پاکستان میں رواں برس انتخابات کے بعد سے ملک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (ٹوئٹر) کو بندش کا سامنا ہے اور اب ملک کی حکومت کی جانب سے بھی اس کے بند ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔
’ایکس‘ کو رواں سال فروری کی 17 تاریخ کو بند کیا گیا تھا تاہم حکومت کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی جا رہی تھی۔
لیکن آخر کار حکومت کو عدالت کے سامنے ماننا پڑا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ان ہی کے احکامات پر بند کیا گیا تھا۔
گذشتہ مہینے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ایک سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ ’ایکس‘ پر پابندی وزارتِ داخلہ کے احکامات پر لگائی گئی تھی۔
’ایکس‘ پر پابندی کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی اُٹھایا گیا تھا جہاں گذشتہ روز وزارتِ داخلہ کے حکام نے دورانِ سماعت چیف جسٹس عامر فاروق کو بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو انٹیلیجنس ایجنسیوں کی رپورٹس پر بند کیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس جواب کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ کو 17 اپریل کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔
پاکستان کی حکومت ’ایکس‘ پر پابندی کے حوالے سے شدید تنقید کی زد میں ہے اور اب ان کی طرف سے اس پابندی کی باضابطہ تصدیق کر دی گئی۔
پاکستان وہ پہلا ملک نہیں جہاں ’ایکس‘ کو بند کیا گیا بلکہ اس فہرست میں روس، ایران، چین، میانمار، ترکمانستان اور شمالی کوریا جیسے وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں یا تو آمرانہ نظام نافذ ہے یا پھر ان پر جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
’ایکس‘ قومی سلامتی کے لیے خطرہ؟
بدھ کو پاکستان کے مقامی چینل ’جیو نیوز‘ پر وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا تھا کہ ’ایکس‘ پر پابندی نگراں حکومت کے دور میں لگائی گئی تھی تاہم وزیرِاعظم شہباز شریف کی حکومت نے اس پابندی کو برقرار رکھا۔
پاکستانی وزیر کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ ’ایکس‘ پر ملک دشمنوں سے فنڈنگ لے کر ’ریاست کے مفادات کے خلاف‘ استعمال کیا جاتا ہے اور معیشت کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پابندی میں سمجھتا ہوں کہ اصولی طور پر نہیں ہونی چاہیے لیکن جب ایسے بیانات آتے ہیں جو قومی سلامتی اور قومی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہیں، اس کے خلاف حفاظت کیسے کی جائے؟ ہمارے پاس کیا میکنیزم ہے کہ اس کو روکا جائے؟‘
انھوں نے تجویز دی کہ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین، صحافیوں اور یوٹیوبرز پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جو سوشل میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق مرتب کرے۔
’میں حامی ہوں کہ پابندی ہٹائی جائے لیکن پھر یہ شرائط ہوں کہ ہم آزادی اظہارِ رائے کا غلط استعمال کرتے ہوئے ملک کی سکیورٹی کو اور ملک کے مفاد کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔‘
’قومی سلامتی کو نہیں بلکہ حکومتی بیانیے کو خطرہ‘
ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’بولو بھی‘ سے منسلک فریحہ عزیز نے وزیرِ اطلاعات کے ریمارکس پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر واقعی ایکس قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے تو اسے حکومت کیوں استعمال کرتی ہے؟
انھوں نے کہا کہ ’اس سے قومی سلامتی کو نہیں بلکہ حکومت کے بیانیے کو خطرہ ہوسکتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر اسے چیلنج کیا جاتا ہے۔‘
فریحہ عزیز کہتی ہیں کہ حکومت کی جانب سے ضابطہ اخلاق وغیرہ جیسی باتیں کر کے اصل معاملے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کے مطابق ’عدالت میں یہ معاملہ ایکس کو غیرقانونی طور پر ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بلاک کرنے پر چل رہا ہے اور یہ اقدام بالکل غیرقانونی ہے۔‘
تاہم وہ مانتی ہیں کہ ماضی میں امریکہ میں انتخابات پر سوشل میڈیا کے ذریعے اثرانداز ہونے کی کوشش ہوِئی تھی اور وہ بھی یہی چاہتی ہیں کہ اس کا استعمال ذمہ داری کے ساتھ ہونا چاہیے۔
ان کے مطابق ضابطہ اخلاق یا اس پر پھیلنے والی ڈِس انفارمیشن یا مِس انفارمیشن پر پالیسی بحث تو ہوسکتی ہے لیکن سوشل میڈیا بشمول ایکس کے لیے پیمرا کی طرز پر ضابطہ اخلاق لاگو کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
’اگر ضابطہ اخلاق طے ہی کرنا ہے تو پہلے ساری سیاسی جماعتیں اپنے اوپر اس کا اطلاق کریں اور مثال قائم کریں کیونکہ ان کے اراکین اور حکومتی وزرا بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق پاکستان میں ’پریوینشن آف کرائمز ایکٹ‘ (پیکا) پہلے سے موجود ہے جس کے تحت حال ہی میں صحافی اسد طور کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی تھی۔
’مسئلہ قانون کے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومتیں ان قوانین کا استعمال ناقدین کی زبان بندی کے لیے کرتی ہیں۔‘
خیال رہے کہ ماضی میں پاکستان میں سیاسی کارکنان، صحافیوں، عام عوام اور انسانی حقوق کارکنان پر بھی پیکا کے تحت مقدمات قائم کیے جاتے رہے ہیں۔
کیا ’ایکس‘ پر پابندی کی وجہ پی ٹی آئی ہے؟
پاکستانی سیاست اور حکومتی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ ’ایکس‘ پر پابندی کا تعلق قومی سلامتی سے نہیں بلکہ ’پولیٹیکل مینجمینٹ‘ سے ہے۔
انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’بعض صورتحال میں، بعض جگہ پر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی سکیورٹی سے متعلق معاملات ہو سکتے ہیں لیکن سوشل میڈیا کے پورے پلیٹ فارم کو قومی سلامتی سے جوڑ کر اسے بند کر دینے کی کوئی منطق نہیں۔‘
ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ ’ایکس‘ پر پابندی کی سب سے بڑی وجہ سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) ہے۔
ان کے مطابق ’اس پابندی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی سیاسی طور پر متحرک ہونے اور بیانیہ بنانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اور اس میں ایکس پاکستان میں بہت اہم ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ عمومی خیال یہ تھا کہ ملک میں انتخابات کے بعد ملک میں پی ٹی آئی کا معاملہ نرم پڑ جائے گا لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔
’ابھی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کا تنازع بھی اپنی جگہ موجود ہے اور جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہو جاتا تب تک حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو قابو میں رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ استعمال کرتے رہیں گے۔‘
اس حوالے سے بی بی سی نے حکومتی موقف لینے کی کوشش کی تاہم ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تجزیہ کار ضیغم خان نے یہ بھی کہا کہ انھیں ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت کی جانب سے کسی ’فائر وال‘ کا انتظام کیا جائے تاکہ پورے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے بجائے منتخب اکاؤنٹس کو بلاک کیا جا سکے۔
واضح رہے کہ ’فائر وال‘ دراصل ایک سکیورٹی سسٹم ہوتا ہے جس کے ذریعے کسی بھی کمپیوٹر کے نیٹ ورک پر آنے اور جانے والے انٹرنیٹ ٹریفک کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔ اس کے ذریعے کسی بھی قسم کے ناپسندیدہ مواد یا اکاؤنٹس کو بھی بلاک کیا جا سکتا ہے۔