، گشت نہیں کرتے یا مظلوم کی داد رسی نہیں کرتے تو ان سے جواب طلب کیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سرکاری کام کے لیے ذاتی گاڑیاں استعمال کرنے پر انھیں محکمے اور حکومت کی طرف سے کارروائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی ہڑتال کا مقصد حکام کو اپنے مسئلے سے آگاہ کرنا ہے۔

جنوبی وزیرستان میں تعینات ایک ایس ایچ او، اللہ نواز کا کہنا تھا کہ مقامی عدالتیں ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پولیس اہلکار جب اپنی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں میں عدالت جاتے ہیں تو وہاں پر ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔

تاہم، ان کا کہنا ہے ہیں کہ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جارہا ہے۔ ان کے مطابق، اس معاملے پر اعلیٰ احکام اور حکومت کے ساتھ مثبت میٹنگ ہوئی ہے۔

پولیس اہلکاروں کے مطابق وزیرستان میں اس وقت پولیس اہلکار خطرے کا شکار ہیں

پولیس اہلکار کہتے ہیں کہ خطرے کے باعث وہ سرکاری کاموں کے لیے اپنی ذاتی گاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور ہیں

’پولیس کے پاس نہ اختیارات ہیں اور نہ ہی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‘
پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ایک اور بڑا مسئلہ پیرا ملڑی فورس کے ساتھ مختلف چیک پوسٹوں پر مشترکہ تعنیاتیاں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان چیک پوسٹوں پر پولیس اہلکاروں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس اہلکار کئی کئی گھنٹے کام کرتے ہیں۔ اکثر اوقات ڈیوٹی کا یہ دائرہ کار اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے ہوتا ہے جبکہ 24 گھنٹے تھانوں اور چیک پوسٹوں پر رہنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود بھی ہم سے اچھا سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔‘

پولیس اہلکار عثمان وزیر کا کہنا تھا کہ پولیس کے پاس جنوبی وزیرستان میں اختیارات نہیں ہیں۔’ہمیں صرف حکم دیا جاتا ہے کہ فلاں کے خلاف مقدمہ درج کر لو، فلاں کو گرفتار کرلو، یہ کر لو، وہ کرلو۔ ایسے اقدامات سے ہمارے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘

پولیس قوانین کے مطابق، کسی بھی تھانے میں روزمرہ کے فرائض کی ادائیگی کا انحصار روزنامچے پر ہوتا ہے
،تصویر کا کیپشنپولیس قوانین کے مطابق، کسی بھی تھانے میں روزمرہ کے فرائض کی ادائیگی کا انحصار روزنامچے پر ہوتا ہے

عثمان وزیر کہتے ہیں کہ پولیس اگر اپنے تئیں امن و امان پر قابو پانے اور جرائم کے خاتمے کے لیے کوئی کارروائی کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کو روک دیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس طرح علاقے کے لوگوں کا پولیس سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ پولیس کے کام میں ہر قسم کی مداخلت کو بند کیا جائے۔ یہ مداخلت بہت سے مسائل کا سبب بن رہی ہے

وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس علاقے کے حوالے سے سب سے زیادہ باخبر ہوتی ہے اس سے بہتر کوئی بھی فیصلہ نہیں کرسکتا ہے۔‘

البتہ ایس ایچ او اللہ نواز کا کہنا تھا کہ معاملات حل ہونے کے قریب ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس اہلکار اپنے تھانوں میں موجود ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی وہ معمول کے مطابق اپنا کام شروع کر دیں گے۔‘

بی بی سی نے اس بارے میں ڈی پی او جنوبی وزیرستان فرمان اللہ اور ڈی آئی جی ناصر محمود ستی سے ان کا موقف جاننا کی کوشش کی تاہم اب تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

Share.

Leave A Reply