مونا خان
2016ء میں جب میں نے گریجویٹ اسکول شروع کیا تو مجھے پیغام رسانی کے لیے فیس بُک، ٹوئٹر اور سلیک پر اکاؤنٹس بنانے پڑے۔ مجھے لگا کہ یہ کام میرے لیے واٹس ایپ بھی کرسکتا ہے لیکن اس وقت امریکا میں واٹس ایپ اتنی مقبول ایپلیکیشن نہیں تھی۔
دوسری جانب میرے ساتھ پڑھنے والے چینی ساتھیوں کو یہ تمام ایپلیکیشنز جدید طرز کی نہیں لگتی تھیں کیونکہ وہ تو اپنے ملک میں وی چیٹ کا استعمال کرتے ہیں جس میں وہ گیمنگ، پیغام رسانی، بلوں کی ادائیگی سے لے کر لائیو اسٹریمنگ بھی کرتے ہیں۔
امریکی طلبہ ان سے کہتے تھے کہ تم لوگوں کے پاس ہماری طرح آزادی رائے کا حق نہیں ہے۔ مارک زکربرگ کی جانب سے صارفین کی رازداری کو پامال کرنے یا وہ آمرانہ حکومتوں کی جانب سے مواد ہٹانے کی درخواستوں پر کیسے عمل کرتے ہیں، امریکی طلبہ کو شاید اس وقت اس بات کا احساس نہیں تھا۔
کلاسز کے دوران امریکی اور چینی طلبہ کے مابین ہونے والی کچھ گفتگو میں نے بھی سنیں جس میں قوم پرستی کی جھلک نظر آئی، ان لوگوں کو برسوں یہی بتایا گیا کہ ان کا ملک اچھا ہے اور وہ برے عناصر سے ان کی حفاظت کررہا ہے۔
اگر آپ نہیں جانتے تو بتاتے چلیں کہ امریکی فوج نے عوام تک انٹرنیٹ کی رسائی کی راہ اس وقت ہموار کی جب امریکی محکمہ دفاع نے ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی قائم کی جس نے 1960ء کی دہائی کے اواخر میں’ آرپینیٹ’ کو بنایا تاکہ تحقیقی اداروں اور مسلح اداروں کے درمیان کمپیوٹر کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے بات چیت ہوسکے۔
انٹرنیٹ کا ظہور سوویت یونین کے حملے کے خدشے کے تحت ہوا۔ امریکا کی جانب سے آرپینیٹ بنائے جانے کے لگ بھگ ایک سال بعد سوویت نے بھی کوشش کی لیکن وہ یہ پروگرام بنانے میں ناکام رہے جسے آج ہم انٹرنیٹ کہتے ہیں۔
طویل عرصے سے دشمنوں کے خلاف ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ کوئی نہ کوئی شے یا ادارہ ہمیشہ سے معلومات کی روانی پر پہرہ دار کی طرح نگرانی کرتا رہا لیکن 1983ء میں انٹرنیٹ آنے کے بعد سب بدل گیا۔ جیسے جیسے انٹرنیٹ ارتقا پاتا گیا ویسے ویسے اس کو دبانے کی کوششیں کی گئیں اور کوششوں کو عمومی طور پر سلامتی کے مسئلے سے منسلک کیا گیا۔
ممالک کیسے اختراعات کو شناخت، استحکام اور قومی مفادات سے منسلک کرتے ہیں، اسے ’ٹیکنو نیشنلزم‘ کہتے ہیں جس کا مقصد عالمی طاقت کو متاثر کرنا ہے۔ مثال کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ نے جاسوسی کے خدشات کے تحت 2019ء میں ہواوے ٹیکنالوجی کمپنی کو بلیک لسٹ کردیا تھا لیکن چینی حکومت کے تعاون سے کمپنی کی دنیائے ٹیکنالوجی میں شاندار واپسی ممکن ہوسکی۔ خبررساں ادارے بلومبرگ کے مطابق امریکا مبینہ طور پر ’روک تھام کی وسیع تر مہم‘ میں اپنے اتحادیوں کو شامل کرنے اور اضافی پابندیوں کے بارے میں سوچ رہا ہے تاکہ چین کی ٹیک طاقت کو محدود کرسکے۔
پاکستان میں 30 ارب روپے کی لاگت سے لگائی جانے والی فائروال سے متعلق چین کی فائروال کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ 2000ء میں چین نے جب گریٹ فائروال تخلیق کی تو اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ ملک سے غیرملکی اثرورسوخ کو دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اس ٹیکنو نیشنلزم کے ذریعے چین نے ٹیکنالوجی اور معیشت میں دیگر ممالک پر سبقت حاصل کی لیکن اس دوران انہوں نے اپنے شہریوں کی آزادی کو داؤ پر لگا دیا۔
مثال کے طور پر ٹیکنالوجی کی دنیا میں اختراعات ہوئیں جس سے روزگار کے مواقع، سرمایہ کاری اور معاشی شرحِ نمو میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔ اگر دیگر ممالک آپ کی ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے لگیں تو شاید اس سے ملک کی برآمدات میں بھی اضافہ ہو۔ اس سب کے سبب عالمی مقابلہ بازی کا بازار بھی گرم ہوسکتا ہے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ چین اور امریکا کیسے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک دوسرے کے حریف بن چکے ہیں۔
’میڈ ان چائنا 2025‘ منصوبے کو تشکیل دیے ایک دہائی مکمل ہونے والی ہے اور تب سے چین مصنوعی ذہانت، روبوٹکس اور خودکارسیلف ڈارائیونگ گاڑیوں کی صنعتوں میں غیرملکی چینز پر انحصار کو کم کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوا۔ چین کے اس منصوبے کو مغرب نے خود کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا۔
مجھے یقین ہے کہ یہی وہ وجہ تھی کہ جو بائیڈن نے چپس اور سائنس ایکٹ 2022ء منظور کیا جس کے تحت اندرون ملک تحقیق اور سیمی کنڈکٹرز کی تیاری کو فروغ دینے کے لیے 280 ارب ڈالرز کی نئی فنڈنگ دی گئی۔
بائیڈن انتظامیہ نے چِپ کی پیداوار کے لیے اربوں کی سبسڈیز، پبلک سیکٹر کی سائنسی تحقیق کے لیے اربوں کی فنڈنگ اور بہت سی مراعات بھی دیں جن کا مقصد چین کی مطابقت میں امریکا کی سپلائی چین کو مضبوط کرنا ہے۔
اب آتے ہیں ہمارے ملک کے ٹیکنو نیشنلزم کی جانب، اس بات سے قطع نظر کہ اس نظام کی نگرانی کون کررہا ہے، ایک جملے میں خلاصہ کیا جائے تو موجودہ روش انتہائی شرمناک ہے۔ اس کا مقصد عالمی سطح پر ہمیں تنہا کرنا ہے جبکہ ٹیک ٹولز فراہم نہ کرکے ہم چین کی طرح دنیائے ٹیکنالوجی میں بااختیار نہیں ہوسکتے۔ ہمارے پاس چینی سپر ایپ ’وائے بو‘ کی طرح کوئی ایپ نہیں۔ ہمارے پاس ویگو گاڑیاں ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ وہ کس مقصد کے لیے ہیں۔
ایک سیاسی جماعت کے نام نہاد گناہوں کی سزا پورے ملک کو دی جارہی ہے۔ فائروال کے حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ ڈیجیٹل دیوار بنانے والوں، اسے نافذ اور اس کا دفاع کرنے والوں کو کبھی بھی معاشی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
تادمِ تحریر پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسنگ ایسوسی ایشن نے خبردار کیا کہ فائروال کی رکاوٹوں کی وجہ سے ملک کو کم از کم 30 کروڑ ڈالرز کا خسارہ ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب کاروباری حضرات بھی سنگین نتائج کے حوالے سے متنبہ کررہے ہیں۔ فری لانسرز کی جانب سے شکایات کی جارہی ہیں کہ فائیور جیسے مقبول ادارے کے ذریعے رقم کمانے کے مواقع ضائع ہورہے ہیں۔
میرا دوست محسن فیشن ڈیزائنر ہے، بتاتا ہے کہ 10 دنوں میں اسے کوئی آن لائن آرڈر موصول نہیں ہوا جوکہ انتہائی غیرمعمولی ہے۔ میں شہریوں کے آزادی اظہار کے حوالے سے کچھ نہیں کہوں گی کیونکہ اس ملک میں کبھی بھی اسے اہمیت نہیں دی گئی لیکن مجھے امید ہے کہ اب چونکہ انٹرنیٹ ملک بھر کے لیے سست ہوچکا ہے، شاید اب شہریوں کے حقوق پر توجہ دی جائے۔
کسی بھی معاملے میں قوم پرستی کو شامل کرنے سے شہریوں کے آزادی اظہار پر قومی سلامتی کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس سے اشرافیہ کو فائدہ پہنچتا ہے جو اپنی مفادات کی خاطر پالیسی سازی پر اثرانداز ہوتے ہیں، تو یہ پاکستان کی متنوع آبادی کے لیے اچھا نہیں۔ اس حوالے سے ایک ایسا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو منطق اور حساسیت پر مبنی ہو۔
ہم تنہا ہونے کے متحمل نہیں ہوسکتے اور اس تباہ کاریوں کو بھی برداشت نہیں کرپائیں گے جو فائروال اپنے ساتھ لے کر آئے گی۔ کوئی اقتدار میں بیٹھے فائروال کے ذمہ دار لوگوں کو سمجھائے کہ اگر وہ اس آگ سے کھیلتے رہے تو آگے چل کر وہ بہت کچھ کھو سکتے ہیں۔