حالیہ دنوں میں دبئی سمیت متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک کے متعدد چھوٹے بڑے شہروں میں ہونے والی طوفانی بارش کا نتیجہ ناصرف جانی نقصان کی صورت میں نکلا بلکہ شدید بارشوں نے نظامِ زندگی کو بھی درہم برہم کر دیا۔
دنیا کے دوسرے بڑے مصروف ترین دبئی ایئرپورٹ پر فلائیٹ آپریشن بدستور متاثر ہے جبکہ متحدہ عرب امارات کے ہمسایہ ملک عمان میں بارشوں کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 19 ہو چکی ہے۔
جمعرات کے روز متحدہ عرب امارات میں ہونے والی بارش نے گذشتہ 75 سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔ یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات میں بارش کا ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ 75 سال قبل شروع ہوا تھا۔
جبکہ محکمہ موسمیات نے آئندہ دنوں میں اُن علاقوں میں مزید بارش کی پیشگوئی کی ہے جو پہلے ہی بارش کے پانی سے زیر آب ہیں۔
نیشنل سینٹر آف میٹرالوجی نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے علاقے ’خطم الشکلہ‘ میں 24 گھنٹوں سے بھی کم دورانیے میں ریکارڈ 254.8 ملی میٹر (9.7 انچ) بارش ہوئی۔ یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والی بارش کی سالانہ اوسط 140 سے 200 ملی میٹر کے درمیان ہے۔ جبکہ دبئی میں بارش کی سالانہ اوسط محض 97 ملی میٹر ہے۔
جبکہ متحدہ عرب امارات میں اپریل کے مہینے میں بارش کی اوسط 8 ملی میٹر ہے۔
متحدہ عرب امارات میں انتہائی کم دورانیے میں ہونے والی بےتحاشہ بارش اور اُس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق سوشل میڈیا پر صارفین جہاں ایک جانب اسے موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں وہیں بہت سے صارفین یہ سوال کرتے بھی دکھائی دے رہے ہیں کہ کہیں اس سب کے پیچھے قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، مصنوعی طریقے سے بارش برسانے کی کوشش یا جیو انجینیئرنگ تو نہیں؟
تاہم یاد رہے کہ فی الحال سرکاری سطح پر متحدہ عرب امارات میں ہونے والی حالیہ بارشوں میں ’جیو انجینیئرنگ‘ سے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
آئیے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ درحقیقت یہ ’جیو انجینیئرنگ‘ ہے کیا اور اس کی مدد سے آج کے جدید دور میں ماہرین حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟
’جیو انجینیئرنگ‘ کیا ہے؟
میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے مطابق ’اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ ہم آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلی اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اس میں اہم ترین کاربن کے اخراج میں تیزی سے کمی نہیں کر سکیں گے، لیکن جو امر ضروری اور اہم ہے وہ یہ کہ ہم اپنے سیارے کو متبادل امور کی مدد سے زیادہ تیزی سے ٹھنڈا کرنے کے طریقے اپنا سکتے ہیں اور ایسا کرنے سے ہمیں فوسل فیول سے دور جانے کے لئے تھوڑا اور وقت مل سکتا ہے۔‘
ایم آئی ٹی کے ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ ’انھیں اقدامات کو اجتماعی طور پر ’جیو انجینئرنگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘
تاہم ہاورڈز سولر جیو انجینئرنگ ریسرچ پروگرام کے مطابق ’جیو انجینئرنگ‘ سے مراد اس جدید دور میں ٹیکنالوجی کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو ماحول پر مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے اور آب و ہوا کی تبدیلی کے کچھ اثرات کو جزوی طور پر ختم یا کم کرسکتا ہے۔‘
اب یہ تو ہوئی کتابی باتیں انھیں سمجھنے کے لیے ہم نے بات کی اسلام آباد کی کامسیٹس یونیورسٹی میں ماحولیاتی تبدیلی کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر اطہر حسین سے تو انھوں نے ’جیو انجینئرنگ کی تعریف کُچھ یوں کی کہ ’اپنے ماحول میں ایسی تبدیلیاں لانا کہ جس کی مدد سے موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کو کم کیا جا سکے۔‘
جیو انجینئرنگ کی اقسام؟
انجینئرز کے مطابق ’جیو انجینئرنگ‘ کے دو اقسام ہیں پہلے طریقے میں سورج کی روشنی کا انعکاس کیا جاتا ہے لیکن یہ طریقہ صرف مسئلہ کی پردہ پوشی کرتا ہے جبکہ جیو انجینئرنگ کے دوسرے طریقے میں ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو الگ کر کے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر اطہر حسین کا کہنا ہے کہ جیو انجینئرنگ کی دو اقسام میں پہلی زمینی ’جیو انجینئرنگ‘ اور دوسری سولر یا شمسی جیو انجینئرنگ، زمینی جیو انجینئرنگ میں زمین کی فضا یا ہوا میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو کم کرنے کے لیے درخت زیادہ سے زیادہ لگائے جاتے ہیں۔ تاہم دوسری جانب سولر یا شمسی جیو انجینئرنگ میں ماہرین بادلوں کی چمک میں اضافہ کر دیتے ہیں کہ جس کی وجہ سے سورج کی روشنی اُن سے ریفلیکٹ ہو جاتی ہے اور زمین اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہتی ہے۔‘
ڈاکٹر اطہر کے مطابق ’جیو انجینئرنگ کی ان دونوں اقسام کی مدد سے ماحول کو نا صرف صحت مند بنایا جا سکتا ہے بلکہ گلوبل وارمنگ کے مضر اثرات کو کم کرتے ہوئے زمین کے بڑھتے درجہ حرارت کو کم کرنے میں کُچھ وقت کے لیے مدد مل سکتی ہے۔‘
تاہم بہت سے ماحولیاتی سائنسدانوں کا یہ اندازہ ہے کہ دنیا کے پاس کاربن اخراج میں کمی کے لیے چند دہائیاں ہی ہیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو فضاء میں اتنا کاربن ڈائی آکسائیڈ جمع ہو جائے گا کہ عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ ناگزیر ہو جائے گا۔
جیو انجینئرنگ کے بارے میں پہلی مرتبہ کب سوچا گیا؟
میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے مطابق 1991 میں جب فلپائن میں ماؤنٹ پیناٹوبو میں شدید دھماکے سے آتش فشاں پھٹنے کے بعد کئی ماہ تک دھوئیں اور راکھ کے بادل ان علاقوں پر چھائے رہے تھے اور فضا میں 20 ملین ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ پھیل گئی تھی اور اس کی وجہ سے کئی سال تک یہاں کا درجۂ حرارت بڑھ نہیں پایا تھا۔
یہ سب تو قدرتی طور پر ہوا تھا مگر اس کے بعد سائنسدانوں کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی کہ اگر عارضی طور پر ایک خاص بلندی پر 50 میگا ٹن سلفر کا چھڑکاؤ کیا جائے تو اس طرح سے تقریباً دو سال تک زمین پر درجۂ حرارت میں اضافہ نہیں ہوگا اور گلوبل وارمنگ کی بدولت ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو کچھ عرصے کے لیے لگام ڈالی جا سکے گی۔ اُس وقت یہ بات آئی گئی ہو گئی اور اس پر مختلف سوال اُٹھائے گئے۔
مگر اُس کے بعد 2006 میں جیو انجینئرنگ کی بات ایک مرتبہ پھر ہوئی اور اس مرتبہ اس پر بات کی ایک ڈچ ماہر موسمیات اور ماحولیاتی کیمیا دان ’پال جوزف کرٹزن‘ نے۔ اُن کے بات میں وزن اس وجہ سے بھی تھا کہ کرٹزن نے زمین کے گرد موجود اوزون لئیر میں ہونے والے سوراخ کے خطرات پر تحقیق کے لئے اپنا نوبل انعام جیتا تھا، اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کے اثرات پر بات کی تھی۔
کیا دُنیا میں جیو انجینئرنگ کی مدد سے تجربات ہو رہے ہیں؟
اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہرِ ماحولیات داور حمید بٹ کا کہنا ہے کہ جیو انجینئرنگ کی مدد سے یا اس سوچ پر کام کرتے ہوئے چند ترقی یافتہ مُمالک میں اس پر کام ہو رہا ہے، مگر اُن کے مطابق اگر زمین کے ایک کونے یا حصے میں جیو انجینئرنگ میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات یعنی زمین کے بڑھتے درجہ حرارت کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اس کے اثرات زمین کے دوسرے حصوں پر منفی ہو سکتے ہیں۔
داور بٹ کا مزید کہنا ہے کہ ’ترقی یافتہ مُمالک تو اس میں سرمایہ کاری کر کے ایسا کر سکتے ہیں مگر جن مُمالک کے پاس ایسا کرنے کے لیے سرمایہ موجود نہیں اُن پر اس کے اثرات خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘
ساتھ ہی ساتھ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’جیو انجینئرنگ کی مدد سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور درجہ حرارت کو کم کرنے سے بھی بُرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ بھی کہ اگر اس سلسلے میں مناسب قانون سازی نہ ہوئی اور ہر مُلک یا چھوٹے بڑے ادارے بنا کسی روک ٹوک کے اس میں آگے جانے لگے تو مجموعی طور پر زمین پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اس لیے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ اس قانون سازی کو یقینی بنایا جائے۔‘
اس سب کے دوران جب ہم نے داور بٹ سے عرب امارات میں ہونے والی بارشوں کے معاملے کو چھیڑا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’جیو انجینئرنگ سے زیادہ یہاں ’کلائمٹ موڈیفیکیشن‘ یعنی مصنوعی طریقے سے موسم میں تبدیلی کی کوشش کا معاملہ ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’ان عرب مُمالک یا علاقوں میں بارشیں زیادہ نہیں ہوتیں تو ایسے میں کلاؤڈ سیڈنگ یا بادلوں پر نمک چھڑکنے کی تکنیک کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘
داور بٹ کے مطابق ’اس عمل یعنی کلاؤڈ سیڈنگ میں آپ بادلوں کو بارش برسانے کے قابل تو بنا سکتے ہیں مگر آپ کا کنٹرول اس بات پر نہیں ہوتا کہ وہ بادل 100 ملی میٹر بارش برسائیں گے یا 200 ملی میٹر۔‘
کلاؤڈ سیڈنگ کیا ہے؟
کلاؤڈ سیڈنگ ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس میں بادلوں سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے تاکہ زیادہ بارش پیدا کی جا سکے۔
اس عمل کے لیے ہوائی جہاز استعمال کرتے ہوئے سلور آئیوڈائیڈ جیسے چھوٹے ذرات بادلوں میں چھوڑے جاتے ہیں اور پھر پانی کے بخارات انھیں بارش میں بدل دیتے ہیں۔
یہ تکنیک برسوں سے موجود ہے جس کا حالیہ عرصے میں متحدہ عرب امارات نے بھی استعمال کیا ہے۔
بلومبرگ کی رپورٹس کے مطابق کلاؤڈ سیڈنگ کے لیے ہوائی جہازوں کو اتوار اور سوموار کے دن استعمال کیا گیا تھا لیکن منگل کے دن ان کا استعمال نہیں ہوا جب سیلاب آیا۔
بی بی سی متحدہ عرب امارات میں سیلاب سے قبل کلاؤڈسیڈنگ کے عمل کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے کسی بھی عمل کا طوفان پر بہت کم اثر پڑتا ہے اور اس نکتے پر مرکوز رہنا ’گمراہ کن‘ ہو سکتا ہے۔
عام طور پر کلاؤڈ سیڈنگ کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب بارش کے لیے درکار مناسب ہوا، نمی اور گرد کی کمی ہو۔
حال ہی میں پاکستان میں بھی متحدہ عرب امارات کی مدد سے گزشتہ سال دسمبر میں لاہور میں مصنوعی بارش کا ایک تجربہ کیا گیا تھا۔
انڈیا میں اس کا پہلا تجربہ 1952 میں کیا گیا تھا۔ 1960 کی دہائی کے دوران امریکی فوج نے ویتنام کے علاقوں میں فوجی سامان کی ترسیل روکنے کے لیے متنازع طور پر یہ تکنیک استعمال کی تھی۔
چین، متحدہ عرب امارات اور بعض انڈین ریاستیں قحط جیسی صورتوں میں بھی کلاؤڈ سیڈنگ کی آزمائش کرتی ہیں۔