اسرائیلی فوج کے انخلا کے بعد فلسطینیوں کی خان یونس واپسی: ’تباہ شدہ گھر کے پاس جھونپڑی میں رہنا ہسپتال کے احاطے میں رہنے سے بہتر ہے‘

Pinterest LinkedIn Tumblr +

غزہ جنگ اپنے ساتویں ماہ میں داخل ہو رہی ہے۔ رفح میں آخری پناہ حاصل کرنے والے لاکھوں فلسطینی اس امید پر بیٹھے ہیں کہ وہ شمالی غزہ میں اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔

غزہ شہر کے 32 سالہ محمد المغرب اس وقت اپنے خاندان کے ساتھ رفح میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ اپنے کنبے کی بحفاظت واپسی کے لیے پرامید ہیں۔

انھوں نے مجھے اتوار کو بتایا کہ ’آج میری امید بحال ہوئی جب خان یونس سے آئے میرے پڑوسی اپنے گھر لوٹ گئے۔‘

’میرا گھر پوری طرح تباہ ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود میں روز اپنے آبائی علاقے لوٹنے کا خواب دیکھتا ہوں۔ میں اپنے گھر کے مقام پر خیمہ لگاؤں گا اور عزت سے وہاں زندگی بسر کروں گا، بجائے اس کے کہ ایک ہسپتال کے احاطے میں زندگی گزاروں۔‘

خان یونس سے اسرائیلی فوج کا انخلا ایک ایسے وقت میں ہوا جب ملک پر جنگ بندی کے لیے عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ ان کے سپاہی جنوبی غزہ کے سب سے بڑے شہر سے نکل چکے ہیں تاکہ مستقبل میں حماس کے خلاف آپریشنز کی تیاری کر سکیں۔

نجوہ ایش نے بی بی سی ریڈیو فور کو بتایا کہ جب وہ زمین بوس کیے گئے شہر میں داخل ہوئیں تو وہ سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ آیا ان کا گھر اپنی جگہ پر موجود ہے۔ ’تاہم شہر میں شاید ہی کوئی چیز بچی ہے۔‘

’اس تک پہنچنے کے لیے کوئی سیڑھیاں نہیں۔ میرا بھائی اوپر چڑھ کر گیا تاکہ میرے بچوں کے لیے کچھ کپڑے لا سکے۔‘

اسد ابو غلوہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اور ان کے پڑوسیوں کے گھر منہدم کر دیے گئے ہیں۔ ’ہم اپنا گھر دیکھنے واپس آئے۔ ہمیں کچھ نہیں ملا۔ مجھے صرف اپنی فیملی کے ساتھ ایک محفوظ جگہ کی تلاش تھی۔‘

اسرائیل غزہ

اسرائیل نے خان یونس سے فوجی واپس کیوں بلا لیے؟
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ جنوبی غزہ میں تعینات کیے جانے والے فوجیوں کی تعداد کم کر رہی ہے۔ علاقے میں اب صرف ایک بریگیڈ تعینات رہے گی۔

اتوار کو ایک بیان میں اس کا کہنا تھا کہ غزہ میں ایک ’واضح فورس‘ آپریٹ کرتی رہے گی۔

اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے عالمی دباؤ بڑھا ہے۔ تاہم فوجیوں کے انخلا کو جنگ بندی کے بجائے حکمت عملی کی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اس سے قبل آئی ڈی ایف کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل پیٹر لرنر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ خان یونس میں مشن مکمل ہو چکا ہے۔ یہ شہر کئی ماہ سے اسرائیلی بمباری کی زد میں رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ فورسز کی تعداد کم کی گئی ہے اور ابھی مزید آپریشنز کرنے کی ضرورت ہے۔

’ہمیں حماس کی صلاحیتیں ختم کرنی ہیں، چاہے وہ کہیں بھی ہو۔‘

غزہ اسرائیل جنگ

آج صبح ہمیں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی بات چیت کے حوالے سے متضاد اطلاعات موصول ہوئیں۔

مصری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ قاہرہ میں ٹھوس پیشرفت ہوئی ہے۔ تاہم اسرائیل میں ایسا تاثر نہیں ہے۔

نامعلوم اسرائیلی اہلکار نے نیوز ویب سائٹ وائے نیٹ کو بتایا کہ ’ہمیں تاحال کوئی ڈیل نظر نہیں آ رہی۔

’(دونوں اطراف سے) فاصلہ کافی طویل ہے اور اب تک کوئی ڈرامائی پیشرفت نہیں ہوئی۔‘

الجزیرہ ٹی وی نے اس سے قبل حماس ذرائع کے حوالے سے کہا تھا کہ اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی جبکہ اسرائیلی وفد نے ’حماس کے مطالبوں پر کوئی جواب نہیں دیا۔‘

اعداد و شمار گذشتہ چھ ماہ کی تباہی اور انسانی المیے کو ظاہر کرتے ہیں۔

حماس کے زیرِ انتظام فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں 33 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے اکثریت معصوم شہریوں کی ہے۔

وزارت کے پانچ اپریل کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 70 فیصد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق غزہ میں 13 ہزار 800 فلسطینی بچے ہلاک ہوئے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 12 ہزار سے زیادہ ہے۔ یونیسیف کے مطابق کم از کم ایک ہزار بچے ایک یا دونوں ٹانگوں سے محروم ہوگئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق 17 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔

خان یونس

امریکی دباؤ کے پیش نظر اسرائیل کی حکمت عملی تبدیل: جیرمی بوون کا تجزیہ
میرا خیال ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائی رکاوٹ کا شکار ہے اور اسے امریکہ کے ساتھ سیاسی مشکلات کا سامنا ہے۔ خاص کر گذشتہ ہفتے جب غزہ میں ورلڈ سینٹرل کچن کے امدادی کارکنان پر حملہ ہوا۔

اسرائیل رفح داخل ہونا چاہتا تھا جہاں 15 لاکھ کے قریب فلسطینی شہری موجود ہیں۔ وہ وہاں حماس کے خلاف کارروائی کرنا چاہتا ہے۔

لیکن امریکیوں نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل کے منصوبہ معصوم شہریوں کی حفاظت یقینی نہیں بنا سکے گا۔ اس لیے اسرائیل نے دستے واپس بلا لیے ہیں جبکہ یہ کہا گیا ہے کہ وہ رفح واپس جائیں گے۔

اسی دوران قاہرہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی بات چیت جاری ہے جس میں سی آئی اے اور مصری انٹیلیجنس کے سربراہان اور قطری وزیر اعظم ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ امریکہ معاہدے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔

اس بات چیت سے کئی لیکس اور افواہیں باہر آ رہی ہیں۔ اسرائیلی میڈیا میں چہ مگوئیاں ہیں کہ جنوبی غزہ سے انخلا حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ یا پھر یہ حماس کے اس مطالبے کی طرف چھوٹا سا قدم ہے جس میں اسرائیل سے غزہ چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔ لہٰذا اس سے مذاکرات میں مدد مل سکتی ہے۔

اسرائیل غزہ میں فضائی بمباری جاری رکھ سکتا ہے اور میرا نہیں خیال کہ اسرائیل غزہ سے مکمل انخلا کا ارادہ رکھتا ہے۔

اسرائیلی فورسز نے پہلے ہی غزہ کے دو حصے کر دیے ہیں۔ اس نے وسط میں بفر زون اور شمالی حصے میں اڈہ قائم کر لیا ہے۔ وہ فلسطینیوں کو واپس شمال کی طرف نہیں آنے دیں گے۔

غزہ سے انخلا کی بجائے اسرائیل ممکنہ طور پر وہاں سے وسیع فورسز واپس بلا لے گا تاکہ بڑے پیمانے پر اموات اور تباہی کو روکا جا سکے۔

شاید اس نے حکمت عملی بدل لی ہے اور امریکی دباؤ کی بدولت اب مغربی کنارے کی طرح غزہ میں بھی مخصوص کارروائیاں کی جائیں گی۔

Share.

Leave A Reply