روحان احمد
عہدہ,بی بی سی اردو، اسلام آباد
پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے علاقے شانگلہ میں رواں ہفتے ایک خودکش کار حملے میں پانچ چینی انجینیئرز کی ہلاکت کے بعد چین نے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم کو اسلام آباد بھیجا ہے۔
جمعے کو پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے چین کی تحقیقاتی ٹیم کی اسلام آباد میں موجودگی کی تصدیق کی ہے۔
بی بی سی کو وزارتِ داخلہ کی طرف سے موصول بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے شانگلہ حملے کی تحقیقات کے لیے چین سے آئی خصوصی ٹیم سے ملاقات کی اور انھیں اس حملے سے متعلق اب تک ہونے والی تحقیقات اور تفصیلات سے آگاہ کیا۔
یہ ملاقات اسلام آباد میں چینی سفارتخانے میں ہوئی تھی جہاں چینی سفیر بھی موجود تھے۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق اس ملاقات کے دوران چینی حکام اور وزیرِ داخلہ محسن نقوی کے دوران پاکستان میں موجود چینی شہریوں کی سکیورٹی کے حوالے سے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
خیال رہے منگل کو اسلام آباد سے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی طرف جانے والی چینی انجینیئرز کی گاڑی سے شانگلہ کے علاقے بشام میں ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی ٹکرا دی تھی، جس کے نتیجے میں پانچ چینی انجینیئرز اور ان کا ایک پاکستان ڈرائیور ہلاک ہوا تھا۔
یہ خیبرپختونخوا میں کوئی پہلا دہشتگردی کا واقعہ نہیں جس میں چینی باشندوں کو نشانہ بنایا گیا ہو بلکہ اس سے قبل سنہ 2021 میں اپر کوہستان کے علاقے داسو میں بھی ایک بس کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں نو چینی انجینیئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے دیگر علاقوں بشمول کراچی اور صوبہ بلوچستان میں بھی متعدد حملوں میں چینی شہریوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
خیال رہے چین نے پاکستان میں ’چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور‘ (سی پیک) کے تحت ملک میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس سے منسلک منصوبوں پر کام کرنے کے لیے چینی انجینئرز اور دیگر کارکنان کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔
پاکستان سے اس حملے کی جلد اور جامع تحقیقات کا مطالبہ
جمعے کو چین کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بھی اپنے ایک ’انٹر ایجنسی ورکنگ گروپ‘ کو اسلام آباد بھیجنے کی تصدیق کی ہے۔
ایک بریفنگ کے دوران چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لِن جیان کا کا کہنا تھا کہ ’28 مارچ کو پاکستان پہنچنے کے بعد ورکنگ گروپ نے فوری طور پر پاکستان میں واقع چینی سفارتخانے اور متعلقہ کمپنی کے ساتھ مل کر ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیا۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’انٹر ایجنسی ورکنگ گروپ‘ کی سربراہی ڈیپارٹمنٹ آف ایکسٹرنل سکیورٹی افیئرز کے ڈائریکٹر جنرل بائی تیان کر رہے ہیں اور انھوِں نے اسلام آباد میں پاکستان کے سیکریٹری خارجہ، وزیرِ خارجہ اور وزیرِ داخلہ سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔
لِن جیان کے مطابق ’انٹر ایجنسی ورکنگ گروپ‘ کے سربراہ نے ’پاکستان سے اس حملے کی جلد اور جامع تحقیقات کرنے‘ کا کہا ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چین نے پاکستان سے ’پختہ اقدامات کر کے سکیورٹی بڑھانے، سکیورٹی خطرات کے مکمل خاتمے اور چینی اہلکاروں، اداروں اور منصوبوں کی حفاظت کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کو یقینی بنانے‘ کے لیے کہا۔
پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ چینی انجینیئرز پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور وہ چینی اہلکاروں، اداروں اور منصوبوں کی سکیورٹی بڑھانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات لے رہے ہیں۔
چینی دفترِ خارجہ کے ترجمان لِن جیان کے مطابق چین سے آنے والا ’انٹر ایجنسی ورکنگ گروپ‘ اس حوالے سے پاکستان میں مزید کام کرے گا۔
خیال رہے اب تک کسی بھی گروہ کی جانب سے چینی انجینیئرز پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔ دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان نے بھی اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے تاہم پاکستانی فوج نے اس حملے کا الزام ’غیر ملکی عناصر‘ پر عائد کیا ہے۔
پاکستان پر بڑھتا دباؤ
پاکستان کی سکیورٹی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی اہلکاروں پر ہونے والے حملے پاکستان پر دباؤ کا باعث بن رہے ہیں اور انھیں سکیورٹی کی ’ناکامی‘ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان اور پورے خطے میں شدت پسند گروہوں پر تحقیق کرنے والے تجزیہ کار ڈاکٹر اسفندیار میر کہتے ہیں کہ ’ان حملوں پر چینی حکومت کو شدید تحفظات ہیں اور اس کے سبب پاکستان پر سکیورٹی بڑھانے اور ان حملوں کو روکنے کے لیے دباؤ پڑ رہا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’صدر شی جن پنگ خود پاکستانی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں چینی شہریوں کی حفاظت کی اہمیت پر زور دے چکے ہیں۔‘
تاہم ڈاکٹر اسفندیار کہتے ہیں کہ چینی حکومت پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں کے حوالے سے موجود چیلنجز سے واقف ہے اور پچھلے کئی سال میں وہ پاکستان کے پیچیدہ سکیورٹی اور سیاسی ماحول کو بہتر طریقے سے سمجھ گئے ہیں اور شاید اس لیے وہ کسی حد تک ’سکیورٹی رسک‘ لینے کو تیار ہیں۔
پاکستان میں چینی شہریوں کی سکیورٹی کے لیے اکثر رینجرز، فوج، لیویز اور پولیس اہلکاروں کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن کئی مرتبہ پاکستانی حکومت کی جانب سے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے خصوصی فورس بنانے کے بھی اعلانات سامنے آئے ہیں۔
اسلام آباد میں تعینات ایک سکیورٹی افسر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ملک میں سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے ایک سکیورٹی ڈویژن موجود ہے جس کی سربراہی پاکستانی فوج کے ایک میجر جنرل کرتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق خیبرپختونخوا میں پولیس کا بھی ایک ’سی پیک یونٹ‘ ہے جو چینی شہریوں کی سکیورٹی کا ذمہ دار ہے اور اس کے علاوہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کو بھی اکثر اوقات حفاظت کے لیے تعینات کیا جاتا ہے۔
چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے پہلے ہی ایس او پیز موجود ہیں: پاکستانی حکومت
پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے پہلے ہی ’ایس او پیز‘ (سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر) موجود ہیں لیکن ان میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
اسلام آباد میں ملک کی سکیورٹی صورتحال اور چینی باشندوں پر ہونے والے حملے کے تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں بدھ کو ایک اجلاس ہوا تھا جس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور سکیورٹی حکام نے بھی شرکت کی تھی۔
اجلاس کے بعد پاکستان کے وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بشام واقعے کی تحقیقات ایک جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے ذریعے کروائی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب بھی کوئی چینی شہری کسی بھی ایئرپورٹ پر اُترتا ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع دی جاتی ہے تاکہ سکیورٹی کا انتظام کیا جا سکے۔‘
وفاقی وزیر کے مطابق ’ایس او پیز میں اگر کوئی کمی ہے تو اسے دور کیا جائے گا۔‘
وزیراطلاعات نے مزید کہا کہ ’چاہے چینی شہری ہوں، ملک کی حساس تنصیبات ہوں یا ہمارے اپنے شہری، ان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن قدم اُٹھایا جائے گا۔‘
ان کے مطابق ’سی پیک اور سی پیک کے علاوہ منصوبوں پر مامور چینی افراد کو سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔‘