بنگلہ دیش میں پرتشدد احتجاج کے دوران دل دہلا دینے والی ویڈیوز کی حقیقت کیا؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

کہا جاتا ہے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ کے برابر ہوتی ہے اور بعض اوقات تو یہ کسی قوم کو ہلا کر بھی رکھ سکتی ہے۔

ایسی ہی ایک ویڈیو بنگلہ دیش میں یونیورسٹی کے طالب علم ابو سعید کی ہے جو تنہا ایک ہاتھ میں ڈنڈا لیے اپنے بازو پھیلائے بھاری ہتھیاروں سے لیس پولیس کا سامنا کرتے نظر آتے ہیں۔

ان کی اس تصویر کو بہت سے لوگ سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف ملک میں وسیع پیمانے پر ہونے والے احتجاج میں اہم موڑ کے طور پر گردانتے ہیں۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سیکنڈز کے اندر اس نوجوان کو گولی مار دی جاتی ہے لیکن پھر بھی وہ کھڑا رہتا ہے، یہاں تک کہ مزید گولیوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں اور پھر وہ چند منٹ بعد گر جاتا ہے۔

16 جولائی کا یہ واقعہ تیزی سے وائرل ہو گیا اور اس نے سنہ 1971 میں ملک کی آزادی کی جنگ کے سابق فوجیوں کے اہلخانہ کے لیے سول سروسز کی نوکریوں میں ریزرویشن کے خلاف تحریک میں مزید طلبہ کو کودنے پر اکسایا۔

اس کے بعد ملک بھر میں بدامنی اور بدنظمی کے واقعات دیکھے گئے جن میں وحشت ناک تشدد کے واقعات شامل تھے۔

بنگلہ دیش کی سکیورٹی ایجنسیوں پر طاقت کے ناجائز استعمال کا الزام لگایا گیا کہ انھوں نے آنسو گیس کے گولے کے ساتھ ربڑ کی گولیاں، پیلٹ گن، ساؤنڈ گرینیڈ یہاں تک کہ لوگوں پر براہ راست گولیاں چلائیں۔

سکیورٹی ایجنسیاں ان الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔ اس کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گيا جس میں گولی مارنے کا حکم بھی شامل تھا۔

بنگلہ دیش

بنگالی روزنامہ پرتھم الو اور نیوز ایجنسی اے ایف پی کا کہنا ہے کہ تشدد کے ان واقعات میں 200 سے زائد افراد مارے گئے، جن میں کئی طلبہ اور تین پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

وزیر داخلہ کے مطابق سرکاری اعداد و شمار 147 اموات کی تصدیق کرتے ہیں۔

لیکن حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے درست تفصیلات اور سڑکوں پر رونما ہونے والے واقعات کی مزید ویڈیوز کے سامنے آنے میں تاخیر نظر آئی۔ گذشتہ ہفتے براڈ بینڈ کو جزوی طور پر بحال کیا گیا تو تشدد کے مزید مناظر سامنے آنے لگے ہیں۔

ان میں سے ایک کی تصدیق بی بی سی کی ویریفائی ٹیم نے کی۔ اس میں ایک نوجوان کو اپنے زخمی دوست کو دارالحکومت ڈھاکہ کے جتراباڑی علاقے میں محفوظ مقام پر لے جانے کی کوشش کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

چند ہی لمحوں میں سر پر ہیلمٹ پہنے ایک سادہ لباس اہلکار دونوں نوجوانوں کی سمت فائرنگ کرتا نظر آتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد نوجوان اپنے قریب المرگ زخمی دوست کو چھوڑ کر اپنی حفاظت کے لیے ایک طرف بھاگتا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک سینیئر نمائندہ آئرین خان نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ اور ابو سعید والی ویڈیو دونوں ’غیر قانونی قتل‘ ہیں۔

آزادی اور اظہار رائے کے حق کے فروغ اور تحفظ کی خصوصی نمائندہ آئرین خان نے کہا کہ ’ابو سعید پولیس کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن وہ اسے گولی مار دیتے ہیں، یہ بلاجواز، غیر متناسب تشدد کا واضح مظاہرہ ہے۔‘

بنگلہ دیش کے جونیئر وزیر اطلاعات و نشریات محمد علی عرفات نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ابو سعید کو گولی مارنے کی ویڈیو ’غیر قانونی‘ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ بالکل صاف اور واضح تھا کہ لڑکا ہاتھ اور سینہ پھیلا کر کھڑا تھا اور بہت کم فاصلے سے اسے گولی مار دی گئی۔‘

محمد علی عرفات نے مزید کہا کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائیں گی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ تحقیقات کے لیے ایک آزاد عدالتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

بنگلہ دیش

بی بی سی کی ویریفائی ٹیم کی طرف سے تصدیق شدہ ایک اور ویڈیو میں ڈھاکہ کے محمد پور علاقے میں مظاہرین کے ایک گروپ پر بھاری ہتھیاروں سے لیس فوجیوں کو فائرنگ کرتے دیکھا گیا۔

لیکن ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان فاروق حسین نے اپنے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس نے صرف اپنے دفاع میں گولی چلائی۔‘

فاروق حسین نے ایک واٹس ایپ پیغام میں کہا کہ ’پولیس جان و مال کو بچانے کے لیے طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ کسی بھی پولیس افسر نے (فائر) صرف اس وقت کیا جب اس کے اپنے دفاع کی صورتحال پیدا ہو گئی۔‘

حکام نے ایک اور واقعے کی ویڈیوز پیش کیں جس میں ایک ہجوم کو پولیس وین کو نشانہ بناتے ہوئے اور بعد میں وین کے اندر ایک افسر کو مارتے ہوئے دیکھا گیا۔

محمد علی عرفات نے الزام لگایا کہ ’انھوں (مظاہرین) نے ایک پولیس افسر کو قتل کیا اور اسے ڈھاکہ کے جاترا باڑی علاقے میں الٹا لٹکا دیا۔‘

حکمراں جماعت کے ایک کارکن کو بھی مبینہ طور پر مارا پیٹا گیا۔

محمد علی عرفات نے کہا کہ تشدد ’یکطرفہ نہیں تھا۔ لوگوں کو دونوں طرف دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اصل میں کیا ہوا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ سکیورٹی فورسز کی تعداد بہت جگہ کافی کم تھی اور کئی جگہوں پر ان پر حملے کیے گئے کیونکہ انھیں گولی چلانے کی اجازت نہیں تھی۔

بنگلہ دیش

حکومت کی طرف سے بھیجی گئی ایک دوسری ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک زخمی پولیس افسر کو اس کے ساتھی لے جا رہے ہیں۔

حکومت کا الزام ہے کہ مرکزی اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور جماعت اسلامی پارٹی کے حامیوں نے طلبہ کے احتجاج میں گھس کر سکیورٹی فورسز پر حملے کیے اور ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا اور آگ لگا دی۔

ناقدین اس دعوے کو حکمران جماعت عوامی لیگ کی طرف سے توجہ ہٹانے کی کوشش کے طور پر مسترد کرتے ہیں۔

مظاہروں کے ختم ہونے کے بعد سے سماجی کارکن اور مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کے حامیوں سمیت 9,000 سے زائد افراد کو گرفتار کر کے کریک ڈاؤن کیا۔

طلبہ کے احتجاجی رہنماؤں کو بھی پکڑ لیا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ’ان کی اپنی حفاظت کے لیے‘ تھا۔

حکومت کی جانب سے مظاہرین پر سختی سے متعلق ماہرین نے خبردار کیا کہ بنگلہ دیش میں مزید بدامنی پھیل سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی نمائندہ آئرین خان نے کہا کہ ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ریاست اور عوام کے درمیان کوئی بھروسہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو یہ احتجاج اور خوفناک صورتحال درپیش ہے۔‘

Share.

Leave A Reply