’ہمیں تھانے میں برہنہ کر کے تشدد کیا گیا۔ ہماری تذلیل کی گئی جبکہ اس کے جواب میں آئی جی صاحب نے اپنے ویڈیو پیغام میں پولیس پر کیے گئے احسانات گنوائے۔ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس واقعے کے بعد اپنی پولیس فورس کے ساتھ کھڑے ہوتے۔‘
’مجھ سمیت کوئی بھی یہاں ڈیوٹی نہیں کرنا چاہتا۔ اتنی مار کھاتے دیکھ کر اور ذلت کے بعد تو عوام میں بھی پولیس کا خوف نہیں رہا ہو گا۔ ہماری قیادت نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے۔‘
یہ خیالات ان پولیس اہلکاروں میں سے ایک کے ہیں جنھیں ضلع بہاولنگر کے ’تھانہ ڈویژن اے‘ میں پاکستانی فوج کے اہلکاروں کی طرف سے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
پنجاب کے شہر بہاولنگر میں ایک تھانے پر فوجیوں کے دھاوا بولنے اور وہاں پولیس اہلکاروں پر تشدد کے واقعے کو گزرے ایک ہفتہ ہونے کو ہے لیکن اس کی گونج ابھی تک پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر سنائی دے رہی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے پنجاب پولیس کے کئی جوانوں اور افسران نے بات کی ہے جن کے مطابق بہاولنگر واقعے نے پولیس فورس کے مورال (جذبہ) کو کافی متاثر کیا ہے۔
یاد رہے کہ عید کے روز سوشل میڈیا پر متعدد ایسی ویڈیوز شیئر کی گئیں جن میں باوردی فوجی اہلکاروں کی جانب سے پنجاب کے ضلع بہاولنگر کے ایک تھانے میں پولیس اہلکاروں کو مبینہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس واقعے کے دو روز بعد پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)، پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کی جانب سے اس واقعے کی ’شفاف اور مشترکہ تحقیقات‘ کا عندیہ دیا تاکہ اصل حقائق کو منظرِ عام پر لایا جا سکے اور قانون کی خلاف ورزی اور اختیارات کے غلط استعمال کرنے والے ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے۔ اور اس کام کے لیے جے آئی ٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔
اس معاملے پر وزیر داخلہ محسن نقوی نے گذشتہ روز لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہا ’یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ اس معاملے کو اچھال رہے ہیں۔‘ پولیس کے مورال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ایک واقعے سے مورال ڈاؤن نہیں ہوتا اور پولیس کے حوصلے بلند ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ انڈیا میں بالکل اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا تھا مگر وہاں ردعمل ایسا نہیں تھا جیسا یہاں دیکھا گیا۔
پولیس کے مورال میں کمی اور پولیس اہلکاروں کے دیگر خدشات کے حوالے سے جب بی بی سی نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سے رابطہ کیا تو انھوں نے اپنے مختصر جواب میں کہا کہ ’جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے تاہم میں دیگر سوالات اور باتوں پر کوئی رائے نہیں دینا چاہتا ہوں۔‘
’کس کی جرات فوج کو قصوروار کہے چاہے پھر وہ آئی جی ہی کیوں نہ ہو‘
صلح صفائی، وضاحتی بیانات، جے آئی ٹی کی تشکیل کے باوجود بھی ابھی تک اس معاملے پر بہت سے لوگ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ جن میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ پولیس افسران اور جوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ جبکہ کئی پولیس اہلکاروں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بہاولنگر پولیس احتجاجاً ڈیوٹی کرنے کو تیار نہیں تھی۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ایک پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’بہاولنگر واقعے نے پولیس کو کمزور کیا ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ نقصان پولیس کو آئی جی صاحب کے ویڈیو میسچ سے ہوا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ فوج کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا اچھا لگتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ ملک کے دیگر اداروں کا احترام نہ کریں۔ قانون تو سب کے لیے ہی برابر ہے۔‘
انھوں نے مزيد کہا کہ ’میں جس عہدے پر موجود ہوں مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ میں کیسے اپنے جونیئرز کو جوش و جذبے سے کام کرنے کا کہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس واقعے کے بعد پولیس میں بے چینی، غصہ اور بے یقینی کی کیفیت پائی جا رہی ہے جسے اعلیٰ سطح پر نظر انداز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
ایک اور افسر نے پولیس کے مورال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سب اچھا ہے۔ ہم بھائی بھائی ہیں‘ کا راگ سنانے سے سب ٹھیک نہیں ہو جائے گا۔ نعرے تو لگوا دیے تھے لیکن آئی جی صاحب کو چاہیے تھا کہ اپنی فورس کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہوتے، اگر وہ ایسا فیصلہ کرتے تو ساری پولیس فورس ان کے پیچھے کھڑی ہوتی۔‘
اسی بارے میں بات کرتے ہوئے ایک ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ہماری کیا حیثیت ہے۔ پچھلے ایک سال سے یہی فوج اور پولیس نو مئی کے بعد مل کر کام کر رہے تھے۔ جب پولیس کی ضرورت کم ہو گئی تو فوج نے کہا کہ ہمیں یاد دہانی کروا دیں کہ اس ملک میں ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ’جو جے آئی ٹی بنائی گئی ہے اس کے آخر میں قصوروار پولیس ہی نکلے گی۔ کس کی جرات ہے کہ کوئی فوج کو قصوروار کہے، چاہے پھر وہ ہمارے آئی جی ہی کیوں نہ ہوں۔‘
نام نہ ظاہر کی شرط پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر عثمان نے پولیس فورس کے لیے بہت کام کیے ہیں۔ اس لیے ان سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ ایسے معاملے پر جھک جائیں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے گذشتہ دو سالوں میں دیکھا ہے کہ پولیس فورس کے مورال میں بہتری آئی تھی اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ پولیس کی لیڈرشپ فورس کے ساتھ کھڑی تھی۔ فورس کو جو جو کمانڈ دی گئی انھوں نے وہ پورا کرکے دکھایا۔ اس کے بعد بھی آئی جی کا اپنی فورس کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے انھیں ہی قصوروار کہنا سب کے لیے مایوس کن ہے۔‘
’ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن میں سے چند سامنے آتے ہیں‘
بہاولنگر کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی اس سے ملتے جلتے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ جیسا کہ 2020 میں رینجرز کی جانب سے آئی جی سندھ کو مبینہ طور پر ’اغوا‘ کرنے اور پولیس پر مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کرنے کا دباؤ ڈالنے کا الزام سامنے آیا تھا۔
اس واقعے کے بعد آئی جی سمیت پولیس کے دیگر افسران نے دس دن چھٹی پر جانے کی درخواست دے دی تھی۔
پولیس کے عمل، سیاسی اور عوامی دباؤ کے بعد اس کے وقت کے فوج کے سربراہ جنرل باجوہ نے اس معاملے میں ملوث رینجرز کے افسران کی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے انھیں اس وقت تک عہدے سے ہٹا دیا تھا جب تک انکوائری مکمل نہیں ہوتی۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے سابق آئی جی احسان غنی کا کہنا تھا کہ ’ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جن میں سے چند سامنے آ جاتے ہیں۔ جب میں آئی جی تھا تو مجھے یاد ہے کہ ایسی نوعیت کا ایک واقعہ ہمارے اے ایس آئی اور فوج کے درمیان پیش آیا تھا اور میں اے ایس آئی کے لیے کھڑا ہو گیا تھا۔ مجھ پر پریشر آیا تھا لیکن میں نے پھر بھی فوج کی بات نہ مانتے ہوئے قانون کے مطابق ایف آئی آر درج کی تھی۔‘
کیا ایسے واقعات سے پولیس فورس پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
سابق آئی جی کے پی احسان غنی نے اس معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ سچ ہے کہ پولیس فورس کا مورال ایسے واقعات سے نیچے جاتا ہے۔ میں مختلف رینک کے پولیس افسران کو اکیڈمی میں لیکچر دیتا ہوں اور اس واقعے کے بعد ان کی جانب سے بھی ایسے سوالات اور خدشات کا اظہار کیا جا رہا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کو کتنا فرق پڑا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جب ایسے واقعات ہوتے ہیں تو اس سے فورس کی خود اعتمادی کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ عوام بھی پولیس کو سنجیدگی سے نہیں دیکھتی۔ جس سے قانون پر عمل درآمد کروانے میں مسائل آتے ہیں۔‘
’خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی بھی ادارہ یا فورس اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر کوئی کام کرتی ہے۔ جیسا کہ بہاولنگر واقعے میں ہوا، دیکھا جائے تو اس واقعے میں اگر پولیس کی غلطی نکالی جا رہی ہے تو اسی طرح جو فوج نے کیا وہ بھی قانونی طور پر غلط تھا۔‘
انھوں نے مزيد کہا کہ ’کہنے کو تو اس معاملے پر جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں جے آئی ٹی اس وقت بنائی جاتی ہے جب کسی معاملے کو دبانا ہو۔‘