’وہ ایک نہایت طاقتور لیکن افسوسناک لمحہ تھا۔‘
فلسطینی فوٹوگرافر محمد سلیم نے ان الفاظ میں اس لمحے کو بیان کیا جب انھوں نے اپنے کیمرے سے وہ تصویر کھینچی جسے ورلڈ پریس فوٹو 2024 مقابلے میں ’امیج آف دی ایئر‘ یعنی سال کی بہترین تصویر کے طور پر منتخب کیا گیا۔
جمعرات کے دن ورلڈ پریس فوٹو آرگنائزیشن نے 130 ممالک کے تقریبا چار ہزار فوٹوگرافرز کی 61 ہزار تصاویر میں سے اس تصویر کو اعزاز کے لیے چنا تھا۔
یہ تصویر سلیم نے گزشتہ سال اکتوبر میں حماس کی جانب سے اسرائیلی سرزمین پر حملے کے صرف ایک ہفتے بعد اسرائیلی جوابی کارروائی کے دوران کھینچی تھی۔ اس وقت اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر فضائی حملوں کا آغاز ہو چکا تھا۔
یہ واقعہ خان یونس میں پیش آیا جہاں غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بمباری سے بچنے کے لیے بہت سے فلسطینی خاندان پناہ لینے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہ تصویر کس کی ہے؟
جنگ کے آغاز میں ہی اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ شمال کی جانب منتقل ہو جائیں۔ تاہم اکتوبر کے وسط میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے چند جنوبی علاقوں کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا جن میں خان یونس بھی شامل تھا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے روئٹرز کے فوٹوگرافر نصر ہسپتال کے مردہ خانے میں پہنچے جہاں فلسطینی شہری اسرائیلی بمباری کے بعد لاپتہ ہونے والے رشتہ داروں کی تلاش میں موجود تھے۔
سلیم نے وہاں انس ابو مامر کو روتے ہوئے پایا جنھوں نے کفن میں لپٹی ہوئی ایک بے جان بچے کی لاش کو تھاما ہوا تھا۔
یہ ان کی پانچ سالہ بھتیجی تھیں جن کے خان یونس میں واقع گھر کو اسرائیلی توپ خانے نے نشانہ بنایا تو انس فوری طور پر اپنے رشتہ داروں کی خیریت دریافت کرنے نکل پڑیں۔
لیکن ان کو جلد ہی علم ہوا کہ ان کے رشتہ داروں کے ساتھ کیا ہوا۔ ان کی بھتیجی کی والدہ، انس کی بہن، اور خاندان کے دو دیگر اراکین ہلاک ہو چکے تھے۔
انس نے اس کے بعد مردہ خانے کا رخ کیا جہاں ان کی اپنی بھتیجی کی لاش ملی۔ انھوں نے بعد میں روئٹرز کو بتایا کہ ’جب میں نے بچی کو دیکھا اور اسے تھاما تو میں بیہوش ہو گئی تھی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے انھیں بچی کی لاش وہیں چھوڑنے کو کہا لیکن ’میں نے ان سے کہا کہ اسے میرے پاس رہنے دیں۔‘
روئٹرز کے مطابق وہ انس کی سب سے لاڈلی بھتیجی تھیں اور ان کا فون اپنی اس بھتیجی کی تصاویر اور ویڈیوز سے بھرا ہوا ہے۔
ان کی بھتیجی کا ایک چار سالہ بھائی احمد اس حملے میں اس لیے بچ گیا کیوںکہ وہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھا۔ اب وہ انس کے ساتھ ہی رہتا ہے۔
فوٹوگرافر
اس لمحے کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے والے فوٹوگرافر نے کہا کہ ’یہ ایک طاقتور اور افسوس ناک لمحہ تھا جو غزہ کی پٹی پر بیتنے والی دردناک کہانی کو اپنے اندر سمو دیتا ہے۔‘
انھوں نے اعتراف کیا کہ یہ ان کے لیے بھی بہت حساس وقت تھا کیوں کہ چند ہی دن پہلے ان کی اہلیہ نے بچے کو جنم دیا تھا۔
1985 میں پیدا ہونے والے محمد سلیم غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینی فوٹوگرافر ہیں۔ انھوں نے غزی یونیورسٹی سے میڈیا میں تعلیم حاصل کی اور 2003 سے روئٹرز کی جانب سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تنازعے پر کام کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ مقامی وزارت صحت کے مطابق سات ماہ سے جاری اسرائیلی جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں 34 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔