’ایک سال میں عالیہ کو جن مقدموں میں شامل کیا گیا، وہ زیادہ تر ایک ہی دن کے ہیں۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ ایک شخص ایک ہی دن میں لاہور، میانوالی، سرگودھا اور گوجرانوالہ میں کیسے موجود ہو سکتا ہے۔ ہم تو انصاف کے منتظر ہیں۔
’گذشتہ 13 مہینے میں میری بیٹی اور ہمارا خاندان جس اذیت سے گزرے ہیں وہ صرف میرا خدا جانتا ہے۔ اس بڑھاپے میں مجھے جگہ، جگہ مختلف شہروں میں اپنی بیٹی سے ملنے جانا پڑتا ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کی سابق ایم این اے عالیہ حمزہ کی والدہ گوہر بانو جب ان 13 ماہ کی کہانی بی بی سی کو سنا رہی تھیں تو ان کی آنکھیں نم تھیں۔
یہ کہانی نو مئی 2023 کو شروع ہوئی جب تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی گرفتاری کے فوری بعد ہی ملک بھر میں احتجاج شروع ہوا اور اس دوران لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس سمیت کئی سرکاری عمارتوں اور املاک کو نقصان پہنچا جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے اور چند اموات بھی ہوئیں۔
ان واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے مرد کارکنوں کے علاوہ درجنوں خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کو بھی پرتشدد احتجاج اور توڑپھوڑ کے سلسلے میں درج مقدمات میں گرفتار کیا گیا۔
گذشتہ ایک سال کے دوران ان میں سے زیادہ تر خواتین کو تو ضمانت پر رہائی مل گئی تاہم کچھ خواتین رہنما اور کارکنان ایسی بھی ہیں جو ایک مقدمے میں ضمانت کے بعد کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لی جاتی ہیں۔
عمران خان کی گرفتاری کے فوری بعد ہی ملک بھر میں احتجاج اور پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے، جس کے نتیجے میں لاہور کے کور کمانڈر ہاوس سمیت کئی سرکاری عمارتوں اور املاک کو نقصان پہنچا
ان خواتین کے خلاف کیا الزامات ہیں؟
سابق رکنِ اسمبلی عالیہ حمزہ کے وکیل ایڈوکیٹ خاقان میر کے مطابق ان خواتین کو زیادہ تر ان مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے جو سنہ 2023 میں نو اور دس مئی کے روز درج کیے گئے تھے تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مقدمات میں لگائی گئی زیادہ تر دفعات ایک ہی نوعیت کی ہیں، جس میں ریاست کے خلاف اکسانے، پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے، گھیراو جلاؤ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سمیت قتل اور دہشت گردی جیسی دفعات بھی شامل ہیں۔
خاقان میر کے مطابق عالیہ حمزہ کو بھی اب تک پانچ ایف آئی آرز میں نامزد کیا گیا ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’پانچ میں سے ایک کیس میں عالیہ کو رہا کر دیا گیا جبکہ باقی تین مقدمات میں ضمانت ہونے کے بعد انھیں گوجرانوالہ میں درج ایک مقدمے میں نامزد کر کے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔‘
عالیہ حمزہ کی طرح تحریکِ انصاف کی سابق صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کو بھی مختلف مقدمات کا سامنا ہے جن میں سے چند میں وہ باقاعدہ نامزد ملزمہ ہیں۔
تحریکِ انصاف کی ان رہنماؤں جیسی صورتحال کا سامنا صنم جاوید کو بھی رہا ہے جو ایک یو ٹیوبر اور تحریکِ انصاف کی ایک سرگرم کارکن ہیں اورخصوصاً سوشل میڈیا پر اس جماعت کے موقف کو بڑھ چڑھ کر پیش کرنے والوں میں شامل رہی ہیں۔
ان کے والد جاويد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ صنم جاوید کو سات مقدمات کا سامنا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی بیٹی ان میں سے کسی ایک مقدمے میں بھی نامزد ملزمہ نہیں بلکہ ان کا نام ’بعد میں مقدمے کی ضمنی میں ڈال کر انھیں گرفتار کیا گیا۔‘
جاوید اقبال کا مزید کہنا تھا کہ ’اب تک بیشتر مقدمات میں صنم کو ضمانت مل چکی ہے لیکن جیسے ہی اس کی رہائی کا حکم نامہ جاری ہوتا ہے تو اسے دوبارہ کسی نئے مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔‘
انھوں نے مزيد کہا کہ ’ہم نے لاہور ہائی کورٹ میں باقاعدہ درخواست بھی دائر کی کہ ہمیں بتایا جائے کہ صنم کے خلاف ملک کے کس کس شہر میں مقدمے درج ہیں تاکہ ہم قانون کے مطابق مقدمات لڑ سکیں۔‘
’میں سمجھتا ہوں یہ قانونی نہیں بلکہ ذاتی لڑائی ہے‘
صنم جاوید کے والد جاويد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی کو سات مقدمات کا سامنا ہے
نو مئی کے دن جو ہوا اس نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے سمیت ان خواتین کارکنوں اور رہنماؤں کے خاندانوں کی زندگیوں کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔
صنم جاوید کے والد نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نو مئی کے بعد پہلے چند مہینے ان کے اور ان کے خاندان کے لیے خاصے مشکل تھے۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’متعدد بار پولیس نے صنم اور میرے گھر پر چھاپہ مارا اور توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ وہ استعمال شدہ کپڑے اور جوتے بھی ہمارے گھر سے لے گئے۔‘
جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ’ہماری زندگیاں نو مئی کے واقعے کے بعد خاصی تبدیل ہوئی ہیں۔ انھوں نے میری بیٹی کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد اس کے شوہر کو گرفتار کرکے آٹھ ماہ تک جیل میں رکھا۔ اس وقت صنم کے بچے میں اپنے پاس لے آیا۔ یہی نہیں دوسری بیٹی سے میرا ملنا مشکل ہو گیا۔ اس کے شوہر کے کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا۔ ایسی صورتحال میں، میں اپنی بچیوں کو بھوکا مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتا تھا۔‘
انھوں نے مزيد کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ان خواتین کو بالخصوص صنم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ لڑائی سوشل میڈیا سے شروع ہوئی اور آج اس نے قانونی نہیں ایک ذاتی لڑائی کی شکل اختیار کر لی ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں اور ان کی بیٹی کو بار بار مختلف ذریعے سے یہ پیغامات پہنچائے گئے کہ صنم مریم نواز کی ایما پر جیل میں ہیں۔ ’آپ دیکھ لیں کہ ادھر عدالتیں ریلیف دیتی ہیں، ادھر پھر کسی نئے مقدمے میں پکڑ لیا جاتا ہے۔‘
تاہم ان کے اس الزام پر جب پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمی بخاری سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا ’مریم نواز اور پنجاب پولیس کا ان خواتین کے کسی کیس اور گرفتاری سے کوئی لینا دینا نہیں۔
’مریم نواز تو ان خواتین کو جانتی بھی نہیں۔ یہ خواتین قانون کے مطابق مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں۔‘
صنم جاوید کے والد کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ سیاست میں تشدد کے عنصر کے مخالف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو بھی ایسے واقعات کا ذمہ دار ہو اسے سزا ملنی چاہیے۔
’سیاسی طور پر میں کبھی بھی عمران خان کی سیاست کا مداح نہیں رہا ہوں اور اسی وجہ سے میرا صنم کے ساتھ سیاسی اختلاف بھی تھا لیکن ہمارے گھر میں ایک دوسرے کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ جس کی چاہے حمایت کرے۔ اسی طرح میں پرتشدد سیاست کا بھی حامی نہیں ہوں لیکن نو مئی کے واقعے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے میں شفاف تحقیقات ہونی چاہییں اور جس کا قصور ہو اسے سزا ملی چاہیے۔‘
’پولیس نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا اور توڑ پھوڑ شروع کر دی‘
ڈاکٹر یاسمین راشد کے شوہر ڈاکٹر راشد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ڈاکٹر صاحبہ ہمارے گھر کا اہم ترین حصہ ہیں اور ان کے گھر میں نہ ہونے سے ہماری زندگی رک سی گئی ہے۔ میری والدہ کی وفات کے بعد انھوں نے میرے خاندان اور گھر کے تمام معاملات سنبھال رکھے تھے۔ ہم سب کی زندگی ان کے گرد گھومتی ہے اس لیے ان کے جیل میں جانے سے کافی کچھ بدل گیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’نو مئی کے بعد ڈاکٹر صاحبہ کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا۔ میں گھر کی اوپر والی منزل پر سو رہا تھا۔ وہ آئے اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ موبائل اور کمپیوٹر اٹھایا، پھر مجھے گرفتار کر کے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن پھر وہ میرے چھوٹے بھائی کو لے گئے۔‘
ڈاکٹر راشد کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر یاسمین کی گرفتاری سے قبل میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہا تھا لیکن ان کی گرفتاری کے بعد سب کچھ مجھے ہی دیکھنا پڑ رہا ہے۔ میں ہی ان کے قانونی معاملات دیکھ رہ رہا ہوں۔ میں ان سے ملنے کبھی عدالت چلا جاتا ہوں تو کبھی جیل۔‘
بچوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ میرا ایک بیٹا میرے ساتھ ہوتا ہے جبکہ باقی بچے باہر کے ملکوں میں نوکری کر رہے ہیں۔ وہ بھی اپنی والدہ کے لیے خاصے پریشان رہتے ہیں لیکن ان کے لیے بھی بار بار دوسرے ملک سے آنا آسان نہیں۔‘
ڈاکٹر یاسمین راشد کی صحت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’وہ کینسر کی مریضہ ہیں اور بیمار رہتی ہیں تاہم اب تک انتظامیہ ہمارے ساتھ ان کے چیک اپ کے لیے تعاون کر رہی ہے۔ حال ہی میں ان کے کندھے نے کام کرنا چھوڑ دیا، جس کی وجہ سے انھیں خاصی تکلیف ہے۔‘
انھوں نے مزيد بتایا کہ ’جیل میں اس وقت وہ اکیلی ہیں۔ پہلے صنم جاوید ان کے ساتھ ہوتی تھیں لیکن انھیں بھی گوجرانوالہ منتقل کر دیا گیا۔‘
یہ صورتحال صرف عالیہ حمزہ اور ان کے خاندان کو ہی درپرپیش نہیں بلکہ ان کی طرح تحریک انصاف سے وابستہ دو اور خواتین ڈاکٹر یاسمین راشد اور صنم جاوید بھی ابھی تک جیل سے رہائی نہیں پا سکی ہیں
’میری بیٹی کو پولیس نے گھر سے بچوں کے سامنے گرفتار کیا‘
عالیہ حمزہ کی والدہ گوہر بانو نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا ’مجھے تو ٹی وی دیکھ کر پتا چلا تھا کہ عالیہ کو پولیس نے گھر سے اس کے بچوں کے سامنے گرفتار کیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انھیں اس ضعیف العمری میں اپنی بیٹی سے ملاقات کے لیے شہر شہر پھرنا پڑا۔
’میں لاہور گئی، سرگودھا گئی، گوجرانوالہ گئی۔ یہاں ہم پریشان ہیں، مشکل میں ہیں اور جیل میں میری بیٹی پریشان ہے۔ وہ بیمار ہوئی اسے ملیریا ہوا، اس کا آٹھ کلو وزن کم ہوا، اس نے بھوک ہڑتال کی، ایک مرتبہ وہ کمزوری سے بے ہوش ہو گئی۔
’دوسری جانب اس کی بچیاں ماں کے بغیر اکیلی زندگی گزار رہی ہیں۔ عالیہ کا شوہر کینسر کا مریض کا ہے۔ اس کو کاروبار میں نقصان ہوا۔ ہمارے لیے تو صرف پریشانی ہی پریشانی ہے۔‘
ان خواتین کی حراست کے معاملے پر بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ عدالتی معاملات چل رہے ہیں جبکہ دہشت گردی جیسے سنگین مقدمات میں ضمانت بنیادی حق نہیں ہوتا۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ پر ریاست کے خلاف واقعات میں ملوث ہونے جیسے الزامات ہوں اور آپ ان سے بچنے کے لیے عورت کارڈ کا استعمال کریں۔‘