کراچی: صدیوں کی کتھا! (گیارہویں قسط)
ابوبکر شیخ
جاڑے کی ٹھنڈی راتوں میں اگر ہر کوئی رضائی اپنے طرف کھینچے گا تو بیچاری رضائی کو پھٹ ہی جانا ہے۔ گزرے زمانوں میں ہماری تاریخ تحریر کرنے والوں کے ساتھ بھی بالکل یہی معاملات رہے۔ جن لکھاریوں نے اپنے اپنے علاقوں پر کام کیا، وہ یہ کوشش کرنے اور ثابت کرنے میں ساری طاقت خرچ کر دیتے کہ پوری دنیا کی تاریخ اسی جگہ سے شروع ہوئی ہے جہاں وہ رہتا ہے یا جس موضوع پر وہ کام کررہا ہے۔
مطلب بابا آدم بھی وہیں اُترے تھے، انسان کی ارتقا کی داغ بیل بھی وہاں پڑی تھی، کپڑے بھی پہلے اسی کے علاقے میں بُنے گئے تھے بلکہ یہاں تک کہ چمپینزی نسل کے بندر بھی وہیں پیدا ہوئے تھے۔ مطلب کے سب کچھ وہیں ہوا تھا۔ باقی پوری دنیا کے انسان یا تو اس وقت تھے ہی نہیں اور اگر تھے بھی تو ویلے ہی بیٹھے تھے۔ یہ سوچ اتنی ہی غلط ہے جتنی سکندراعظم اور اُس کی فوج کی غلط تھی۔
ہوا یہ کہ جب سکندر اور اُس کے فوجی جتھے ہندوکش پار کرکے جنوب کی طرف گرم علاقوں میں آئے تو یہاں بے تحاشا جنگل تھے اور اُن میں ہزاروں کی تعداد میں بندر بھی تھے۔ چونکہ اس سے پہلے اُن کی آنکھوں نے بندر نہیں دیکھے تھے تو وہ یہ سمجھے کہ یہ درختوں پر کودنے والے انسان ہیں۔ انہیں فوری ماردیا جائے ورنہ یہ ہمیں برباد کردیں گے۔ پھر جب کچھ بندر مار دیے گئے تو دیر سے انہیں پتا لگا اور مقامی لوگوں نے بتایا کہ نہیں یہ بالکل بھی درختوں پر چھلانگیں لگانے والے انسان نہیں ہیں بلکہ یہ بے ضرر سے بیچارے بندر ہیں تب بندروں کے سر سے شامت ٹلی۔
سرکپ ٹیکسلا—تصویر: لکھاری
ایسے بحث و مباحثوں میں باتوں کی دھول بہت اُڑتی ہے جس میں حقیقت کی نشانیاں ڈھونڈنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی تحقیق میں جب آپ کی جذباتی کیفیتیں شامل ہوجائیں تو پھر کسی بہتر اور حقیقت کے قریب نتائج کی تمنا کرنا بےسود ہے۔ بہرحال جو بھی ہوا، گزرے زمانوں کے اس منظرنامے پر بالخصوص ہمارے موضوع کے حوالے سے خاموشی کی ایک لمبی چادر تنی ہوئی ہے۔ ویدوں (ہندو مت کے قدیم الہامی کتب کے مجموعے کا نام) میں چونکہ شمالی مشرقی حصے کا کچھ ذکر ملتا ہے یا دریائے سندھ کا، مگر سمندر کناروں یا یہ کہنا چاہیے کہ جنوبی سندھ کا ذکر نہ ہونے کے برابر ملتا ہے۔ انہیں اسباب کی بنا پر ہم کچھ کہنے کی کیفیت میں نہیں ہیں خاص طور پر کراچی کے حوالے سے۔
مگر ان حوالوں سے یہ بات اخذ نہیں کرنی چاہیے کہ سمندر کنارے سے ملتان یا ٹیکسلا تک ایک خاموشی چھا گئی تھی۔ ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔ آریاؤں کی آمد کی وجہ سے شمالی علاقے آریاؤں اور مقامی قبائل کے آپس میں بھڑنے کی وجہ سے جنگ کے میدان بنے ہوئے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ نئے آنے والوں نے پرانے رہنے والوں کو جنوب کی طرف ضرور دھکیلا مگر یہ بھی افسانہ نہیں ہے کہ ایک زمانے کے بعد ہمیں پھر انہیں علاقوں میں مقامی لوگوں کی حکومتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ جیسے ’مگدھ‘ کی طرف جس کے متعلق ہم بات کرنے والے ہیں، جبکہ ٹیکسلا سے جنوب مغرب تک کا منظرنامہ محتلف تھا، وہاں مقامی حاکموں کی چھوٹی بڑی حکومتیں تھیں جو اپنے قبیلوں کے بنیاد پر مستحکم تھیں۔ زیادہ آسانی سے سمجھنے کے لیے ہم شمال مشرق جنوب کو گنگا گھاٹی اور شمال جنوب مغرب کو سندھو گھاٹی کے ناموں سے یاد کریں گے۔
قدیم تاریخ اور عہد وسطیٰ کے متعلق ہماری معلومات مایوس کُن حد تک غیر متغیر اور غیریقینی ہے۔ اگر ہم چھٹی صدی قبل مسیح قدیم زمانوں کے سیاسی حالات جاننا چاہیں تو ہمارا انحصار بدھ مت اور جین مذہب کی مقدس کتابوں پر ہے جو تاریخی حوالے سے انتہائی ناقص ہیں۔ بقول اے-ایل-باشم، ان کتابوں کے مصنفین نے سیاسی معاملات پر توجہ نہیں دی اور ویدوں کی طرح یہ کتابیں بھی صدیوں تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں۔ مگر ویدوں کے برعکس زمانے کے ساتھ حجم میں بڑھتی گئیں۔ بہرحال ہمارے پاس اُن زمانوں میں گنگا ویلی کی دو بڑی حکومتوں کوسل اور مُگدھ کے متعلق بہت ساری معلومات ہے۔ کیونکہ یہ دونوں ہی بدھ مت اور جین مذہب کے بانیوں مہاتما بدھ اور مہاویر کی سرگرمیوں کا مرکز رہیں۔
کوسل کی حکومت جو افسانوی شخصیت رام کا وطن تھی پہلے ہی زوال پذیر ہوچکی تھی، اس کا بادشاہ پرسن جیت (پالی میں: پسندی) ایک طاقتور حکمران تھا۔ مگر بدھ مت کی مقدس کتابوں میں اسے ایک ناکارہ بادشاہ کہا گیا ہے جبکہ مگدھ (مگدھ سلطنت جنوبی ہند کی ایک تہذیبی یافتہ سلطنت تھی۔ مہاویر (527-599) ق۔م میں جین مت اور سدھارتھ (483-563) ق۔م میں بدھ مت کی داغ بیل ڈال چکے تھے) کے بادشاہ بمبسار ایک زبردست بادشاہ تھا اور اپنی سلطنت میں گھوم پھر کرحالات کا مطالعہ کرتا اور مسائل کا حل ڈھونڈتا، وہ ایک پُرامن انسان تھا اور اپنے مغربی ہمسایوں سے اچھے تعلقات رکھتا تھا یہاں تک کہ اس کے بالائی سندھ میں واقع گندھارا جیسی دور دراز حکومت سے بھی خوشگوار تعلقات تھے۔
آریاؤں نے بعدازاں جو شہر بسائے ان میں سب سے بڑا مرکز ٹیکسلا تھا۔ سبط حسن لکھتے ہیں کہ ’مہابھارت کے ساتھ وادی سندھ میں آریائی تہذیب کا دور ختم ہوا جو رِگ وید سے شروع ہوا تھا لیکن یہ ضرور تھا کہ جو بھی نئے فاتح آئے اور جو روایتیں آریاؤں نے قائم کی تھیں، انہیں دوسرے مٹا نہ سکے، خاص طور پر آریاؤں کی مذہبی زبان سنسکرت اور ان کی پراکرتوں بالخصوص ’خروشٹی‘ اور ’شورسینی‘ کو حاصل ہے۔ آگے چل کر یہی پراکرتیں ہماری زبانوں کی اساس بنی‘۔ مگدھ کے بمبسار نے اپنی ابتدائی تعلیم ٹیکسلا میں حاصل کی تھی۔ آرتھر باشم لکھتے ہیں ’ہم جب مگدھ، کوسل، وتسہ اور ونتی سلطنتوں کی بات کرتے ہیں تو یہ وہ زمانہ تھا جب گنگا وادی میں تہذیب کا نقطہ ارتکاز مشرقی حصہ ہوگیا تھا اور برہمنی تمدن کے حدود کے باہر ان چار عظیم حکومتوں نے سیاسی و معاشی اہمیت میں کوروں کے پرانے وطن کی عظمت کو خاک میں ملادیا تھا۔
گنگا اور سندھو گھاٹی میں، چھ سو قبل مسیح کی حکومتیں
مہاتما بدھ کی وفات سے سات سال قبل بمبسار کے بیٹے اجات شترو نے اپنے باپ کو تخت و تاج سے محروم کرکے قید کردیا اور 490 قبل مسیح میں اسے قتل کردیا۔ مہاتما بدھ نے 483 ق۔م میں یہ جہان چھوڑا۔ ان دونوں باپ بیٹوں نے اپنی سلطنت کی وسعتیں بڑھانے کے لیے بہت محنت کی اور یہ ممکن ہے کہ اجات شترو کا باپ بمبسار، فارس کے ’ہخامنشی‘ (Aehaemenid) کے بانی ’کوروش اعظم‘ (دوئم: 558-530 ق-م) سے متاثر ہوا ہو جو بمبسار سے 16 سال قبل تخت پر بیٹھا تھا۔ باشم لکھتے ہیں ’سائرس دوئم انتہائی تیز رفتاری سے دنیا کی عظیم سلطنت کو وجود میں لایا، اس وقت شمال مشرق میں ٹیکسلا کا شہر علم و تجارت کا مرکز تھا‘۔
519 ق۔م کے بیستون کے کتبہ کے مطابق (اس کتبہ کی اونچائی 7 میٹر اور 80 سینٹی میٹر ہے اور اس کی لمبائی 22 میٹر ہے جس کے مرکز میں قدیم فارسی ’میخی‘ رسم الخط پر کا یہ قدیم فارسی متن مجموعی طور پر 525 سطروں پر مشتمل ہے۔ اس کتبہ میں تحریر کے علاوہ مختلف مناظر ہیں جو پھتروں پر نقش کیے گئے ہیں۔ ان میں داریوش کبیر کی شاندار کامیابیوں اور دشمنوں کے عجز و عزمیتوں کو دکھایا گیا ہے)۔ تیسرا ہخامنشی شہنشاہ دارا اول گندھارا پر قابض تھا۔ آپ اگر سائرس اعظم کی حکومت کی سرحدیں دیکھیں گے تو مغرب میں سارڈیس (قدیم یونان)، شمال میں آرمینیا، مشرق میں گندھارا شامل تھے۔
بیستون کا کتبہ
ہیروڈوٹس کوروش اعظم کی مشرقی مہم جوئی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مشرقی لشکر کشی لیڈیا کی فتح کے بعد اور بابل کی فتح سے قبل پیش آئی۔ اس کے بعد مشرق کی طرف اس لیے متوجہ ہونا پڑا کیونکہ گیڈروسیا (مکران) اور بکٹریا (بلخ و ہرات) کے قبائل نے سرکشی کی۔ یہ مہم 540 اور 545 ق-م میں ہوئی، سلطنت کورش اپنے وقت کی سب سے بڑی سلطنت تھی، کورش کی حکومت کے خاتمے تک یہ سلطنت ایشائے کوچک اناطولیہ سے لےکر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ پھر دریائے سیحوں اور دریائے جیہوں کے درمیانی علاقہ صغدیہ کو فتح کیا۔ اس طرح اس کی سلطنت ماورالنہر اور ہندو کش تک پھیل گئی۔
ہیروڈوٹس کوروش اعظم کی مشرقی مہم جوئی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مشرقی لشکر کشی لیڈیا کی فتح کے بعد اور بابل کی فتح سے قبل پیش آئی۔ اس کے بعد مشرق کی طرف اس لیے متوجہ ہونا پڑا کیونکہ گیڈروسیا (مکران) اور بکٹریا (بلخ و ہرات) کے قبائل نے سرکشی کی۔ یہ مہم 540 اور 545 ق-م میں ہوئی، سلطنت کورش اپنے وقت کی سب سے بڑی سلطنت تھی، کورش کی حکومت کے خاتمے تک یہ سلطنت ایشائے کوچک اناطولیہ سے لےکر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ پھر دریائے سیحوں اور دریائے جیہوں کے درمیانی علاقہ صغدیہ کو فتح کیا۔ اس طرح اس کی سلطنت ماورالنہر اور ہندو کش تک پھیل گئی۔