’چاؤڈری مٹ بولو، شاب ڈین بولو۔‘ گورے افسر نے ڈانٹتے ہوئے پولیس افسر ذوالقرنین سے کہا۔
چودھری شہاب الدین بلدیہ لاہور کے صدر تھے، جب 105 سال پہلے سنہ 1919 میں لگ بھگ اِنھی دنوں لاہور سمیت برطانوی پنجاب کے کئی شہروں میں مارشل لا لگا۔
اس سے چند ماہ پہلے، پہلی عالمی جنگ کے ختم ہو نے پر ہندوستان کے لوگ پُرامید تھے کہ انھیں جنگ میں برطانیہ کی حمایت کے بدلے میں کچھ حقوق ملیں گے۔ لیکن مصنف سید عابد حسین کے مطابق 18 مارچ 1919 کو رولٹ ایکٹ کی رو سے سیاسی جدوجہد اور اظہار رائے کی تھوڑی بہت آزادی جو ہندوستانیوں کو حاصل تھی وہ بھی چھین لی گئی۔
بانی پاکستان محمد علی جناح سمیت قانون ساز کونسل کے آٹھ غیر سرکاری اراکین نے اس قانون کے پاس ہونے کی مخالفت کی تھی۔ جناح نے یہ کہہ کر کونسل سے استعفا دے دیا تھا کہ ’جس ملک میں ایسے قانون نافذ ہوں، وہ ملک مہذب کہلانے کا حقدار نہیں رہتا۔‘
کونسل سے باہر بھی قانون کی منظوری سے پہلے اس کے خلاف احتجاج ہونے لگے تھے۔
شاہد صدیقی کے مطابق کانگریس نے بھی رولٹ ایکٹ کی مخالفت کی اور ’موہن داس گاندھی نے اس کے خلاف پُرامن ہڑتال کی کال دے دی۔ اس پر پنجاب کے مختلف شہروں میں مسلمان، ہندو، سکھ اور مسیحی رولٹ ایکٹ کے خلاف یک زبان ہو گئے۔‘
پروفیسر عزیز الدین احمد لکھتے ہیں کہ سیاسی بیداری اخباروں اور رسالوں کے ذریعے پنجاب میں پھیل سکتی تھی، لہٰذا ان پر پابندی لگا دی گئی۔
پنجاب سے باہر چھپنے والے اخبارات کا پنجاب میں داخلہ پہلے ہی سے ممنوع تھا۔ اور جب 1919 میں رولٹ ایکٹ مخالف تحریک شروع ہوئی تو مزید 12 اخبارات پر پابندی لگا دی گئی۔
اس وقت کے معروف اخبار ’زمیندار‘ کی ضمانت جنگ کے دوران ہی میں ضبط کر لی گئی تھی۔ زمیندار کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان کو جنگ ختم ہونے تک لاہور بدر کر کے وزیر آباد میں پابند کر دیا گیا۔ قوم پرست اور ’حکومت دشمن‘ اخبارات کو اشتہار بند کر دیے گئے۔ اخبار ’ٹریبون‘ اور لالا لاجپت رائے کے اخبار ’پنجاب‘ سے بھی ضمانت طلب کر لی گئی جبکہ ٹربیون کے ٹرسٹی لالا ہرکشن لال کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں ٹربیون کے مُدیر کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔
ان کارروائیوں کے باوجود پنجاب کے بڑے شہروں اور کچھ قصبوں میں عوامی تحریک شروع ہو گئی۔
چھ اپریل کو لاہور میں اپنے وقت کی سب سے بڑی ہڑتال ہوئی جبکہ 9 اپریل کو لاہور میں رام نومی کے تہوار میں ہندووں، مسلمانوں اور سکھوں نے مل کر حصہ لیا۔
دس اپریل کو خبر شائع ہوئی کہ پنجاب حکومت نے گاندھی کو صوبے میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ اس خبر کے چھپتے ہی شہر میں ہڑتال ہو گئی اور جلوس نکالا گیا۔ جلوس پر ریگل چوک پہنچنے سے پہلے ہی گولی چلا دی گئی۔ دو، تین مظاہرین ہلاک اور بہت سے زخمی ہو گئے۔ پولیس لوگوں کو لوہاری دروازے تک دھکیل کر لے آئی۔ یہاں ایک مرتبہ پھر فائرنگ میں کچھ اور ہلاکتیں ہوئیں۔
گیارہ اپریل کو اندرون شہر ہڑتال ہوئی اور بادشاہی مسجد میں ایک بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا جس سے مسلمان مقرروں کے علاوہ ہندو لیڈر رام بھجدت نے بھی خطاب کیا۔ لوگ مسجد سے نکل کر گھروں کو روانہ ہوئے تو انھیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
ہڑتال کی وجہ سے شہر میں کھانے پینے کی چیزیں نہیں ملتی تھیں۔ اس تکلیف کے ازالے کے لیے شہر کے خوشحال لوگوں نے چندے کی رقوم سے لنگر کھول دیے۔ ان لنگر خانوں سے 16 اپریل تک لوگوں کو کھانا مہیا کیا گیا۔
پروفیسر عزیز لکھتے ہیں کہ جدوجہد لائل پور، قصور، گوجرانوالا، وزیر آباد، حافظ آباد، اکال گڑھ، سانگلا، کوٹ مومن، مانانوالا، منڈی ڈھاباں سنگھ، چوہڑ کانا اور ملکوال تک پھیل گئی۔
’اس جدوجہد نے جو شکلیں اختیار کیں وہ یہ تھیں۔ انگریزوں پر حملے، ریلوے سٹیشنوں کو آگ لگانا، ریلوے لائنوں کو اُکھاڑنا، ٹیلی گراف کی تاریں کاٹنا اور سرکاری دفاتر پر حملے کرنا۔‘
سنہ 1919 میں پنجاب کی کل آبادی (آج کے مشرقی اور مغربی پنجاب، ہریانہ اور ہما چل پردیش سمیت) 2 کروڑ کے قریب تھی۔
جن شہروں میں ہنگامے ہوئے ان کی آبادی یوں تھی: لاہور (چھاؤنی کے علاوہ) اڑھائی لاکھ، امرتسر 1 لاکھ 60 ہزار، گوجرانوالا 30 ہزار، قصور 24 ہزار، گجرات 20 ہزار، لائل پور (اب فیصل آباد) 15 ہزار، حافظ آباد 5 ہزار، سانگلا 3 ہزار، اور شیخوپورہ 2 ہزار 500۔
رولٹ ایکٹ مخالف جدوجہد سب سے زیادہ امرتسر میں ہوئی تھی۔
تیرہ اپریل 1919 کو امرتسر کے عوام پر جلیاں والا باغ میں فائرنگ سے، خود انگریز مورخین کے مطابق، 379 افراد ہلاک اور 1203 زخمی ہوئے۔ اس پر پورے پنجاب میں احتجاج پر قابو پانے کے لیے پنجاب کے گورنر سر مائیکل اڈوائر نے مارشل لا نافذ کر دیا۔
امرتسر میں پروفیسر عزیز کے مطابق ہر شخص کو پابند کیا گیا کہ جب کوئی انگریز نظر آئے وہ اسے ہاتھ اٹھا کر سلام کرے۔ شہر کے تمام وکیلوں کو ایک حکم کے مطابق کانسٹیبل کا درجہ دے دیا گیا۔ ان سے قلیوں کا کام لیا گیا اور اس طرح 93 وکیلوں کی تذلیل کی گئی۔
’کئی بے گناہوں کو پکڑ کر زبردستی سیاسی لیڈروں کے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا گیا۔ اور جنھوں نے بیان دینے سے انکار کیا ان کو غیر انسانی اور غیر اخلاقی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘
اس کی تفصیل کانگریس انکوائری کمیٹی رپورٹ میں درج ہے۔
اسی مارشل لا کے دوران میں ذوالقرنین پولیس تربیت مکمل ہونے پر لاہور آئے تو ان کے ذمے دیگر کاموں کے علاوہ سورج ڈھلنے سے پہلے شہر کے معززین کی حاضری لینا بھی تھا۔
ذوالقرنین کے بڑے بھائی اور مصنف آغا بابر اپنی کتاب ’خدوخال‘ میں لکھتے ہیں کہ معززینِ شہر مقررہ وقت سے ایک گھنٹا پہلے پانی والے تالاب کی بند دکانوں کے تھڑوں پر آ کر بیٹھ جاتے۔
’(انگریز کیپٹن کی قیادت میں) فوج کی ایک ٹکڑی اپنے وقت پر لیفٹ رائٹ کرتے آتی۔ سہمے معززین و اکابرین اٹھ کر کھڑے ہو جاتے اور ایک ساتھ جھکتے بولتے ’صاحب بہادر سلام۔‘
گورا افسر کوئی جواب نہ دیتا بس کہتا: ’حاضری بولو۔‘
ڈیوٹی کے پہلے دن گھریلو تربیت کے زیرِ اثر ذوالقرنین نے حاضری لگاتے ہوئے ادب سے نام لیا ’چودھری شہاب الدین۔‘
گورا افسر گرجا: ’چاؤڈری مٹ بولو، شاب ڈین بولو۔‘
یہی نہیں، مؤرخ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کے مطابق لاہور کے ’ہر ہر محلے سے چُن چُن کر معززین کو برہنہ سر (ننگے سر)، برہنہ پا (ننگے پاؤں) ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال کر بازاروں میں پھرایا گیا تاکہ ان کی تذلیل ہو۔ جو لوگ اپنی قابلیت کی بنا پر ہائی کورٹ کے جج اور صوبے کے وزیر بننے والے تھے انھیں گورا فوج کے سپاہیوں سے پٹوا کر پھانسی کے مجرموں کی کوٹھیوں میں بند کیا گیا۔‘
’چودہ چودہ برس کے بچوں کو کوڑوں سے پیٹا گیا۔ مئی کی گرمی میں لاہور کے کالجوں کے طلبہ کو حکم دیا گیا کہ اپنے سروں پر اپنے بستر اٹھا کر دن میں چار مرتبہ آئیں اور یونین جیک کو سلامی دیں۔‘
’لاہور کے تمام باشندوں کو حکم مل گیا کہ اپنی موٹر کاریں، سائکلیں، بجلی کے پنکھے اور بلب فوج کے حوالے کردیں۔‘
نو جون کو پنکھے اور بلب لاہور کے فیلیٹیز ہوٹل سے واپس ملے۔
احمد سعید نے اپنی کتاب ’لاہور اک شہرِ بے مثال‘ میں لکھا ہے کہ جب پنجاب ہائیکورٹ کے جسٹس سر شادی لال نے فرینک جانسن سے اس حکم سے استثنا مانگا تو جواب ملا: مجھے کسی کی ضرورت سے غرض نہیں۔ میرا مقصد قیامِ امن ہے۔ آپ گاڑی میرے حوالے کر دیں۔‘
19 جون کو مارشل لا کے حکم کے تحت موٹرکاریں مالکان کو واپس کی گئیں۔
پروفیسر عزیز لکھتے ہیں کہ کرنل جانسن کو لاہور کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ امرتسر کی طرح لاہور میں بھی چھوٹی چھوٹی بات پر کوڑے لگنے شروع ہو گئے۔
’لاہور میں سمری ملٹری عدالتیں قائم کی گئیں۔ صرف ایک عدالت میں 277 لوگوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کی گئی اور 201 افراد کو سزائیں دی گئیں جو 2 سال قید، 30 کوڑوں اور 1 ہزار روپے جرمانہ تک تھیں۔ اس زمانے میں جب سپاہی کی تنخواہ 7 روپے ماہوار تھی 1 ہزار روپے ایک بڑی رقم ہوتی تھی۔‘
بٹالوی لکھتے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں کسی وکیل کو پیروی کی اجازت نہیں ملتی تھی اور ملزموں کو پھانسی اور عمر قید کے علاوہ مشکل ہی سے کوئی اور سزا ملتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے قصبوں تک میں سزاؤں کی بھرمار ہوئی۔
’ایک شخص کو محض اس جرم میں کہ اس نے ایک پولیس افسر سے مخاطب کر کے کہا تھا ’تم ہمارے بھائی ہو ہم تمھارے بھائی ہیں۔ آؤ ہمارے ساتھ مل جاؤ۔‘
کرنل جانسن کا خیال تھا کہ بغاوت پھیلانے میں وکیل اور ان کے کلرک پیش پیش ہیں۔ ان کے لاہور سے بلا اجازت باہر جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ پروفیسر عزیز لکھتے ہیں کہ ’حکومت مخالف لوگوں کے گھروں اور دفتروں کی دیواروں پر مارشل لا نوٹس چسپاں کر کے انھیں حفاظت کا پابند کر دیا جاتا کہ انھیں پھاڑنے یا خراب کرنے کی سزا مکان یا دفتر کے مالک کو دی جاتی۔ معززین محض ناموس کی خاطر سارا دن گھروں سے باہر کھڑے رہتے۔‘
احمد سعید کے مطابق ایک صاحب نے اپنی جان انگریز حکام اور مارشل لا احکامات کو ’باغیوں‘ سے بچانے کے لیے ان احکامات کو ایک تختے پر چسپاں کر دیا۔ دن کو تختے کو نیچے کر دیا جاتا اور رات کو رسی سے کھینچ کر اوپر۔
پروفیسر عزیز کی تحقیق ہے کہ ایک ایسا ہی نوٹس لاہور کے سناتن دھرم کالج (یہ اسی عمارت میں واقع تھا جہاں آج کل ایم اے او کالج ہے) کے باہر لگایا گیا۔ یہ نوٹس کسی نے پھاڑ دیا۔
’اس کی سزا میں 500 طالب علموں اور ان کے اساتذہ کو مئی کی دھوپ میں اپنے بستر سروں پر اٹھا کر لاہور کے شاہی قلعہ تک جو 3 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے پیدل مارچ کرنے کی سزا دی گئی۔ پھر 2 دن تک قلعے میں قید رکھا گیا۔
’ڈی اے وی کالج (آج کا اسلامیہ کالج سول لائنز)، دیال سنگھ کالج اور میڈیکل کالج کے طالب علم بھی حکومت دشمن سمجھے جاتے تھے۔ انھیں حکم دیا گیا کہ وہ دن میں 4 مرتبہ کالج میں حاضر ہوں۔ صبح 7 بجے، دن کے 11 بجے، دوپہر 3 بجے اور پھر ساڑھے سات بجے۔ میڈیکل کالج ہاسٹل ان دنوں 4 میل دور تھا۔ طالب علموں کو ہر روز 16 میل کی مسافت طے کرنا پڑتی۔
سڑک پر دو سے زیادہ آدمیوں کے اکٹھا چلنے پر پابندی لگا دی گئی۔ کسی جگہ شادی ہو رہی تھی۔ دُلھا کو جیل بھیج دیا گیا، نکاح خواں اور براتیوں کو کوڑے مارے گئے۔
لاہور کے 11 سیاسی لیڈر گرفتار کر لیے گئے اور ان کے خلاف مقدمے قائم کیے گئے۔ لالا ہرکشن لال، لالا دُونی چند، پنڈت رام بھجدت کو عمر قید اور جائیداد ضبطی کی سزائیں دی گئیں۔ مارشل لا اٹھائے جانے کے بعد یہ سزائیں کم کر دی گئیں۔
لائل پور میں مشتعل ہجوم نے ریلوے سٹیشن اور کاٹن ملز کے گوداموں کو آگ لگا دی تھی۔ اس احتجاج کے بدلے میں لائل پور کے ایک سکول کے تمام طلبہ کو میجر سمتھ کے دفتر کے باہر گراؤنڈ میں کھڑا کر دیا گیا، ان کے ہاتھ باندھے گئے اور ان سے کہا گیا کہ وہ میجر کے سامنے سر جھکا کر یونین جیک کو سلام کریں۔
قصور شہر میں 2 فوجی قتل کر دیے گئے تھے۔ یکم مئی کو تمام شہریوں کو سٹیشن پر پیش ہونے کا حکم دیا گیا تاکہ ملزمان کی شناخت کی جا سکے (عورتوں اور بچوں کے علاوہ) 2 بجے دوپہر تک لوگوں کو بھوکا پیاسا چلچلاتی دھوپ میں بٹھائے رکھا گیا۔ 172 آدمی گرفتار کیے گئے۔ 51 کو سزائیں سنائی گئیں۔ دو آدمیوں کو بلاوجہ گولی مار دی گئی۔ 40 آدمیوں کو فی کس 17 کوڑے مارے گئے۔
’گوجرانوالا میں فضائیہ کے طیاروں نے پرامن شہری آبادی پر بم پھینکے۔ طیاروں نے شہر کے گرد دیہاتی آبادی پر مشین گن سے فائرنگ کی۔ لوگوں کو کوڑے مارے گئے۔ شہر کے معززین کو شہر کی نالیاں صاف کرنے کی سزا دی گئی۔ اور ہر ایک کو حکم دیا گیا کہ انگریز کو دیکھتے ہی سلام کیا جائے۔‘
برطانوی پارلیمان میں رکن پارلیمان کرنل ویج وُڈ نے پوچھا کہ کیا ہندوستانی ’فسادیوں‘ پر ہوائی جہاز سے بم گرائے گئے۔
’اگر ایسا ہوا ہے تو، کہاں اور کس کے حکم سے: کتنے لوگ مارے گئے اور ان میں سے کتنے فسادی نہیں تھے۔‘
جواب میں ہندوستان کے لیے سکریٹری آف سٹیٹ ایڈوِن مونٹیگو نے بتایا کہ ’گوجرانوالا، پنجاب میں۔۔۔ ایک طیارے نے صبح سے سول سٹیشن، ریلوے سٹیشن اور چرچ میں توڑ پھوڑ کرتے ایک ہجوم پر چند بم گرائے۔‘
دیگر اراکین کی ’آرڈر آرڈر‘ کی آوازوں میں ویج وُڈ نے پھر پوچھا: کتنے لوگ مارے گئے؟
مونٹیگو: مجھے اُمید ہے کہ آخر کار یہ ضروری معلومات مل جائیں گی۔
برطانوی وزیرِ خارجہ کا ایوانِ نمائندگان میں یہ بیان 28 مئی 1919 کا ہے۔
لیکن محقق قطب الدین عزیز کے مطابق گوجرانوالا کے برطانوی ڈپٹی کمشنر کرنل اے جے اوبرائن نے اس فضائی کارروائی میں 11 افراد کے ہلاک اور 27 کے زخمی ہونے کی اطلاع پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر مائیکل اوڈوائر کو اُسی روز یعنی 14 اپریل ہی کو دے دی تھی۔
’وزیر آباد، اکال گڑھ، رام نگر، حافظ آباد، سانگلا، کوٹ مومن، مانانوالا اور چوہڑ کانا کے لوگوں کو ریل کی پٹریاں اکھاڑنے، ٹیلی گراف کے تار کاٹنے اور بادشاہ کا پتلا جلانے کے جرم میں سزائیں دی گئیں۔ شیخوپورہ، لائل پور، گجرات، جلال پور جٹاں اور ملکوال کے لوگوں کو بھی مارشل لا عدالتوں سے سزائیں ہوئیں۔ سارے پنجاب میں 18 افراد کو پھانسی دی گئی۔ سینکڑوں کو کوڑے مارے گئے۔‘
سنہ 1920 میں شائع ہونے والی آل انڈیا کانگرس انکوائری رپورٹ میں تین بچوں کی تصویریں بھی ہیں۔ ایک گوجرانوالا کے سرداری لال ہیں جن کا بازو بم سے زخمی ہونے کی وجہ سے کاٹ دیا گیا تھا۔ گجرات کے 10 سالہ کندن لال ہیں جنھیں انگریزوں کے خلاف جنگ کے جرم میں کالے پانی کی سزا دی گئی اور ایک قصور شہر کا 11 سالہ بچہ ہے جس پر شہنشاہِ برطانیہ کے خلاف جنگ کا مقدمہ قائم کیا گیا۔
اسی راستے سے جنرل ڈائر اور ان کے فوجی جلیاں والا باغ میں داخل ہوئے تھے
چھ اگست کو برطانوی پارلیمان میں انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا لارڈ ستیندر سنھا نے کئی سوالات کے جواب میں بتایا کہ خصوصی کمیشنوں نے 852 افراد پر مقدمہ چلایا اور ان میں سے 582 کو سزا سنائی گئی اور 270 کو بری کر دیا گیا۔ مارشل لا آرڈرز کے خلاف جرائم کے تقریباً 1,500 مقدمات تھے۔ تقریباً 500 میں سزا میں بڑی کمی کی گئی ہے۔
ایک رکن پارلیمان ارل رسل کے اصرار پر انھوں نے بتایا کہ اصل سزائیں یہ تھیں: 108 مقدمات میں سزائے موت دی گئی۔ ان میں سے اپیل نہ کرنے والے 18 افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔ 108 میں سے 28 کو کالے پانی کی سزا، 23 کو 10 سال قید، 13 کو 7 سال قید، 21 کو کم قید کی سزا دی گئی۔
بامبے کرانیکل کے برطانوی ایڈیٹر، بی جی ہارنی مین جو جناح کے دوست بھی تھے، نے پنجاب میں مارشل لا پر ایک مقالہ لکھا۔ بمبئی پولیس نے انھیں لندن جلاوطن کر دیا جہاں ہارنی مین نے ’پنجاب میں خونیں جبر‘ پر پریس میں طوفان کھڑا کر دیا۔ لندن میں برطانوی حکومت نے سکاٹ لینڈ کے سابق سالیسٹر جنرل لارڈ ہنٹر کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی قائم کی جس میں چار برطانوی اور تین ہندوستانی ارکان تھے اور اس نے اکتوبر – نومبر 1919 میں نئی دہلی اور لاہور میں سماعت کی۔
الطاف حسن قریشی کے مطابق شہادت پیش کرنے کا حق صرف حکومت کو حاصل تھا۔
سرکاری افسر پہلے اپنا تحریری بیان بھیج دیتے اور بعد میں جرح کے لئے پیش ہوتے۔
سیاسی جماعتوں، وکلا کی انجمنوں اور اَخبارات کے شور مچانے پر پنجاب کے شہریوں کو صرف ایک نمائندے کے ذریعے اپنی شہادت قلم بند کرانے کا موقع دیا گیا۔ یہ نمائندہ میاں فضل حسین تھے۔
سرکاری افسروں پر جرح کی غرض سے وکیلوں کی ایک مرکزی کمیٹی نے بڑی محنت سے مختلف ضلعوں سے مواد جمع کر لیا تھا۔ اُس کمیٹی کا دفتر اُس زمانے میں صنعت کاری کے بادشاہ لالا ہرکشن لال کی کوٹھی (اب یہاں فاطمہ جناح میڈیکل کالج ہے) میں قائم تھا۔ یہیں جرح کا وہ گولا بارود تیار ہوتا تھا جس سے مسلح ہو کر پنڈت جگت نرائن سرکاری گواہوں پر تابڑتوڑ جرح کرتے تھے۔
’پنجاب کے شہریوں کا مقدمہ لڑنے کے لیے تمام اخراجات لالا ہرکشن لال نے اٹھائے تھے۔ وہ خود مارشل لا کے قیدی رہے تھے اور مارشل لا ٹریبونل سے پھانسی کی سزا پانے کے بعد عام معافی کے تحت رہا ہوئے تھے۔‘
سوائے ریلوے علاقے کے امرتسر، گوجرانوالا اور لائل پور سمیت باقی اضلاع میں نو جون اور لاہور میں گیارہ جون کی نصف شب سے مارشل لا اٹھا لیا گیا۔
اس سارے ہنگامے کی جڑ رولٹ ایکٹ کہلاتا کالے قوانین کا مجموعہ تھا جس کے تحت بعض سیاسی مقدمات کو جیوری کے بغیر چلانے اور مشتبہ افراد کو بغیر کسی مقدمے کے حراست میں رکھنے کی اجازت تھی۔
لیکن مارن گولڈبرگ کی تحقیق ہے کہ رولٹ ایکٹ پر اصل میں کبھی عمل درآمد نہیں ہوا۔