امریکی شہر ڈیٹرائٹ کے نواح میں موجود شہر ڈیئربورن نہ صرف سیاحوں کو مشرق وسطی کے کھانوں سے لطف اندوز ہونے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے بلکہ وہ یہاں یہ بھی دریافت کر سکتے ہیں کہ امریکہ میں بسنے والے عرب شہریوں نے اس ملک کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا۔
مشی گن کے شہر ڈیئربورن میں واقع شتیلا بیکری میں اتوار کی سہ پہر گاہکوں کی ایک قطار موجود تھی جن کے سامنے میشابیک (مصری فنل کیک) اور سنہرے بھورے رنگ کے لبنانی طرز کے میکرون سجے ہوئے تھے۔
جب ملازمین آرڈر پورے کرنے کے لیے دوڑ رہے تھے تو مقامی لوگ پرجوش انداز میں ایک دوسرے سے عربی اور انگریزی زبان کا سہارا لیتے ہوئے محو گفتگو تھے۔ ایک شخص کے دوست نے کہا کہ ’میرا صحت مند کھانے کا منصوبہ تو گیا بھاڑ میں۔’
شاتیلا بیکری میں ڈیئربورن شہر کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔اس 45 سال پرانی بیکری، جسے سنہ 1970 میں ایک لبنانی تارکِ وطن نے شروع کیا تھا، کے اردگرد امریکی عربوں کے ریسٹورنٹس، کاروبار، دکانیں، حلال گوشت، حجام خانے اور مساجد موجود ہیں۔
شاتیلا ڈیئربورن میں مشرق وسطی کی بیکریوں میں سے ایک معروف بیکری ہے
ڈئیربورن کی دو بڑی شاہراہوں، وارن ایونیو اور مشی گن ایونیو، پر انگریزی اور عربی دونوں زبانوں میں سائن بورڈز موجود ہیں۔
گذشتہ ایک صدی میں یہ شہر، جو کہ ڈیٹرائٹ سے باہر موجود ہے، طویل عرصے سے گاڑیاں بنانے والی فورڈ موٹر کمپنی کے حوالے سے جانا جاتا تھا، شاید امریکہ میں عرب باشندوں کے سب سے بڑے شہر کی حیثیت رکھتا تھا اور پھر سنہ 2023 میں ڈئیربورن امریکہ میں عرب شہریوں کا سب سے بڑا شہر بن گیا تھا۔ یہاں کی آبادی ایک لاکھ 10 ہزار ہے اور امریکی عرب باشندوں کا واحد نیشنل میوزیم اور شمالی امریکہ کی سب سے بڑی مسجد یہیں ہے۔
یہ امریکہ کے ان گنے چنے شہروں میں شامل ہے جہاں میئر مسلمان بھی ہے اور عرب بھی۔ یہ پہلا شہر تھا جہاں عید کے دن مسلمانوں کو سرکاری طور پر چھٹی ملی اور اس کے عوض ان کی تنخواہ بھی نہیں کٹتی۔ اور یہ امریکہ کے ان گنتی کے چند شہروں میں شامل ہے جہاں اذان سپیکر پر دینے کی اجازت ہے۔
وہاں کے ایک مقامی شہری نے مجھے کہا کہ ’یہ اپنے وطن سے دور اپنا ہی وطن ہے۔‘
جیک ٹیٹ ڈیئربورن ہسٹوریکل میوزیم کے منتظم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل تک اس شہر کی آبادی بہت کم تھی۔ وہ سب 1920 کی دہائی میں بدل گیا جب ہنری فورڈ نے فورڈ موٹر کمپنی کا ہیڈ کوارٹر ڈیئربورن سے دس میل کی دوری پر بنایا۔
ٹیٹ کا کہنا ہے کہ ’اس وقت یہ ایک خاموش علاقہ تھا اور جیسے ہی نیا پلانٹ یہاں کھلا امریکہ اور دنیا بھر سے لوگوں نے فورڈ کے لیے کام کرنے کے لیے یہاں کا رخ کیا۔ وہ مشرق وسطیٰ کے لوگوں کی یہاں آمد کا ایک بڑا آغاز تھا۔‘
جب فورڈ نے سنہ 1908 میں اپنی نامور ماڈل ٹی آٹو گاڑیاں بنانے کا کام شروع کیا تو اس کے لیے انھیں لوگوں کی ضرورت تھی۔
بطور صنعت کار فورڈ افریقی نژاد امریکیوں اور یہودیوں کے لیے نسل پرستانہ جذبات رکھنے کے طور پر جانے جاتے تھے اور انھوں نے ڈیٹرائٹ میں نووارد مشرق وسطیٰ کے پناہ گزینوں کی جانب دیکھنا شروع کیا۔
ڈیٹرائٹ سے ملحقہ علاقوں میں لبنان، شام، عراق، یمن اور فلسطین سے لوگ زیادہ اجرت کے کام کی تلاش میں آتے تھے۔ یہاں ایک مقامی نامور شخصیت کے مطابق فورڈ نے ایک یمنی ملاح کو بندرگاہ پر بتایا کہ ان کی فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کو ایک دن میں پانج ڈالر (اس وقت ایک بڑا معاوضہ سمجھے جانے والی اجرت) دیے جاتے ہیں اس کے بعد یمن اور دیگر مشرق وسطیٰ کے علاقوں سے بہت بڑی تعداد میں روزگار کی تلاش میں لوگ آئے۔
سنہ 1920 کے اوائل میں فورڈ ماڈل ٹی میں کام کرنے والے بہت سے مزدور ایسے تھے جن کے اجداد عربی تھے۔ جب فورڈ کمپنی ڈئیربورن منتقل ہوئی تو اس کے بہت سے ملازمین بھی ساتھ ہی منتقل ہو گئے۔ اس چھوٹے سے قصبے، جس میں پہلے فقط 2400 لوگ رہتے تھے، کو دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری سائٹ میں تبدیل کر دیا گیا اور یہیں سے ڈئیربورن امریکی عربوں کی سب سے بڑی آبادی کے لیے راہ ہموار ہوئی۔
سنہ 2020 کی مردم شماری کے مطابق شہر میں ساڑھے 54 فیصد لوگ ایسے ہیں جو کہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے اجداد مشرق وسطی یا شمالی افریقہ سے تعلق رکھتے تھے۔
1920 کی دہائی میں بدل گیا جب ہنری فورڈ نے فورڈ موٹر کمپنی کا ہیڈ کوارٹر ڈیئر بورن سے دس میل کی دوری پر بنایا
میتھیو جابر سٹیفر سینٹر فار عرب نیریٹوز کے ڈائریکٹر ہیں۔ ڈئیربورن میں کئی دہائیوں تک رہنے کے بعد بہت سے عرب نژاد شہریوں اور امریکی عربوں نے ایک دوسرے سے رابطہ رکھنے کے لیے ایک کمیونٹی بنائی۔ یہاں ڈاکٹرز نے کلینک بنائے، ریسٹورنٹس کھلے، گروسری سٹور کھلے اور یوں یہ ایک خطہ سا بن گیا۔ بدقسمتی سے یمن، عراق، فلسطین اور لبنان میں مسلسل شورش، خانہ جنگی اور امریکی قبضے کے باعث وہاں کے مکین مسلسل اپنے گھر اور وطن کو چھوڑنے لگے۔
ڈئیر بورن میں مسلسل نئے لوگ آتے رہے اور یہاں پہلے سے رہنے والے لوگ بھی انھی کے ملکوں سے تعلق رکھتے تھے۔
اماندہ ساب کے خاندان کی بھی ایسی ہی کہانی ہے۔ وہ لبنانی نژاد امریکی شیف ہیں جو ڈییربورن میں ہی پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین سنہ 1970 کی دہائی میں امریکہ آئے تھے۔ دیگر بہت سے لوگوں کی طرح ان کے والد گاڑیوں کی صنعت میں اچھی تنخواہ ملنے کا خواب لے کر یہاں آئے جن کے خاندان کے دیگر لوگ پہلے سے یہاں موجود تھے۔
سنہ 2015 میں ساب حجاب اوڑھنے والی وہ پہلی مسلمان خاتون تھیں جنھوں نے امریکہ کے رئیلٹی شو ماسٹر شیف میں کامیابی حاصل کی تھی۔
اب اسرائیل اور غزہ کی حالیہ جنگ میں ساب نے فلسطین کے لیے شیف تلاش کیے ہیں۔ یہ ڈنر سیریز ہے اور اس میں علاقے کے کامیاب شیف اکھٹے ہوئے ہیں اور وہ فلسطین کے بچوں کے ریلیف فنڈ اور فلسطینوں کے لیے امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے لیے فنڈ اکھٹے کر رہے ہیں۔
جیسا کہ ساب بھی وضاحت کرتی ہیں کہ چونکہ ڈئیر بورن میں رہنے والے بہت سے لوگ اپنے ممالک میں مسلسل خانہ جنگی کے بعد ایک بہتر زندگی کی تلاش میں یہاں آئے۔ اس شہر نے نہ صرف عربوں کو ایک ٹھکانہ دیا بلکہ انھیں ایک سپورٹ سسٹم بھی دیا جن کے خاندان اپنے ملک میں بہت مشکل صورتحال میں گھرے ہوئے تھے۔
ساب کہتی ہیں کہ ’ڈئیربورن بہت زیادہ مہمان نواز اور فراخ دل کمیونٹی ہے۔‘
امریکہ میں موجود عرب نژاد ڈئیر بورن میں موجود مشرق وسطی کے بہت سے کیفے اور ریسٹورنٹس کا دورہ کرتے ہیں
آج عرب امریکیوں کی موجودگی کا سب سے مضبوط احساس وہاں موجود نظر آنے والی خوراک ہے۔ وہاں آپ کو مشرق وسطی کے بہت سے گروسری سٹورز، کیفے اور ریسٹورنٹس دکھائی دیں گے۔
ساب نے اپنی پسندیدہ جگہوں کے ناموں کے بارے میں بتانے سے پہلے کہا کہ ’ڈئیربورن کے کھانوں میں ہی بہت ایڈوینچر ہیں۔‘
برنچ کے لیے ساب لبنانی کھانے کی مشہور جگہ ‘الطیب’ میں جانے کی تجویز دیتی ہیں جہاں آپ کو ‘فِل’ ملے گا جس میں تازہ پھلیاں اور چنے ہوتے ہیں، حمس ملے گی جس پر آپ کی مرضی کا گوشت ہو گا، فتح ملے گا جس میں چنے، لہسن ملا دہی، فرائی بادام اور دیگر لوازمات کو بیف کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔
ڈئیر بورن میں شوارما بہت دکھائی دیتا ہے۔ مگر ساب شہر کے مشرق میں فرینچ بریڈ کے ساتھ چکن شوارما کھاتی ہیں۔
شاتیلا بیکری بکلاوا کے لیے مشہور ہے۔ ساب بھی عربی طرز کی آئسکریم کو بہترین قرار دیتی ہیں۔
رات کے کھانے کے لیے انھوں نے یہ تجویز دی کہ سٹیک ہاؤس ‘بچرز گرِل’ جائیں۔ یہ مشرق وسطی کے روایتی کھانوں کی جدید شکل ہے جیسے کہ انڈے کے رول میں شوارما اور اس کے اوپر فرائیز۔
انھیں گرِل کیا ہوا گوشت بھی پسند ہے اور وہ کہتی ہیں کہ حمس بہت اچھی ہے۔
عرب امریکن نیشنل میوزیم امریکہ میں وہ واحد میوزیم ہے جو امریکہ میں رہنے والے عرب شہریوں کے تجربات کے بارے میں بتاتا ہے۔
عرب امریکن نیشنل میوزیم امریکہ میں وہ واحد میوزیم ہے جو امریکہ میں رہنے والے عرب شہریوں کے تجربات کے بارے میں بتاتا ہے۔
ڈئئربورن میں مشرق وسطیٰ میں لذید کھانوں کے علاوہ بھی اور بہت کچھ دیکھنے کو ہے۔
سنہ 2005 میں امریکہ میں فورڈ روڈ پر 120000 سکوائر فٹ کے رقبے پر پہلا اسلامک سینٹر کھلا۔
شمالی امریکہ میں سب سے بڑی مسجد ہونے کے علاوہ یہ امریکہ میں اسلامی فرقے شعیہ کمیونٹی کی پہلی سب سے بڑی مسجد تھی۔ یہاں ایک وقت میں ایک ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔
اس مسجد میں تمام عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ ہر مذہب کے لوگ اور سیاح اس کے گراؤنڈ میں چل پھر سکتے ہیں اور مسجد کے سنہری گنبد اور 110 فٹ چوڑے میناروں اور اندر لکھی اسلامی خطاطی کی تعریف کر سکتے ہیں۔
ڈئیربورن کے جنوبی کونے میں امریکن مسلم سوسائٹی سب کے لیے کھلی ہے اور لوگوں کو وہاں جانے کی اجازت ہے۔ اس سوسائٹی کو سنہ 1937 میں بنایا گیا تھا جہاں ایک آڈیٹوریم ہے جس میں ہفتے کے اختتام پر لیکچرز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ امریکہ میں پہلی مسجد تھی جس میں لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اذان دیے جانے کی اجازت تھی۔
ان امریکی عربوں میں سے بہت سوں کی زندگیوں کا مرکز ان کا عقیدہ ہے۔ لیکن یہ مکمل کہانی نہیں۔ اور یہی امریکی عربوں کے نیشنل میوزیم کا مقصد ہے۔ امریکہ میں اسے اس قسم کا پہلا میوزیم بنانے کے لیے یہ میوزیم عرب امریکیوں کے تجربات کو ریکارڈ کر رہا ہے۔
میوزیم امریکہ میں عرب دنیا سے آنے والے تارکین وطن کی کہانیوں کی نمائش کرتا ہے۔ اس میں امریکی معاشرے میں عربوں کی خدمات اور اس کے اثرات کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس کی مرکزی گیلریز اور سالانہ تقریبات جیسے کہ رواں برس 15 سے 19 مئئ تک ہونے والے عرب فلم فیسٹیول کے علاوہ سنہ 2023 میں سامنے آنے والا اس کا الحدیقہ ہیریٹیج گارڈن بھی ہے۔
شاتھا نجم، جو میوزیم کی کمیونٹی مؤرخین میں سے ایک ہیں، نے وہاں چھت پر نشوونما کے مختلف مراحل میں موجود پودوں کی جانب اشارہ کیا، انگور کی بیلوں کی جانب جو تاروں سے لپٹی تھیں اور مصری پیاز کی جانب جو ابھی حال ہی میں کاٹے گئے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ باغ، جنھیں سیزن کے دوران آٹھ جون کو کھول دیا جائے گا، ان کہانیوں کے ساتھ مل کر بنایا گیا تھا جو میوزیم کی زبانی تاریخ کے مجموعے کے لیے اکھٹی کر رہی تھیں۔ اس میں سے بہت سے لوگوں کے اپنے ملک کو چھوڑنے کے تجربات بتائے گئے تھے۔
الحدیقہ، امریکی عربوں کے حوالے سے قومی سطح پر موجود ثقافتی گارڈن ہے، وہاں کے شوکیس میں ایسے پودے ہیں جو قدیم زمانے سے عرب دنیا میں اگائے جاتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ میرے خیال سے اپنے ملک سے حقیقی رابطہ رکھنے کا بہترین ذریعہ پودے ہیں۔
’اپنے ملک میں اگنے والی سبزیوں اور جڑی بوٹیوں کو یہاں اگانا ایسے ہی ہے جیسے آپ اپنا نیا گھر بنا رہے ہیں، ایک نئے ماحول میں جو آپ کے لیے نیا نہیں آپ اس سے شناسا ہیں۔‘
نجم کا کہنا ہے کہ ’یہ زبانی کلامی تاریخ امریکہ میں زندگی کی تصویر کشی کرتی ہے۔ بہت کچھ اکثر ہماری طرف سے نہیں بلکہ ہمارے لیے بتایا جاتا ہے۔ مگر یہاں ڈیئربورن میں مختلف صورتحال ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’آپ ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو آپ کی ثقافت کو جانتے ہیں، شاید وہ آپ کے ہم ملکی نہیں لیکن ان میں اور آپ میں بہت سی چیزیں مماثلت رکھتی ہیں۔’
یہ ایک نیا ملک کے بنانے جیسا ہے جہاں ایک نئی جگہ پر رہتے ہوئے آپ اپنا نیا خوبصورت گھر بناتے ہیں۔ یہ شاید دنیا بھر سے یہاں آنے والے ہر شخص کے لیے امریکی عربوں جیسا نہ ہو لیکن ہم دونوں سے اپنا تعلق محسوس کرتے ہیں۔‘