حافظ نعیم الرحمان: شرمیلا نوجوان جو کراچی کی آواز بنا، کیا جماعت اسلامی کو اپنا ’نیا چہرہ‘ مل گیا؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات میں جب الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے فارم 45 اور 47 پر عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے تھے تو اسی دوران ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک جیتنے والے امیدوار نے خود ہی اپنی شکست تسلیم کر لی۔

اس امیدوار نے کہا کہ یہ نشست تحریک انصاف نے جیتی ہے۔ ان کے اس عمل کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی پذیرائی حاصل ہوئی۔

یہ وہی دن تھے جب حافظ نعیم الرحمان اپنی پارٹی جماعت اسلامی کے مرکزی امیر کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔

جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ صوبائی نشست سے دستبرداری کی وجہ کیا یہ تو نہیں کہ آپ نے مرکزی امیر کی ذمہ داری ادا کرنی ہے؟ تو انھوں نے اس کی تردید کی۔

مگر اب جمعرات کو وہ جماعت اسلامی کے پانچویں امیر منتخب ہوگئے ہیں۔

طالب علمی اور سیاست

پاکستان کے موجودہ سیاسی افق پر حافظ نعیم الرحمان حیدرآباد سندھ سے تعلق رکھنے والے پہلے سیاسی تنظیمی سربراہ ہیں۔ ان کی پیدائش 1972 کو حیدرآباد میں ہوئی اور ان کا گھرانہ علی گڑھ سے تعلق رکھتا تھا۔

ان کے والد عرضی نویس تھے اور حیدرآباد جنرل پوسٹ آفس کے باہر عرضیاں لکھا کرتے تھے۔ تاہم انھوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔

حافظ نعیم نے میٹرک تک تعلیم حیدرآباد میں ہی حاصل کی۔ ان کے تین بھائی ہیں جن میں سے ایک ایم بی بی ایس اور ایک بی ڈی ایس ڈاکٹر ہیں جو ایل ایم سی جام شورو سے فارغ التحصیل ہیں۔

حیدرآباد میں 1988 میں لسانی فسادات میں شدت آنے کے بعد حافظ نعیم کا گھرانہ حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد سے کراچی منتقل ہو گیا اور یوں حافظ نعیم نے ناظم آباد میں شپ اونر کالج میں داخلہ لیا اور سیاست میں قدم رکھا۔

یہ وہ وقت تھا جب ایم کیو ایم مہاجر قومی موومنٹ کے طور پر موجود تھی اور طلبہ سیاست سے لے کر شہری سیاست پر اس کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی۔ جبکہ اس سے قبل تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیتِ طلبہ (جماعت اسلامی کی سٹوڈنٹ ونگ) کا تسلط رہا تھا۔

حافظ نعیم الرحمان کہتے ہیں کہ وہ مذہبی رحجان رکھنے والے شرمیلے نوجوان تھے۔ وہ کالج میں سیدھا جمعیت کے مقامی امیر کے پاس گئے اور شمولیت اختیار کر لی۔ اس کے بعد طلبہ تنظیم کی سرگرمیوں اور سٹڈی سرکلز سے ان میں اعتماد آتا گیا۔ انھیں کرکٹ اور عمران سیریز سمیت ادب سے بھی لگاؤ رہا۔

کالج کے بعد وہ این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبے سول پہنچے۔ ان کا جمعیت کے ساتھ تعلق برقرار رہا۔ اس عرصے میں دو بار گرفتاری بھی عمل میں آئی۔ پہلے جمعیت کراچی اور اس کے بعد وہ مرکزی امیر کے منصب تک پہنچے میں کامیاب ہوگئے۔

اس وقت قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کے سربراہان میں وہ ان چند سیاستدانوں میں سے ہیں جو طلبہ سیاست کے محاظ سے قومی سیاست کے دہارے میں آئے، وہ بھی بغیر کسی موروثی سپورٹ کے۔

Hafiz Naeem

کراچی کی سیاست

جماعت اسلامی پاکستان کے قیام سے کراچی کی متحرک سیاست حقیقت رہی ہے۔ یہاں سے تین بار میئر کا منصب جماعت کے پاس آیا۔

ان میں سے ایک بار ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کی وجہ سے نعمت اللہ خان کامیاب ہوئے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کا بھی ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا جس کے بعد جماعت اسلامی نے نو ٹاؤنز میں کامیابی حاصل کی۔

کراچی میں شاید ہی ایسا کوئی جمعے کا دن ہو جب جماعت اسلامی کا کسی مسجد کے باہر احتجاج نہ ہو۔ یہ احتجاج پاکستان میں مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن کے خلاف تو کبھی مسلم امہ کے ساتھ یکہجتی کے لیے مظاہرے کیے جاتے۔ بعد میں ان میں کراچی کے پانی، ڈرینج اور ٹرانسپورٹ کے مسائل پر بھی کثرت سے آواز اٹھائی جاتی ہے۔

حافظ نعیم این ای ڈی سے انجینیئرنگ کی ڈگری لینے کے بعد پروفیشنل اور ذاتی زندگی میں داخل ہوئے۔ انھوں نے ایک واٹر ٹریٹمنٹ کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔ اس کے علاوہ جماعت سے ہی وابستہ ایک ڈاکٹر سے شادی کی لیکن سیاست سے دستبردار نہیں ہوئے۔

کراچی میں نعمت اللہ خان کے بعد حافظ نعیم الرحمان نے شہری مسائل پر پاپولر سیاست کی اور یہاں اپنی جگہ بنالی۔ وہ کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد کراچی میں جب شر پسند عناصر کے خلاف آپریشن ہوا تو شہر کھلا اور انھیں بھی سپیس اور مقبولیت مل گئی۔

کراچی میں جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات حافظ نعیم کے نام اور تصویر پر لڑا۔ ایم کیو ایم کی تقسیم سے قبل ایم کیو ایم یہ عمل الطاف حسین کے نام اور تصویر پر ووٹ مانگ کر کرتی تھی۔

نوجوانوں میں آئی ٹی پروگرامز، خیراتی ہسپتال، سکولوں کا قیام اور پانی کی فراہمی جیسے منصوبوں سے حافظ نعیم نے جماعت کے فلاحی ادارے الخدمت فاؤنڈیشن کے ساتھ اپنا ایک سافٹ امیج بنایا۔

اس کے دوران انھوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ یوٹیوب ہو یا فیس بک، ہر پلیٹ فارم پر حافظ نعیم نظر آ رہے تھے۔

تحریک انصاف کے بعد جماعت اسلامی دوسری جماعت تھی جس نے لوگوں تک رسائی کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ کچھ ماڈلز تو بعض چینلز کی اینکرز بھی ان کی حمایت میں ویڈیو جاری کرتی تھیں۔

حافظ نعیم الرحمان ٹی وی کے سنجیدہ پروگرامز کے ساتھ ساتھ مزاحیہ ٹی وی شوز میں بھی شریک ہوتے۔ ان کے انٹرویوز یوٹیوبر سے لے کر براڈکاسٹرز کو بھی آسانی سے دستیاب تھے۔

کراچی کے شہری مسائل اور سیاست جس پر ان میڈیمز پر صرف ایم کیو ایم کے رہنما نظر آتے تھے وہاں حافظ نعیم متبادل کے طور پر سامنے آنے لگے۔

حافظ نعیم کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی میں مسئلہ یہ تھا کہ ان میں کمیونیکیشن سکلز کی کمزوری تھی جو اب شاید انھوں نے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

Hafiz Naeem

کیا جماعت کی سوچ و فکر میں تبدیلی آئے گی؟

جماعت اسلامی کی ویب سائٹ کے مطابق قیام پاکستان سے قبل 26 اگست1941 کو جماعت اسلامی قیام پذیر ہوئی اور بعد میں یکم جون 1957 کو اس کا دستور نافذ العمل ہوا۔ اس جماعت کی شاخیں انڈیا، بنگلہ دیش اور کشمیر میں بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں گلبدین حکمت یار اس کے سربراہ تھے۔

حافظ نعیم الرحمان جماعت اسلامی کی فکر اور سوچ کی صف اول کی قیادت کو ہرا کر پارٹی کے امیر منتخب ہوئے ہیں۔ ان کا مقابلہ پارٹی کے موجودہ امیر سراج الحق اور لیاقت بلوچ کے ساتھ تھا۔ جماعت اسلامی کے ترجمان کے مطابق ملک بھر سے 46 ہزار اراکین نے اپنا ووٹ خفیہ بیلٹ کے ذریعے کاسٹ کیا۔

نائن الیون سے قبل جماعت اسلامی کشمیر جہاد اور افغانستان جہاد کی کھل کر حمایت کرتی تھی اور مدد فراہم کرتی رہی ہے۔ بعد میں امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی اتحادی افواج کے افغانستان پر حملے کے بعد بھی جماعت نے اپنی اخلاقی سپورٹ جاری رکھی۔ اس کے بعض ہمدرد و کارکن افغانستان میں ڈرون حملوں میں بھی ہلاک ہوئے۔

2013 میں قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی جب امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت ہوئی تھی تو جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر سید منور حسن نے انھیں شہید قرار دیا تھا جس پر پاکستانی فوج سمیت ملک کے مختلف طبقات کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا۔

منور حسن کا تعلق کراچی سے تھا۔ اس موقف کی وجہ سے انھیں جماعت کے نوجوانوں میں پذیرائی ملی تاہم بعد میں نرم مزاج والے سراج الحق امیر منتخب کیے گئے۔

لمز لاہور میں تاریخ کے پروفیسر علی عثمان قاسمی کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں جماعت اسلامی شروع سے اپنی سیاست کا تعین کرنے کی کوشش میں رہی ہے۔ ’مولانا مودودی کی موجودگی میں بھی جماعت کے پاس نظریہ تھا، وہ اپوزیشن کی ایک توانا آواز تھے مرکزی دہارے میں بھی شامل تھے۔‘

مگر جب 1970 میں انتخابات ہوئے تو جماعت کے نتائج مایوس کن تھے جس پر مولانا مودودی پارٹی کی قیادت سے دستبردار ہوگئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مودودی کی دستبرداری کے بعد جماعت اسلامی نے اپنا ایک کردار تو متعین کرایا لیکن بطور فوج کی بی ٹیم، خاص طور پر ضیا الحق کے دور میں۔‘

ان کے خیال میں بعد میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے جماعت کی جگہ لے لی۔ ’جماعت اسلامی کا پاکستان کی سیاست میں ایک کردار تھا مگر یہ بہت حد تک کم ہو گیا۔ وہ ایک علاقائی جماعت بن کر رہ گئے۔‘

علی عثمان کا کہنا ہے کہ قاضی حسین کی قیادت میں جماعت اسلامی نے ایک اور شکل اختیار کی اس کے بعد جو بحران پیدا ہوا جماعت اسلامی کو ایک اور چہرے کی تلاش تھی جو منور حسن کی شکل میں آیا۔ ’انھوں نے ایک جارحانہ رویہ دکھایا، جو بات پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو پسند نہیں آئی۔‘

اس کے بعد جماعت اسلامی بدلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر سراج الحق کی صورت میں ایک ماڈریٹ چہرہ لے کر آئی۔ وہ دس سال امیر رہے لیکن جیسے وہ پنجاب اور مرکزی سیاست سے آؤٹ ہوگئے تھے اس کے بعد ان کی قیادت میں کبھی واضح نہیں ہو پایا کہ ان کا سیاسی موقف کیا ہے۔

ان کے مطابق اس جدت کی پالیسی نے بھی جماعت اسلامی کو نقصان پہنچایا، نتیجے میں وہ خیبر پختونخوا سے ایک بھی نشست نہیں نکال سکے۔

Hafiz naeem

’جماعت اسلامی کا نیا چہرہ‘

علی عثمان قاسمی کا ماننا ہے کہ جماعت اسلامی کو ایک نئے چہرے کی تلاش تھی اور حافظ نعیم الرحمان بہت بہتر چوائس لگ رہے ہیں کیونکہ انھوں نے کراچی میں تنظیم کو منظم کیا ہے۔ اگرچہ تاریخی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جماعت ہمیشہ سے کراچی میں مضبوط پارٹی کے طور پر رہی ہے۔ خاص کر اب جب ایم کیو ایم کمزور ہوئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آج کل کی سیاست وائب یا رجحان پر چل رہی ہے۔ انھوں نے اچھا رجحان پیدا کیا ہے۔‘

تاہم عثمان قاسمی کی رائے سے صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی اختلاف کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سیاسی میدان میں جماعت اسلامی کا احیا خاصا مشکل کام ہے کیونکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ اب تحریک انصاف بھی ملکی سیاست پر چھا چکی ہے۔ ’مذہبی ووٹرز میں تحریک لبیک خاصا اثر و رسوخ حاصل کر چکی ہے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کے لیے اپنی جگہ بنانا مشکل ہوگا۔‘

پاکستان کے دونوں ساحلی بندرگاہوں والے شہروں کراچی اور گودار میں شہری مسائل کے بیانیے پر عوام میں جماعت اسلامی کو پذیرائی ملی لیکن کیا یہ حکمت عملی دیگر علاقوں میں بھی کارگر ثابت ہوگی؟

ماجد نظامی کہتے ہیں کہ گوادر کا ماڈل پورے پاکستان میں اپنانے میں کئی طرح کے مسائل ہیں۔ چونکہ جماعت اسلامی اپنے آپ کو ایک مذہبی و سیاسی جماعت گردانتی ہے، اس لیے انتخابی میدان میں انھیں بھرپور محنت کی اشد ضرورت ہے۔

گذشتہ الیکشن میں بھی ان کے انتخابی نتائج مایوس کن رہے۔ کراچی، گوادر اور خیبر پختونخوا کے کچھ اضلاع کے سوا انھیں قابل ذکر ووٹ نہیں مل سکے۔

ماجد کہتے ہیں کہ ’نئے سیاسی منظرنامے میں توجہ حاصل کرنے کے لیے نئے امیر کو کئی طرح کے چیلنجرز کا سامنا ہو گا۔

’جماعت اسلامی کے پس منظر کو دیکھیں تو حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی پاکستان کے پہلے ایسے امیر ہوں گے جس کی داڑھی عمومی مذہبی معیار سے خاصی کم ہے۔ لیکن اس کے باوجود ارکان نے انھیں فوقیت دی کیونکہ کراچی میں ان کی کارکردگی کو جماعت اسلامی سے باہر بھی سراہا گیا تھا۔‘

Share.

Leave A Reply