’میری آنکھ باہر نکل کر میرے چہرے پر لٹکی ہوئی تھی، میں سوچ رہا تھا کہ میں مر رہا ہوں‘: سلمان رشدی

Pinterest LinkedIn Tumblr +

برطانوی مصنف سلمان رشدی نے اپنے اُوپر ہوئے قاتلانہ حملے کے دو سال بعد بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں اس حملے سے متعلق ڈرا دینے والی تفصیلات شیئر کی ہیں۔ یاد رہے کہ اگست 2022 میں سلمان رشدی پر امریکی ریاست نیویارک میں ایک تقریب کے دوران چاقو سے حملہ کیا گیا جس میں اُن کی گردن اور پیٹ پر وار کیے گئے تھے۔

سلمان رشدی بتاتے ہیں کہ (اس حملے کے نتیجے میں) اُن کی آنکھ باہر نکل آئی اور یہ اُن کے چہرے پر کسی ’اُبلے ہوئے نرم انڈے‘ کی مانند لٹکی ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ آنکھ کھو دینے کی بات انھیں ’ہر روز پریشان کر دیتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مجھے یاد ہے کہ میں (حملے کے بعد) سوچ رہا تھا کہ میں مر رہا ہوں۔ خوش قسمتی سے میں غلط تھا۔‘

سلمان رشدی نے بتایا کہ اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس کا مقابلہ اپنی نئی کتاب ’نائف‘ (چاقو) کے ذریعے کر رہے ہیں۔

سلمان رشدی پر یہ حملہ اگست 2022 میں ریاست نیویارک کے ایک تعلیمی ادارے میں اُس وقت ہوا تھا جب وہ سٹیج پر موجود تھے اور سامعین کو ایک لیکچر دینے کی تیاری کر رہے تھے۔

انھوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح حملہ آور ’سیڑھیاں چڑھتے ہوئے‘ سٹیج پر آیا اور 27 سیکنڈ تک جاری رہنے والے حملے کے دوران اُس نے کس طرح اُن کی گردن اور پیٹ پر چاقو سے 12وار کیے۔

’میں اُس (حملہ آور) سے لڑ نہیں سکتا تھا۔ میں اُس سے بھاگ نہیں سکتا تھا۔‘

سلمان رشدی بتاتے ہیں کہ حملے کے بعد وہ سٹیج پر گِر گئے، جہاں اُن کے چاروں اطراف اُن کا اپنا خون بڑی مقدار میں بکھرا ہوا پڑا تھا۔

انھیں فی الفور ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہسپتال لے جایا گیا جہاں انھیں صحت یاب ہونے میں لگ بھگ ڈیڑھ ماہ لگا۔

76 سالہ انڈین نژاد برطانوی-امریکی مصنف سلمان رشدی کو جدید دور کے بااثر مصنفین میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان پر حملے کی خبر دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں رہی۔

سنہ 1988 میں اُن کی متنازع کتاب ’دی سیٹینک ورسز‘ شائع ہونے کے بعد انھیں بڑے پیمانے پر جان کی دھمکیاں ملیں جس کے باعث انھوں نے کئی سال روپوشی میں گزارے۔

بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ ماضی میں یہ سوچتے رہے تھے کہ ایک روز اُن کے سامنے موجود ’سامعین میں کوئی شخص چھلانگ لگا کر سامنے آ سکتا ہے۔‘ (یعنی سامعین میں کوئی ان پر حملہ آور ہو سکتا ہے)۔

’یہ مضحکہ خیز ہے کہ یہ بات (یعنی مجھ پر حملہ ہو گا) میرے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو پائی۔‘

انھوں نے کہا کہ نیویارک میں ہونے والے پروگرام سے دو دن پہلے حملے سے متعلق انھوں نے ’ڈراؤنا خواب‘ دیکھا تھا اور اس خواب کے باعث میں وہ اُس تقریب میں نہیں جانا چاہتے تھے۔

’پھر میں نے سوچا کہ یہ محض ایک خواب ہی ہے۔ اس کے علاوہ تقریب کے منتظمین مجھے شرکت کے لیے اچھے پیسے دے رہے تھے اور لوگ اس تقریب میں شرکت کے لیے ٹکٹ خرید چکے تھے۔ چنانچہ مجھے جانا چاہیے۔‘

’ہر روز کی پریشانی‘
چاقو کے اس حملے میں سلمان رشدی کے جگر اور ہاتھوں کو نقصان پہنچا اور اُن کی دائیں آنکھ کے رگیں کٹ گئیں۔

وہ کہتے ہیں کہ حملے کے بعد اُن کی آنکھ ’بہت سوجی ہوئی‘ لگ رہی تھی۔ ’یہ (آنکھ) میرے چہرے سے باہر لٹکی ہوئی تھی، یہ میرے گال کے اوپر اٹکی ہوئی تھی، اُبلے ہوئے نرم انڈے کی طرح۔‘

سلمان رُشدی کہتے ہیں کہ ایک آنکھ کو کھو دینا ’مجھے ہر روز پریشان کرتا ہے‘۔ وہ کہتے ہیں کہ روزمرہ کے کام جیسا کہ سیڑھیاں اُترتے چڑھتے، سٹرک کو عبور کرتے اور یہاں تک کہ جگ سے گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے انھیں خیال رکھنا پڑتا ہے۔ (یعنی قوتِ بینائی میں نقص کے باعث انھیں یہ عام سے کام کرتے ہوئے تھوڑی مشکل پیش آتی ہے۔)

لیکن وہ خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ اس حملے کے باعث ان کے دماغ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

اُس تقریب کے منتظم، جہاں سلمان رشدی پر حملہ ہوا، نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سوچتے ہیں کہ وہ اس حملے کو روکنے کے لیے مزید کیا کچھ کر سکتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم نے تیز اور فی الفور ردعمل دیا ہوتا تو بہت کچھ ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔‘

تاہم ان کی نئی کتاب ’نائف‘ (چاقو) کا پہلا صفحہ پڑھتے ہی واضح ہو جاتا کہ سلمان رشدی اُس تقریب کے منتظمین اور ڈاکٹروں سمیت اُن تمام لوگوں کے شکرگزار ہیں جنھوں نے اس روز اُن کی کسی بھی طرح مدد کی تھی۔

سرورق پر لکھا ہے کہ یہ کتاب اُن لوگوں کے نام ہے ’جنھوں نے میری زندگی بچائی۔‘

تصویر

’کیا یہ مارنے کی کوئی وجہ ہے؟‘
حملے کے دو سال بعد پہلی مرتبہ سلمان رشدی نے انکشاف کیا ہے کہ وہ ان پر حملہ کرنے والے مبینہ حملہ آور سے کیا کہنا چاہیں گے۔

یاد رہے کہ امریکی ریاست نیو جرسی کے 26 سالہ رہائشی ہادی ماتر پر اس حملے کا الزام ہے۔ ہادی نے صحتِ جرم سے انکار کیا ہے اور فی الحال وہ قید میں ہیں۔

جیل سے نیویارک پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے سلمان رشدی پر حملے کے ملزم ہادی ماتر نے کہا ہے کہ انھوں نے یوٹیوب پر سلمان رشدی کی ویڈیوز دیکھی تھیں۔ ’میں ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اس طرح کے نادان ہیں۔‘

اپنی نئی کتاب ’نائف‘ میں سلمان رشدی نے اپنے حملہ آور کے ساتھ ایک خیالی گفتگو کی ہے۔

وہ سوال پوچھتے ہیں کہ ’امریکہ میں بہت سے لوگ ایماندار ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں، مگر وہ جھوٹ بولتے ہیں اور ماسک پہنتے ہیں۔ کیا یہ ان تمام لوگوں کو مارنے کی دلیل ہو سکتا ہے؟

امکان ہے کہ جب اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع ہو گی تو مبینہ حملہ آور عدالت میں سلمان رشدی کے روبرو ہوں گے۔

مقدمے کی سماعت میں اُس وقت تاخیر ہوئی جب مدعا علیہ کے وکلا نے عدالت میں دلیل دی کہ وہ سلمان رشدی کی نئی کتاب کا ثبوت اکھٹا کرنے کی غرض سے جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ اب اس مقدمے کی سماعت آئندہ موسم خزاں میں ہونے کی توقع ہے۔

’دی سٹینک ورسز‘ اتنی متنازع کیوں تھی؟

تصویر

سلمان رشدی نے سنہ 1981 میں اپنے ناول ’مڈ نائٹ چلڈرن‘ سے شہرت حاصل کی۔ اس ناول کی صرف برطانیہ میں دس لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔

لیکن اُن کی چوتھی کتاب ’دی سٹینک ورسز‘ (شیطانی آیات) میں مذہب اسلام پر شدید تنقید کی گئی تھی اور اس میں درج تفصیلات کو گستاخانہ تصور کرتے ہوئے پاکستان سمیت بہت سے مسلم اکثریتی ممالک میں اس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

ایران کے اُس وقت کے رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی نے سنہ 1989 میں سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا اور ان کے سر پر 30 لاکھ ڈالر کا اعلان کیا۔ یہ فتویٰ کبھی منسوخ نہیں ہوا۔ اس متنازع کتاب کے باعث مسلم دنیا میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔

نتیجتاِ ابتدا میں تقریباً ایک دہائی تک سلمان رشدی کو روپوش رہنا پڑا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے باعث وہ مسلح محافظ کے پہرے میں رہتے رہے۔

سلمان رشدی غیر عملی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور وہ ایک ملحد ہیں۔ وہ طویل عرصے سے آزادی اظہار کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔

لیکن انھوں نے متنبہ کیا کہ یہ آواز اٹھانا پہلے سے ’زیادہ مشکل‘ ہو گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں نے، جن میں بہت سے نوجوان شامل ہیں، یہ رائے قائم کر لی کہ کہ آزادی اظہار پر پابندیاں اکثر ایک اچھا خیال ہوتا ہے۔‘

’جبکہ بلاشبہ آزادیِ اظہار کا پورا نکتہ یہ ہے کہ آپ کو اس اظہار کی اجازت دینی ہو گی جس سے آپ متفق نہ ہوں۔‘

سلمان رشدی یاد کرتے ہیں کہ کیسے جب وہ حملے کے بعد سٹیج پر خون میں لت پت پڑے تھے تو ان کو اپنے ذہن میں ذاتی سامان کے بارے میں ’احمقانہ سوچ‘ آ رہی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ اُس وقت انھیں یہ سوچ پریشان کیے ہوئے تھی کہ ان کا ’ریلف لورین‘ کا سوٹ خراب ہو رہا تھا اور یہ کہ اس دوران ان کی جیب میں موجود ان کے گھر کی چابیاں اور کریڈٹ کارڈ کہیں نکل کر سٹیج پر گِر نہ پڑیں۔

’یقیناً، یہ مضحکہ خیز ہے۔ لیکن حقیقت میں کہیں یہ سوچ ضرور تھی کہ میں مرنا نہیں چاہتا۔ مجھ میں موجود انسان یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے گھر کی چابیاں درکار ہیں اور یہ کہ مجھے ان کریڈٹ کارڈز کی ضرورت ہو گی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اُن میں موجود ’زندہ رہنے کی جبلت‘ انھیں کہہ رہی تھی کہ ’تم جیو گے۔ جیو۔ جیو۔‘

اس حملے سے ایک سال قبل سلمان رشدی نے ایک امریکی شاعرہ اور ناول نگار ریچل ایلیزا سے شادی کی تھی۔ یہ ان کی پانچویں شادی تھی۔

ریچل ایلیزا نے بی بی سی کو بتایا کہ جب انھوں نے اپنے شوہر پر حملے کے بارے میں سُنا تو انھوں نے ’چیخنا شروع کر دیا۔ یہ میری زندگی کا بدترین دن تھا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ جب ڈاکٹر سلمان رشدی کی آنکھ پر ٹانکے لگا رہے تھے تو ان کے سرہانے موجود تھیں۔

’مجھے اُن کی آنکھیں بہت پسند ہیں۔ اس روز جب وہ نکلے تھے تو ان کی دونوں آنکھیں صحیح سلامت تھیں مگر پھر ہماری دنیا بدل گئی۔‘

تصویر

شاعرہ اور ناول نگار ریچل ایلیزا سلمان رشدی کی پانچویں اہلیہ ہیں
اپنی کتاب ’نائف‘ کے بارے میں سلمان رشدی کہتے ہیں کہ یہ خوف کی کہانی کے ساتھ ساتھ ایک لوو سٹوری بھی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہاں دو متصادم قوتیں موجود ہیں۔ ایک تشدد، جنون، تعصب اور دوسری محبت کی قوت۔ اور محبت کی یہ قوت میری بیوی ایلیزا کی پیکر میں مجسم ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آخر میں جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ محبت کی قوت نفرت کی قوتوں سے زیادہ مضبوط ثابت ہوئی۔‘

سلمان رشدی نے کہا کہ وہ دوبارہ عوامی تقریبات میں جائیں گے لیکن مستقبل میں وہ ’زیادہ محتاط‘ رہیں گے۔ ’(ایسی تقریبات میں) آئندہ سکیورٹی کا سوال پہلا سوال ہو گا، اور جب تک میں اس سے مطمئن نہیں ہوں گا، میں نہیں جاؤں گا۔‘

انھوں نے مزید کہا وہ ’ایک ضدی شخص (جو آسانی سے رائے کو نہیں بدلتا) ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں محدود یا پابندیوں والی زندگی نہیں چاہتا۔ میں اپنی زندگی (پہلے کی طرح) گزاروں گا۔‘

Share.

Leave A Reply