پاکستانی مردوں کا خواتین کو گھورنے کا مسئلہ: ’لڑکوں کو بچپن سے یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ یہ رویہ غلط ہے‘

Pinterest LinkedIn Tumblr +

آپ اپنے ارد گرد کتنی خواتین کو ذاتی حیثیت میں یا کسی بھی واسطے سے جانتے ہیں؟ یقیناً اُن کی تعداد درجنوں میں تو ہو گی۔

ان میں سے چند ایک ضرور ایسی ہوں گی جن سے آپ کا فوری رابطہ ممکن ہو گا۔ ممکن ہے آپ کے ساتھ ہی بیٹھی ہوں۔ آج اُن سے ایک ایک کر کے پوچھیے کہ پاکستان میں عوامی مقامات پر مردوں کا رویہ اُن کے ساتھ کیسا ہوتا ہے۔ اور کیا انھیں بلاوجہ گھورا جاتا ہے؟

اور پھر جواب سُنتے جائیے۔ شاید ہی کوئی خاتون ہو جو کہے کہ اسے اس مسئلے کا سامنا نہیں ہے۔

ان خواتین میں عمر، قد کاٹھ، لباس، حلیہ اور معاشی حیثیت سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان میں کسی ایک معاملہ میں برابری ہے تو وہ یہی ہے کہ عورت کو کسی بھی حال میں، کسی بھی روپ میں، بلا امتیاز گھورا جائے۔

اب کہا جائے گا ’ناٹ آل مین‘۔ جی ہاں، تمام مرد ایسا نہیں کرتے ہوں گے۔ لیکن تمام عورتیں اسے برداشت ضرور کرتی ہیں۔ سو ’یس آل ویمن‘۔

مردوں کا گھورنے کا یہ رویہ پرانا ہے، اور یہ بحث بھی کافی پرانی ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی ابصا کومل نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ اُن کے مشاہدے کے مطابق اسلام آباد میں ایسے مردوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو بلاوجہ خواتین کو گھورتے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ عوامی مقامات پر مفاد عامہ میں یہ جملہ لکھوا دیا جائے کہ ’بلاوجہ دوسروں کو گھورتے ہوئے آپ بندر لگتے ہیں۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں

ابصا کے تجربے پر مبنی اس رائے کے جواب میں بہت سے بولے کہ ہو نہ ہو قصور خاتون کا ہو گا یا پھر اس کے لباس کا ہو گا۔

بہت سے مرد و خواتین نے البتہ اُن کی تائید کی اور یہ بھی کہا کہ اسلام آباد ہی نہیں، چھوٹے بڑے ہر شہر میں ہی گھورنے کا یہ مسئلہ بڑھ رہا ہے۔

چند نے یاد کروایا کہ خواتین کو ہراساں کرنے میں ’گھورنا‘ کمزور ترین درجہ ہے۔ آوازیں کسنا، پیچھا کرنا، نازیبا اور زو معنی جملے کہنا اور چھونا اس سے بڑھ کر ہیں۔ گھورنے پر وہی اکتفا کرتے ہیں جنھیں اس سے بڑھ کر کچھ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔

اس بحث میں بہت سے صارفین نے ان سیاسی لیڈرز کا بھی ذکرکیا جو ماضی میں خواتین کے لباس کو ہراساں کیے جانے کی وجہ بتاتے رہے ہیں۔ اور ان کے بیانات نے خواتین کو مزید غیر محفوظ کیا ہے جبکہ مردوں کو شہہ دی ہے۔

’ایسا نہیں کہ انھیں کچھ کہنا ہے یا ہم سے کوئی کام ہے، بس وہ ایسا کرتے ہیں‘

تصویر

بی بی سی اُردو کے لیے جن خواتین سے بھی اس موضوع پر بات کے لیے رابطہ کیا گیا، انھوں نے یک زبان ہو کر یہی شکایت کی کہ مردوں کا انھیں گھورنا ایسا مسئلہ ہے جس کے ساتھ ہی وہ بڑی ہوئی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ وہ اس سے تنگ نہیں ہوتیں بلکہ ان کے مطابق انھوں نے سیکھ لیا ہے کہ انھیں اس کے ساتھ ہی جینا ہے۔ جب بھی گھر سے نکلنا ہے اس رویے کو سہنے کے لیے تیار رہنا ہے۔ وہ لباس اور حلیہ بدل بھی لیں، وہ اپنے آنے جانے کے روٹ اور اوقات تبدیل کر لیں، وہ اپنی کمپنی تبدیل کر لیں، کچھ بھی کر لیں وہ مردوں کی نگاہوں کا رُخ نہیں بدل سکتیں۔

مشا محمود ایک نوجوان فری لانسر اور بلاگر ہیں اور اُن کا تعلق لاہور سے ہے۔ اس سے پہلے وہ ایک دفتر میں کام کرتی تھیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مردوں کا گھورنا پبلک مقامات کے علاوہ بند عمارتوں میں، یعنی کام کی جگہوں پر بھی، اسی طرح ہے اور اگر گھورنے والا دفتر میں کسی طرح کا رسوخ رکھتا ہے تو اس کی شکایت کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔

’اب تو یہ ہمارے لیے نارمل ہو گیا ہے۔ ہمارے گھر سے دو گھر چھوڑ کر ایک شخص ہیں جو مجھے اور میرے گھر کی دوسری خواتین کو گھورتے رہتے ہیں۔ گھر سے نکلتے، گاڑی نکالتے، ایسا نہیں ہے کہ انھیں ہم سے کچھ کہنا ہے یا انھیں ہم سے کوئی کام ہے۔ بس وہ ایسا کرتے ہیں۔ میرے ساتھ تو ہسپتال میں بھی یہی ہوا کہ ایک شخص گھورے جا رہا تھا۔‘

کیا مرد یہ جانتے بھی ہیں کہ گھورنا کسی کے لیے تکیف دہ ہوتا ہے؟

کیا انھیں خود اس رویے کی سنگینی کا احساس ہے؟

کیا انھیں کبھی کسی نے یہ سمجھایا کہ ایسا کرنا اخلاقاً بُرا کیوں ہے؟

شاید یہ وہی سوال اور جواب ہیں جو یا تو نصاب اور تربیت کا حصہ ہوتے ہیں یا پھر قانون کی کتابوں میں ان کے لیے سزا درج ہو تو ان کی پرواہ کی جاتی ہے۔

کسی کے گھورنے پر کیسا محسوس ہوتا ہے؟
کسی کے گھورنے پر کیسا محسوس ہوتا ہے؟ یہ سوال جب ہم نے مشا محمود کے سامنے رکھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’بہت غیر محفوظ محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ نے کچھ غلط کر دیا ہے۔ یا ڈر لگتا ہے کہ وہ بندہ آپ کو اتنی بری نظروں سے دیکھ رہا ہے تو آگے بڑھ کر آپ کو کچھ نقصان پہنچائے گا۔ آپ کا سب اعتماد ختم ہو رہا ہوتا ہے۔‘

اگر آپ مرد ہیں اور گھورنے کی عادت دانستہ یا نادانستہ طور پر پال رکھی ہے تو شاید یہ جواب آپ کا رویہ بدلنے میں مدد دے۔

تو چلیے اس حوالے سے کسی مرد سے بھی بات کر لیتے ہیں۔

جوشوا دانش عطااللہ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ یقیناً ایک مسئلہ ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں ایک عورت کسی مرد کے گھورنے کے جواب میں کیا کرے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں اپنی ذاتی حیثیت میں عورت کچھ نہیں کر سکتی، سوائے اس کے کہ اسے نظر انداز کر دے۔ لیکن مردوں کو کم عمری سے یہ سکھانا اور بتانا ضروری ہے کہ یہ رویہ کیوں غلط ہے۔‘

مشا محمود کا بھی یہی کہنا ہے کہ پاکستان کے جو حالات ہیں ان میں اپنی جان کی فکر پڑی ہوتی ہے کہ ردعمل دینے پر کوئی بڑا نقصان نہ کر دے۔

’پہلے میں گھورنے یا تنگ کرنے والے شخص پر چلا دیتی تھی کہ یہ کیا کر رہے ہو۔ لیکن اب میں نے پاکستان میں ہجوم کے ردعمل کے خوفناک واقعات دیکھتے ہوئے خود سوچ لیا ہے کہ بس نظر انداز کر دینا ہے، ایسے شخص سے نہیں الجھنا۔‘

مردوں کی اکثریت سے انٹرویوز میں بات کریں تو وہ خواتین سے اس معاملے میں ہمدردی رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور مردوں کے ناروا رویے کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا کا ’ہجوم‘ کی بورڈ کے پیچھے سے وہی بولی بولتا ہے جس کے مطابق مسئلہ مرد میں نہیں عورت کے لباس اور اس کے گھر سے نکلنے یا اکیلے نکلنے میں ہے۔ یا مغرب کے کلچر کے اثرات کے تحت ایسا ہو رہا ہے۔ یا یہ کہ عورتوں کی ’ناجائز آزادی‘ اور ’بے راہ روی‘ اس کی وجہ ہے۔

تصویر

’سر سے پاؤں تک، جہاں تک وہ گھور سکیں، مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں‘
او اب مغرب کی بات بھی کر لیتے ہیں۔

ایسی پاکستانی خواتین جو ملک سے باہر سفر کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان سے باہر جا کر ان کے لیے سب سے بڑا ’کلچرل شاک‘ یہی ہے کہ وہ سڑک پر، گلی میں یا پبلک بس میں بلا خوف جا سکتی ہیں۔ انھیں اس بات کا ڈر نہیں ہوتا کہ کوئی انھیں بلا وجہ گھورے گا یا چھونے کی کوشش کرے گا۔

جویریہ وسیم ایک نوجوان فلم میکر ہیں۔ فرانس میں فلم کی تعلیم کے دوران انھیں یہی تجربہ رہا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھیں احساس ہوتا ہے کہ کیسے پاکستان میں ان کے مرد کولیگز اور ساتھی اس خوف سے خالی زندگی گزارتے ہیں۔ جبکہ خاتون ہوتے ہوئے انھیں مسلسل ایک ڈرکے ساتھ رہنا پڑتا ہے، ہر وقت اپنی حفاظت کے لیے فکر مند رہنا پڑتا ہے۔

’میں گھر کے باہر ہی واک کر رہی ہوں تو مرد کھڑے ہو کر گھورنے لگتے ہیں۔ سر سے پاؤں تک، جہاں تک وہ گھور سکیں۔ مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو جتنا کور کر لیں۔ چادر بھی لے لیں۔ گھر سے نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ٹیکسی ایپس استعمال کرنا بھی اتنا ہی غیر محفوظ ہو گیا ہے۔‘

گھورنے والے مردوں کے خلاف قانون خواتین کو کیا تحفظ دیتا ہے؟

تصویر

تعزیرات پاکستان کے سیکشن 509 میں کسی حد تک مردوں کے لیے سزا اور جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔ اگر وہ عوامی مقام پر زبانی یا عملاً ایسے پیغام یا حرکت کے مرتکب ہوں جو خاتون کے لیے تنگی اور تکلیف کا باعث ہو۔

لیکن عملاً یہ قانون یا ہراسمنٹ کا کوئی بھی قانون گھورنے کے خلاف کوئی تحفظ نہیں دے سکتا۔

خاتون وکیل فاطمہ بٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سیکشن میں گھورنے کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ ایسا کوئی عمل یا اشارہ ہے جس سے خاتون محسوس کرے کہ اس کی عزت کم کی گئی ہے یا وہ بے چینی محسوس کرتی ہے تو ان کے پاس یہ حق ہے کہ وہ شکایت کرے۔

’لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آج تک اس قانون کی تشریح نہیں ہو سکی کہ کس حد تک کوئی بات یا حرکت قابل تعزیر ہو گی یا گھورنا اس میں شامل ہے یا نہیں۔‘

اور اس معاملے میں کوئی فیصلے بھی بطور مثال موجود نہیں ہیں۔ کیونکہ گھورنے والی ہراسانی کو ثابت کرنا ہی بہت مشکل ہے۔‘

یعنی اس معاملے میں خواتین قانون کی جانب سے ’ناں‘ ہی سمجھیں۔

جویریہ وسیم نے بی بی سی کی اس بحث میں شامل ہوتے ہوئے اس موقع پر کہا کہ فرانس میں ایسے ہی محض گھورنے کے ایک واقعے پر انھوں نے پولیس کو شکایت درج کروائی۔ اس وقت کیس درج نہیں کیا گیا کیونکہ ثبوت موجود نہیں تھا۔

لیکن پولیس نے ہراساں کرنے والے شخص کا نام ایک رجسٹری میں شامل کر لیا جس کے مطابق آئندہ اس طرح کی کوئی شکایت ریکارڈ میں آنے کے بعد کارروائی خود بخود ضروری سمجھی جائے گی۔

پاکستان میں تھانوں میں ایسی رجسٹری ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کر سکتی ہے؟ یا شاید نہیں۔

تھانہ کلچر سے پہلے اپنا کلچر درست کرنا ہو گا اور سب سے بڑھ کر وکٹم (متاثرہ) کی تربیت سے زیادہ مرد کی تربیت پر توجہ کرنا ہو گی۔

یا پھر ابصا کومل کی تجویز کے مطابق واقعی بورڈ لگانا ہوں گے کہ ’آپ گھورتے ہوئے بالکل بندر لگ رہے ہیں۔۔۔‘ اگرچہ اس پیغام میں بندر بلاوجہ بدنام ہو رہا ہے۔

Share.

Leave A Reply