سکھر کے قصبے سنگرار میں یہ دس محرم کا دن تھا۔
یہ قصہ لگ بھگ ڈھائی برس پرانا ہے اور قصبے سمیت شہر بھر میں ماتمی جلوس نکالے جانے کے باعث موبائل فون سروس بند تھی اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں چل رہی تھی۔
یہ دونوں ہی عوامل سنگرار میں ہونے والے ایک پراسرار واقعے میں انتہائی اہم ثابت ہونے والے تھے۔
یہاں پرچون کی دکان چلانے والے راج کمار عرف راجو کی نو سالہ بیٹی پریا ان کے پاس محرم کے موقع پر لگائی گئی سبیل میں ہاتھ بٹانے آئی تھی۔
تقریباً تین بجے کے قریب راج کام کے غرض سے گھر گئے اور جب ایک گھنٹے کے بعد واپس لوٹے تو ان کی بیٹی وہاں موجود نہیں تھی۔ انھوں نے فوری طور پر عزیزوں، رشتے داروں اور دیگر افراد سے بھی معلوم کیا لیکن کچھ معلوم نہ ہو سکا۔
19 اگست 2021 کو لاپتہ ہونے والی پریا کماری کا آج ڈھائی برس گزرنے کے بعد بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
پولیس نے اس کیس کو ’بلائنڈ کیس‘ قرار دے دیا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ اب پریا کا زندہ مل جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔
یہ اس لیے کیونکہ نہ موبائل سروس چل رہی تھی کہ جیو فینسنگ کر لی جائے، پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند تھی اور علاقے میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی موجود نہیں تھے۔
پریا کے والد راجو عرف راج کمار نے واقعے کے تین روز بعد سنگرار تھانے میں اغوا کا مقدمہ درج کروایا تھا لیکن اس کے بعد سے آج تک وہ بیٹی کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔
اس دوران وہ سیاست دانوں کے پاس بھی گئے لیکن اب مایوس ہو چکے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے ہیں پتا نہیں چل رہا کہ زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔‘
’وزیروں کے پاس گیا، زمینداروں کے پاس گیا انھوں نے کہا کہ کسی پر شک ہے تو بتاؤ۔۔۔ اگر ہمیں پتا ہوتا تو بتاتے۔‘
بلائنڈ کیس
سکھر پولیس کی جانب سے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کو دی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تفتیش کے دوران ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کو حراست میں لے کر انویسٹیگیشن کی گئی اور 22 لوگوں کا ڈی این اے کروایا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ’تین سو گھروں کی کھوجی کتوں کی مدد سے تلاشی لی گئی، درگاہوں و مندروں سے معلومات حاصل کی گئیں اور آس پاس کے علاقے کے خانہ بدوشوں اور بھکاریوں کی بستیوں میں بھی چھان بین کی گئی۔‘
ایس ایس پی سکھر عابد بلوچ کہتے ہیں کہ ’ان سے پہلے جو ایس ایس پیز رہے ہیں انھوں نے تمام ممکنہ کوششیں کیں اور پنجاب تک تحقیقات کا دائرہ بڑھایا، وہ اب مزید کوشش کر رہے ہیں کہ ہیومن انٹیلیجنس کے ذریعے کچھ معلوم ہو جائے لیکن پریا کماری کے بارے میں کچھ معلوم ہونا کسی معجزے سے کم نہ ہو گا یعنی وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔‘
صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار کا مؤقف بھی پولیس سے ملتا جلتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ پریا کماری زندہ ہے کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ زندہ نہیں۔ خدا کرے کہ وہ زندہ ہو‘ تاہم صوبائی وزیر یہ واضح نہیں کر سکے کہ کس بنیاد پر یہ کہا جارہا ہے کہ وہ زندہ نہیں۔
پولیس کا یہ بھی موقف سامنے آیا کہ والدین تعاون نہیں کر رہے جبکہ پریا کے والد راج کمار کہتے ہیں کہ ’ان کے دو موبائل فون پولیس کے پاس ہیں جن میں سے ایک سے پریا گیم کھیلتی تھی۔ اس میں سم نہیں تھی جبکہ ایک دوسرا موبائل ہے اور اب اتنا عرصہ ہو چکا ہے کہ انھیں اس کے پاس ورڈ بھی یاد نہیں رہے۔‘
یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر مقامی سیاسی سید گھرانے پر بھی الزامات عائد کیے جا رہے تھے تاہم انھوں نے اس واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
پولیس نے سید فیملی کے 40 ملازمین کو بھی شامل تفتیش کیا تھا۔ راج کمار کا بھی کہنا تھا کہ سید فیملی ان کی مدد کرتی رہی ہے۔
سکھر کے سینیئر صحافی فاروق سومرو کہتے ہیں کہ ’یہ مقدمہ اتنا بھی بلائنڈ کیس نہیں کیونکہ اس میں تاخیری حربے استعمال ہوئے۔ پہلے مقدمہ درج تاخیر سے ہوا پھر اس وقت تک پولیس نے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں جب تک چیف جسٹس نے نوٹس لیا۔ اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی۔‘
خیال رہے کہ پریا کماری کی بازیابی میں پولیس کی جانب سے کوئی بڑی پیشرفت نہ ہونے کی وجہ سے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے 2021 میں ازخود نوٹس لیا تھا، جس کے بعد ڈی آئی جی سکھر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں تین ایس ایس پیز بھی رکن تھے، اس کمیٹی کی رپورٹ پبلک نہیں کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ’سنگرار چھوٹا شہر ہے یہ ممکن نہیں کہ کسی نے بچی کو لے جاتے ہوئے نہ دیکھا ہو۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پولیس افسران کے پاس کچھ معلومات ہیں لیکن انھوں نے انھیں دبایا ہوا ہے۔‘
اقوام متحدہ میں گونج
پریا کماری کے اغوا کے خلاف اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی تک میں آواز اٹھائی گئی۔
12 جولائی 2023 کو سندھی فاؤنڈیشن کے رہنما صوفی منور لغاری نے ہیومن رائٹس کمیٹی سے خطاب میں پریا کماری کے اغوا پر تفتیش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کو اغوا کر کے جبری مذہب تبدیل کیا جا رہا ہے۔
امریکی کانگریس کے رکن براڈ شرمین نے بھی ستمبر 2023 میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا تھا کہ ’پریا کماری کی گمشدگی کو دو سال ہو چکے ہیں۔ ہاؤس آف فارین کی انسانی حقوق کی ذیلی کمیٹی جو بچوں کی سمگلنگ پر روشنی ڈال رہی ہے، آئیے ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ کوششیں بے جواز نہیں رہیں گی۔‘
پریا کماری کے اغوا کے خلاف کراچی سے لے کر کشمور تک احتجاجی مظاہرے، بھوک ہڑتالیں اور لانگ مارچ کا سلسلہ جاری ہے۔ قومی عوامی تحریک، عوامی تحریک، قوم پرست جماعتوں، وکلا سمیت سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھی مسلسل احتجاج کیا جا رہا ہے۔
گمبٹ ہسپتال کے کارڈیولوجسٹ ڈاکٹر نذیر کھوکھر خیرپور سے سکھر اور سنگرار سے سکھر تک دو بار پیدل مارچ کر چکے ہیں۔ انھوں نے سکھر پریس کلب کے باہر کئی روز احتجاجی کیمپ بھی قائم کیا۔
ڈاکٹر نذیر کھوکھر کا کہنا ہے کہ ’ہندوؤں پر جو جبر ظلم ہے یہ ایک سازش ہے اس سے پہلے بھی سندھ کی کئی ہندو بیٹیوں کو اغوا کیا گیا۔‘
’اگر پریا بازیاب ہو گی تو ہندو یہاں رہیں گے، اگر ہندو یہاں رہیں گے تو سندھ کی معشیت مضبوط رہے گی۔‘
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر بھی ’برنگ بیک پریا کماری‘ کے نام سے ٹرینڈ چلایا گیا۔ ماروی لطیفی لکھتی ہیں کہ ’سندھ میں مجرمانہ کارروائیوں اور قانون شکنی کرنے والوں کو کون سہولت فراہم کرتا ہے؟ سندھ میں امن و امان کسی کی ذمہ داری ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ حکام صرف ہماری زمینیں اور وسائل چھیننے کے لیے موجود ہیں۔‘
شنل کھوسو لکھتی ہیں کہ ’ہر ماں پریا کماری کی بازیابی اور ڈاکو راج کے خاتمے کی مانگ کر رہی ہیں۔‘
عائشہ خان لکھتی ہیں کہ ’معصم بچی پریا کماری کو تین سال کا عرصہ ہو چکا لیکن ابھی تک اس کو رہا نہیں کروایا جا سکا۔ کیا وہ سندھ کی بیٹی نہیں؟ سب خاموش کیوں ہیں؟ اس معصوم بچی کے لیے کون آواز اٹھائے گا؟‘
شمالی سندھ میں انسانی حقوق کی کارکن عائشہ دہاریجو جنھوں نے حال ہی میں پریا کی والدہ سے ملاقات کی تھی لکھتی ہیں کہ ’معصوم پریا کماری آخر کن ہاتھوں میں قید ہے جو قانون کے ہاتھ بھی ان تک نہیں پہنچ رہے ہیں ہم اور آپ کب تک یہ تماشہ دیکھتے رہیں گے۔‘
عائشہ دہاریجو نے بی بی سی سے اس ملاقات کی تفصیلات شیئر کی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’راج کمار بات کے لیے تیار نہ تھے بعد میں وہ اپنی بیوی سے بھی ملاقات نہیں کروا رہے تھے بار بار کہہ رہے تھے کہ ہمارے بڑے اجازت دیں۔‘
’میں نے محسوس کیا کہ دونوں میاں بیوی خوفزدہ تھے اور بہت سوچ سمجھ کر چھوٹے چھوٹے جوابات دے رہے تھے اور والدہ پولیس کی تفتیش سے مطمئن نہیں تھیں۔‘
عائشہ کے مطابق ان کا اندازہ ہے کہ ’کسی چیز کی پردہ داری ہے کہ کوئی بھی افسر مکمل تحقیقات نہیں کر سکا وہ صرف آئی جی کو آگاہ کرتے رہے اور اس حوالے سے کوئی مکمل تفتیش تحریری شکل میں موجود نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ بار بار تفتیشی افسر تبدیل ہوئے کوئی ہے جو کسی کو کہیں بچا رہا ہے۔‘
جے آئی ٹی بنانے کی سفارش
سندھ بھر میں احتجاج اور سوشل میڈیا پر شدید رد عمل کے بعد ایس ایس پی سکھر نے محکمہ داخلہ کو تحریری طور پر گزارش کی کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم بنائی جائے۔
اس سے قبل سندھ کے محکمہ انسانی حقوق کی جانب سے آئی جی سندھ کو ایک لیٹر کے ذریعے گزارش کی گئی تھی کہ تحقیقات میں پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور رینجرز سے بھی مدد حاصل کی جائے۔
خط کے مطابق بیٹی کی گمشدگی کی وجہ سے راج کمار اور ان کی بیوی وینا شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔
سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین اقبال ڈیتھو کہتے ہیں کہ ’بدھ کے روز انھوں نے سکھر میں پریا کماری معاملے کی سماعت رکھی ہے جس میں پولیس کی پیشرفت کے بارے میں سنا جائے گا۔‘
صوبائی وزیر داخلہ ضیالحسن لنجار کہتے ہیں کہ ’ڈی آئی جی جاوید جسکانی کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے تین ایس ایس پیز رکن ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’ماضی میں تفتیش کے دوران کچھ کوتاہیاں ہوئیں تھیں۔ اب از سر نو تحقیقات کرکے ملزمان کو گرفت میں لایا جائے گا۔‘
سنگرار سے ایک اور نقل مکانی
سنگرار شمالی سندھ کے ضلع سکھر کا ایک قصبہ ہے جو صحرائی علاقے میں واقع ہے۔
یہاں کا کاروبار ہندو کمیونٹی کے پاس ہے۔ یہاں اس وقت بھی کئی گھر ایسے موجود ہیں جو ہندوستان کی تقسیم کے وقت خالی ہو گئے تھے۔
راج کمار نے بتایا کہ انھوں نے بھی اپنا خاندان سکھر منتقل کر دیا ہے کیونکہ وہاں امن زیادہ ہے۔
’یہاں ہمارے پچاس سے زائد خاندان رہتے تھے اب صرف پندرہ خاندان بچے ہیں۔ باقی سارے سکھر چلے گئے ہیں۔‘
سوشل ایکٹوسٹ ڈاکٹر نذیر کھوکھر کہتے ہیں کہ ’پریا کا خاندان اور کمیونٹی خوفزدہ ہے۔ احتجاج میں پہلے وہ آتے تھے پھر انھوں نے آنا چھوڑ دیا۔ پنچائیت کی ایک شخصیت نے مجھے کہا تھا کہ نہ پریا کے والدین آتے ہیں نہ پنچائیت پھر تم یہ احتجاج کیوں کر رہے ہو۔