پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے چھور چھاؤنی سے 13 سالہ بچے کی تشدد زدہ لاش برآمد ہونے اور ورثا کے احتجاج کے بعد پاکستانی فوج کے ایک بٹمین (اردلی) کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مقتول علی حسن کے اہل خانہ کے مطابق ملزم پیسوں کی ادائیگی کے لیے مقتول کو چھاؤنی کی طرف لے کر گئے تھے تاہم اس کے بعد مقتول واپس نہیں آئے اور ان کی لاش سی ایم ایچ ہسپتال کے پیچھے واقع جنگل سے ملی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ تاحال ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاسکا تاہم کینٹ کے اندر بھی ملزم کی تلاش جاری ہے۔ اس کی جانب سے ملزم کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
ادھر عمر کوٹ کے ضلعی ہسپتال کے ڈاکٹر دلیپ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ بچے کی موت ’گلا گھونٹنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ رسی، تار یا کسی اور چیز سے گلا گھونٹا گیا ہے، جس کا نشان گلے پر موجود ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ چہرے اور پیٹ پر بھی تشدد کے نشانات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
چھور کینٹ میں قتل کا واقعہ
28 اپریل کو چھور کے گاؤں کھیت سنگھ کے رہائشی گل حسن منگریو نے تھانہ چھور میں دائر کیے گئے مقدمے میں موقف اختیار کیا کہ ان کے 13 سال کے بھائی علی حسن بھینسیں چراتے تھے جبکہ ملزم چھاؤنی کے فوجیوں کی بکریاں چراتے تھے۔
مدعی کے مطابق ملزم نے علی حسن سے شہد خریدا تھا جس کے بعد ان کا بھائی ان سے رقم کا تقاضہ کرتا رہا جو ادا نہیں کی جا رہی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ چھاؤنی کے باہر ایک ملاقات میں ملزم نے پیسے دینے کی حامی بھری جس کے بعد ان کا بھائی ملزم کے ساتھ فوجی چھاؤنی کی طرف چلا گیا۔
فریادی نے موقف اختیار کیا ہے کہ جب علی حسن واپس نہیں آئے اور ان کی تلاش کے سلسلے میں وہ ملزم کے پاس گئے تو وہ ٹال مٹول کرتا رہا۔
انھوں نے 26 اپریل کو چھور تھانے میں گمشدگی کی اطلاع دی اور اگلے روز سٹیشن کمانڈر 56 برگیڈ چھور کو بھی اپنی شکایت کی درخواست دی۔
گل حسن کے مطابق چھاؤنی میں تلاش کے دوران ان کے بھائی کی لاش سی ایم ایچ ہسپتال کے پیچھے واقع جنگل سے ملی جس کے ’منھ اور جسم پر تشدد اور زخموں کے نشانات تھے جبکہ گلے پر ایک نیل دائرہ تھا۔‘
انھوں نے ’آرمی والوں کے ہمراہ لاش سی ایم ایچ ہسپتال کے سرد خانے میں رکھوائی اور پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے ضلعی ہسپتال سے پوسٹ مارٹم کے بعد لاش ہمارے حوالے کی۔‘
دوسری جانب ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی آر تو دائر ہوگئی ہے تاہم نامزد ملزم گرفتار نہیں ہوا۔ انھیں امید ہے کہ جلد یہ گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ گرفتاری میں تاخیر کی کیا وجہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ملزم کو ڈھونڈ رہے ہیں اور کینٹ کے اندر بھی حکام ملزم کو تلاش کر رہے ہیں۔ ’ہوسکتا ہے کہ وہ گاؤں سے فرار ہوگیا ہو۔‘
’فوجی حکام نے یقین دہانی کرائی کہ ملزم کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا‘
علی حسن مہر کی گمشدگی اور قتل کے خلاف کھیت سنگھ کی رہائشی خواتین اور مردوں نے چھور کینٹ کے سامنے کئی گھنٹے تک احتجاج کیا تھا۔
ان کا مطالبہ تھا کہ مقدمہ درج کر کے اس واقعے میں ملوث ملزم کو گرفتار کیا جائے۔ حکام نے متاثرین سے کئی گھنٹوں تک مذاکرات کیے جس دوران ایف آئی آر درج کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
جب ایس ایس پی آصف رضا سے یہ پوچھا گیا کہ مقدمہ درج کرنے میں تاخیر کیوں ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ اس میں کون ملوث ہے یا کیا ہوا ہے۔ ’جب پولیس نے اپنا انٹیلیجنس نظام متحرک کیا اور پتا چلا تو پھر مقدمہ درج کیا گیا۔‘
ادھر پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے رابطے کے باوجود کوئی باقاعدہ موقف سامنے نہیں آسکا ہے۔
مقتول کے چچا احسان منگریو نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ شب ان کے پاس پولیس اور فوجی حکام آئے تھے اور انھوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ’ملزم کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔‘ وہ پُرامید ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگا۔
احسان منگریو کے مطابق سی ایم ایچ کے عقب میں دس فٹ اونچی گھاس اور کچرا رہتا ہے، اس کے باعث وہاں سارا دن اہل خانہ مقتول کی لاش ڈھونڈتے رہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ جوانوں نے بھی تلاش کی لیکن کوئی پتا نہیں چلا۔ اس کے بعد حکام نے ’ہم سے پوچھا کہ آپ کو کیوں یقین ہے کہ بچہ یہاں ہوگا؟‘ جس پر انھوں نے بتایا کہ وہاں ملزم کو مقتول کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔
مقتول کے چچا کے مطابق فوجی حکام نے ملزم سے تفتیش کی جس نے پھر ’جگہ کی نشاندہی کی اور بچے کی لاش ملی۔‘