فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی غزہ میں فوری جنگ بندی کی اپیل

Pinterest LinkedIn Tumblr +

غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور ہزاروں اموات کے پیش نظر جنگ بندی کے لیے عالمی برادری کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور سیکیورٹی کونسل کے اراکین فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے اسرائیل اور حماس سے لڑائی روک کر فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق تینوں بڑے ممالک کی جانب سے یہ مطالبہ ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب حماس نے جنگ میں ثالث کا کردار ادا کرنے والوں پر زور دیا کہ وہ مزید مذاکرات کرنے کے بجائے امریکی صدر جو بائیڈن کے پیش کردہ جنگ بندی کے منصوبے پر عمل درآمد کریں۔

فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون، جرمن چانسلر اولاف شولز اور برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ لڑائی اب ختم ہونی چاہیے اور حماس کی زیر حراست تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کو فوری اور بلاتعطل امداد کی ترسیل اور تقسیم کی ضرورت ہے، اس میں مزید تاخیر نہیں ہو سکتی۔

بین الاقوامی سطح پر ثالثی کی کوشش کرنے والوں نے اسرائیل اور حماس کو جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کی دعوت دی ہے۔

اسرائیل نے امریکا، قطر اور مصر کی طرف سے جمعرات کو ہونے والے مذاکرات کے لیے مذاکرات کار بھیجنے کی دعوت قبول کر لی ہے۔

اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ایسا کرنے کی وجہ فریم ورک معاہدے کے نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دینا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے 31 مئی کو جنگ بندی کے لیے ایک فریم ورک پیش کیا تھا لیکن وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت نے عوامی سطح پر اس تجویز کو قبول کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کیا اور انتہائی دائیں بازو کے کچھ اسرائیلی وزرا نے بھی اس کی مخالفت کی تھی۔

حماس نے اتوار کو کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ مزید گفت و شنید کے ادوار یا نئی تجاویز کے بجائے اس منصوبے پر عمل درآمد چاہتے ہیں جو بائیڈن نے پیش کیا تھا۔

اس منصوبے کو پیش کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا تھا کہ مجوزہ روڈ میپ کے پہلے مرحلے میں چھ ہفتوں تک جاری رہنے والی مکمل جنگ بندی میں اسرائیلی فوجیں غزہ کے تمام آبادی والے علاقوں سے نکل جائیں گی اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔

منصوبے کے مطابق دونوں فریقین کے مستقل جنگ بندی پر راضی ہونے کے بعد اگلے مرحلے میں بقیہ زندہ یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا جس کے بعد غزہ کی تعمیر نو کا ایک بڑا منصوبہ تشکیل دیا جائے گا۔

اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے پیر کے روز ایک پارلیمانی کمیشن کو بتایا کہ ہم نے اپنے دفاع کو مضبوط کیا ہے اور جارحانہ آپشنز کو منظم کیا ہے کیونکہ ایران اور لبنان سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

غزہ میں جنگ بندی کے لیے دباؤ اس وقت بڑھ گیا تھا جب ہفتے کے روز ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اسکول کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں فلسطینی پناہ گزین مقیم تھے اور اس حملے میں 93 افراد شہید ہو گئے تھے جو اس لڑائی میں اب تک کسی ایک حملے میں شہید ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

غزہ کے حکام نے پیر کے روز اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے شہید ہونے والوں میں سے 75 کی لاشوں کی شناخت کر لی ہے جب کہ دیگر جلی ہوئی تھیں اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔

7 اکتوبر سے جاری اس جنگ میں اسرائیلی بمباری اور وحشیانہ کارروائیوں میں اب تک کم از کم 39 ہزار 897 افراد شہید ہو چکے ہیں تاہم ماہرین کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

Share.

Leave A Reply