پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل ہے: سپریم کورٹ

Pinterest LinkedIn Tumblr +

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر محفوظ فیصلہ سنا دیا ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ نے پارلیمان میں مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے معاملے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ خلاف آئین قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت کا رکن قرار نہیں دیا جا سکتا اور پی ٹی آئی ہی مخصوص نشستوں کے حصول کی حقدار ہے۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اکثریتی فیصلہ ہے اور 13 میں سے آٹھ ججوں نے اس کی حمایت جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سمیت پانچ ججوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کو کسی اور جماعت کا امیدوارقرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے اورانتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخاب میں حصہ لینے سے نہیں روکتا۔

عدالت کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنی زمہ داری پوری نہیں کی اور تحریک انصاف کے ارکان کو آزاد ظاہر کر کے غلط کیا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں اور الیکشن کمیشن 80 میں سے ان 39 ارکان اسمبلی کے تناسب سے، جنھوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں خود کو پی ٹی آئی کا امیدوار ظاہر کیا تھا، تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں الاٹ کرے جبکہ باقی 41 اراکین وابستگی کے حوالے سے 15 روز میں الیکشن کمیشن میں اپنا حلف نامہ جمع کروائیں۔

عدالت نے کہا ہے کہ اس فیصلے کا اطلاق قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں پر ہو گا اور الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کی فہرست دوبارہ مرتب کرے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں کہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے اراکین کو آزاد قرار نہیں دیا جا سکتا، لہٰذا مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کے بجائے پی ٹی آئی کو دی جائیں۔

سنی اتحاد کونسل

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر منگل کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔

منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا موقف رہا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار ہی نہیں۔

انھوں نے موقف اپنا گیا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کروائی۔‘

سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب الجواب میں کہا کہ ’ثابت کروں گا الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری مکمل نہیں کی۔

آزاد امیدواروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’الیکشن کمیشن نے اپنا ریکارڈ دبانے کی کوشش کی۔ الیکشن کمیشن نے عدالت کو جو ریکارڈ جمع کرایا وہ مشکوک ہے۔‘

جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ ’یہ انتہائی اہم معاملہ ہے کہ سپریم کورٹ سے ریکارڈ چھپایا گیا۔ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکالا، کیا ایسے عمل کو سپریم کورٹ کو نہیں دیکھنا چاہیے۔‘

منگل کے روز مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

پی ٹی آئی

انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے پر الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے انتخابی نشان چھین لیا تھا جس کے بعد اس جماعت کے حمایت یافتہ امیدواروں نے آزاد حثیت میں انتحابات میں حصہ لیا تھا۔
کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ 2024 کے عام انتخابات سے قبل انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے پر الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے انتخابی نشان چھین لیا تھا جس کے بعد اس جماعت کے حمایت یافتہ امیدواروں نے آزاد حثیت سے انتحابات میں حصہ لیا تھا۔

انتخابات میں کامیابی کے بعد انھوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

یاد رہے کہ چارمارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں تھیں۔

چھ مئی کوسپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔

تاہم اس سے قبل تین مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہو گیا تھا۔

یاد رہے کہ چارمارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کر دیں تھیں۔

سپریم کورٹ نے اس معاملے پر سنی اتحاد کونسل کی جانب سے دائر کی گئی اپیل پر 31 مئی کو دستیاب ججز کا فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جس نے اس کیس کی نو سماعتیں کی ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے بھی اپنی جماعت کی طرف سے الیکشن نہیں لڑا اور نہ ہی ان کی جماعت نے مخصوص نشستوں سے متعلق کوئی ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا جسے سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے مخصوص نشستوں پر فیصلے سے تحریک انصاف کو کتنا نقصان پہنچا تھا اور پی ٹی آئی خود اس کی کس حد تک ذمہ دار ہے؟

پی ٹی آئی کا احتجاج

مجموعی طور پر 77 مخصوص نشستیں ملنی چاہیے تھیں: سنی اتحاد کونسل کا دعویٰ

سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت کے دورن سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ مجموعی طور پر 77 مخصوص نشستیں ہیں جو سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیے تھیں مگر دیگر جماعتوں کو دے دی گئیں۔

ان 77 نشستوں میں قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلیوں کی 55 نشستیں شامل ہیں۔

قومی اسمبلی کی معطل 22 نشستوں میں پنجاب سے خواتین کی 11، خیبر پختونخوا سے آٹھ سیٹیں شامل ہیں۔ قومی اسمبلی کی معطل مخصوص نشستوں میں 3 اقلیتی مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کی اپیل کی پہلی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی تھی۔

ابتدائی سماعت میں انھوں نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع جاری کردیا تھا جس کی وجہ سے یہ مخصوص نشستیں جن دیگر جماعتوں کو ملی تھیں۔

ان کے ارکان کی رکنیت بھی معطل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے حکم کے بعد 13 مئی کو نوٹیفکیشن کے ذریعے 77 مخصوص نشستوں پر آنے والے ارکان کی رکنیت کو معطل کر دیا تھا۔

الیکشن کمیشن اور پھر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نواز کو 14، پاکستان پیپلز پارٹی کو پانچ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کو تین اضافی نشستیں ملی تھیں۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں 21 خواتین اور چار اقلیتی مخصوص نشستیں ہیں جن میں سے جے یو آئی (ف) کو 10، مسلم لیگ (ن) کو سات، پیپلز پارٹی کو سات جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کو ایک اضافی نشست ملی تھی۔

Share.

Leave A Reply