ججوں کے خط پر سپریم کورٹ کا لارجر بینچ: ’بہترین موقع ہے کہ ذمہ داروں کو سزا دی جائے، چاہے وہ کسی ادارے کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو‘

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے سات رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے۔

یہ بینچ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین کو لکھے گئے ایک چونکا دینے والے خط کے بعد بنایا گیا، جس میں ججوں کے رشتہ داروں کے اغوا اور تشدد کے ساتھ ساتھ ان کے گھروں میں خفیہ نگرانی کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوششوں کے بارے میں کہا گیا تھا۔

اس خط پر ججز محسن اختر کیانی، طارق محمود جہانگیری، بابر ستار، سردار اعجاز اسحاق خان، ارباب محمد طاہر اور سمن رفعت امتیاز کے دستخط تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، اطہر من اللہ، مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل سات رکنی بینچ بدھ سے مقدمے کی سماعت کرے گا۔

خیال رہے کہ عدلیہ پر اس معاملے میں دباؤ میں اس وقت اضافہ ہوا جب پاکستان بھر کے 300 سے زائد وکلا نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کو ایک خط میں زور دیا تھا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت خفیہ اداروں کی طرف سے عدلیہ میں مداخلت کے الزامات کا نوٹس لے۔

وکلا کی جانب سے لکھے گئے خط میں مزید کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دے کر اس معاملے کی سماعت کرے اور مفاد عامہ کے اس معاملے کی عدالتی کارروائی کو عوام کے لیے براہ راست نشر کیا جائے۔

واضح رہے کہ جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی تھی جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور سنیچر کو وفاقی کابینہ نے سابق چیف جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں انکوائری کمیشن کے قیام کی منظوری دی جو الزامات کی تحقیقات کرے گا اور فیصلہ کرے گا کہ آیا یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔

تاہم آج کی تازہ ترین پیشرفت کے مطابق جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی ہے۔

اس سب کے دوران پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اعتراض کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو ’اس سنجیدہ معاملے پر لارجر بینچ کی بجائے فل کورٹ بلا کر اس کارروائی کو آگے بڑھانا چاہیے۔‘

تو کیا اب بھی حکومت کی جانب سے کمیشن تشکیل دیا جائے گا، پاکستان تحریکِ انصاف فل کورٹ کا مطالبہ کیوں کر رہی ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کے بعد اب اس سات رکنی بینچ کے پاس کیا اختیارات ہوں گے؟

tassaduq

’اچھا ہوتا اس معاملے پر سپریم کورٹ کے تمام ججز بینچ کا حصہ ہوتے‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حامد خان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے لکھے گئے خط سے متعلق ازخود نوٹس لے کر احسن اقدام کیا لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس معاملے کو سپریم کورٹ کے سات ججز کی بجائے تمام ججز اس معاملے کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ ہوتے۔

انھوں نے کہا کہ جب تین اپریل کو اس از خود نوٹس کی سماعت ہو گی تو وہ یہ نکتہ سپریم کورٹ کے سامنے اٹھائیں گے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ ’یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے اور ہمیں کسی بھی معاملے پر ایسا تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ عدالت کمپرومائز ہوئی ہے اس لیے بہتر ہوتا کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز کو اس بینچ میں شامل کیا جاتا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس بینچ میں کچھ ایسے ججوں کو شامل نہیں کیا گیا جن کے بارے میں مبینہ طور پر تاثر یہ ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں تو حامد خان نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ آزاد جج ہیں اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خطوط کے معاملے پر انکوائری کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو وزیر اعظم سے ملاقات کی بجائے انھیں سمن کرنا چاہیے تھا کہ ان کے ماتحت کام کرنے والے خفیہ ادارے ایسا غیر قانونی کام کیوں کر رہے ہیں۔‘

pti

’حکومت کے پاس تحقیقات کے لیے اب کوئی آپشن موجود نہیں‘

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی کا کہنا ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط اور پھر ملک بھر سے تین سو سے زآئد وکلا کی طرف سے چیف جسٹس کو خط پر از خود نوٹس لیا ہے تو اس سلسلے میں سپریم کورٹ حقائق تک پہنچنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ کے پاس انکوائری کمیشن سے بھی زیادہ اختیار ہیں۔‘

واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ کو کسی بھی ایسے واقعے سے متعلق از خود نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہے جو یا تو مفاد عامہ کا معاملہ ہو یا پھر جہاں پر بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہوں۔

’آغاز میں اس کی تشریح یہ سمجھی جاتی تھی کہ کوئی درخواست گزار سپریم کورٹ جائے اور پھر اس کی پٹیشن پر سپریم کورٹ فیصلہ دے تاہم سنہ 1990 کے قریب سپریم کورٹ نے اس حوالے سے تشریح تبدیل کی اور ازخود نوٹس کے تحت ہی سماعت کرنا شروع کر دی۔‘

بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ اس میں دونوں قسم کے کیس ہوتے ہیں ایک وہ جس میں کوئی درخواست گزار پٹیشن لے کر جائے اور دوسرا وہ جس میں ازخود نوٹس لیا جاتا ہے۔

عابد ساقی کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا حکومت کی طرف سے بنائے گئے انکوائری کمیشن کی سربراہی کرنے سے معذوری ظاہر کرنا احسن اقدام کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کیسے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حاضر سروس چھ جج صاحبان سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کے سامنے پیش ہوتے جن کے پاس کوئی اختیار بھی نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کا عدالتی نظام پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مقتدرہ حلقے ججز پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلے لیتے رہے ہیں۔‘

عابد ساقی کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اس معاملے کی تہہ تک جائے اور ذمہ داروں کا تعین کر کے انھیں سزا دے چاہے وہ کسی ادارے کا سربراہ یا بااثر شخصیت ہی کیوں نہ ہو۔‘

تو کیا اب بھی حکومت کی جانب سے کوئی دوسرا کمیشن تشکیل دیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں عابد ساقی کا کہنا تھا کہ ’تصدق حسین جیلانی کی طرف سے انکار کے بعد حکومت کے پاس اب کوئی آپشن موجود نہیں کہ وہ اس معاملے کی تحققیات کے لیے کوئی دوسرا انکوائری کمیشن تشکیل دے سکے۔‘

Share.

Leave A Reply