جنگ سے متاثرہ غزہ کی پٹی پر آج سے پولیو مہم کا آغاز ہو رہا ہے جہاں اقوام متحدہ کے ادارے صحت کے مقامی حکام کے ساتھ چھ لاکھ 40 ہزار بچوں کو پولیو کی ویکسینیشن کی مہم کا آغاز ہو رہا ہے۔
پولیو کی اس مہم کا دارومدار اسرائیلی افواج اور حماس کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی میں مقامی وقفوں کی ایک سیریز پر ہے جس کا پہلا مرحلہ اتوار(آج) سے شروع ہونے والا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ 10 سال سے کم عمر کے کم از کم 90 فیصد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین دی جائے گی۔
یاد رہے کہ غزہ میں 25 سالوں میں پولیو کے پہلے تصدیق شدہ کیس کے سامنے آنے کے بعد یہ مہم شروع کی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک حکام کے مطابق اگر اس وائرس پر قابو نہ پایا گیا تو نہ صرف وہاں مزید بچوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے بلکہ وسیع پیمانے پر علاقائی وبا پھیلنے کا خدشہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں پولیو مہم کے دوران تین روز کے لیے جنگ میں وقفے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اسرائیل ان تین روز میں مقامی وقت کے مطابق صبح چھ سے دوپہر تین بجے تک کے وقفے پر راضی ہوا ہے۔
غزہ میں جنگ نے خطے میں تشدد کو کیسے ہوا دی ہے؟
’میرا بیٹا دوسرے بچوں کی طرح جینا اور چلنا چاہتا ہے۔‘
چند ماہ قبل بنائی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ غزہ کی پٹی پر عبدالرحمان ابو جودیان نامی بچہ چند ماہ میں گھٹنوں کے بل چلنا شروع ہو گیا تھا تاہم اب ایک سال کی عمر کو پہنچنے پر وہ چلنے سے قاصر ہے۔
وسطی غزہ میں ایک پرہجوم کیمپ میں مقیم ان کی والدہ ان کی والدہ نوین پریشان ہیں کہ ان کا بچہ شاید اب کبھی نہ چل پائے۔
یہ بہت چونکا دینے والا معاملہ ہے۔ نوین نےاپنے بیٹے کی پولیو کی حالیہ تشخیص کو یاد کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا بیٹا اب جزوی طور پر ایک ٹانگ سے مفلوج ہو گیا ہے۔
’میں اس کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ اب وہ چلنے کے قابل نہیں ہوسکتا کیونکہ بچے کو مناسب طبی دیکھ بھال کے بغیر چھوڑ دیا گیا تھا۔
سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے زیرقیادت ایک غیر متوقع اوربڑے حملے میں 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔
ان دنوں نوزائیدہ عبدالرحمان کو پولیو سے بچاو کے معمول کے ٹیکے لگوائے جانے تھے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔
اس کے بعد ہونے والی جنگ کے دوران، غزہ کے بالکل شمال سے ابو جودیان کا خاندان پانچ مرتبہ مختلف علاقوں میں منتقل ہوا ہے جنمیں پہلے غزہ شہر، پھر مرکز میں مختلف مقامات، بہت دور جنوب میں رفح اور واپس دیر البلاح کی طرف کیمپوں میں وہ مقیم رہے۔
جنگ کے آغاز کے بعد سے تقریباً 90 فیصد غزہ کے باشندے بے گھر ہو چکے ہیں اور وہاں صحت کی شعبے بہت زیادہ دباؤ میں ہیں۔
جنگ کی صورت حال میں زیادہ تر بچے باقاعدہ حفاظتی ٹیکوں سے محروم رہ گئے اور عبدالرحمان کی طرح وہ انفیکشن کا شکار ہو گئے ہیں۔
عبدالرحمان کی والدہ نوین نے مزید بتایا،
’میں اپنے بیٹے کی ویکسینیشن نہیں کرانے پر خود کو مجرم محسوس کرتی ہوں لیکن میں اپنے حالات کی وجہ سے مجبور رہی۔ ‘
نوین کو امید ہے کہ ان کے بیٹے کو علاج کے لیے غزہ سے باہر لے جایا جائے گا۔
’میرا بیٹا دوسرے بچوں کی طرح جینا اور چلنا چاہتا ہے۔‘
نوین جنگ کے بعد سے مسلسل پریشانیوں میں گھری ہوئی ہیں۔ انھیں اپنے نو بچوں کے لیے پینے کا صاف پانی تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ہوتی ہے۔
عارضی خیمے کے قریب، جہاں وہ رہتے ہیں، گلی سے سیوریج کا پانی بہتا ہے اور یہ حالات بیماریوں کے پھیلاؤ کے لیے مثالی ہیں خاص طور پر پولیو جو کہ انتہائی متعدی مرض ہے۔
جون میں لیے گئے گندے پانی کے نمونوں میں وائرس کی دریافت کے بعد سے اقوام متحدہ کی ایجنسیاں ہنگامی طور پر بڑے پیمانے پر ویکسینیشن پروگرام قائم کرنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔
خیال رہے کہ غزہ میں پانچ روز پہلے ایک 10 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی نشاندہی ہوئی تھی، یہ غزہ میں 25 سال بعد رپورٹ ہونے والا پہلا پولیو کیس ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے چھ لاکھ 40 ہزار سے زیادہ بچوں کو پولیو ویکسینیشن کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق غزہ میں پولیو ویکسینیشن مہم یکم ستمبر سے شروع کی جائے گی اور پولیو ویکسینیشن کے دوران غزہ جنگ میں انسانی بنیادوں پر وقفہ ہوگا۔
دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے بھی پولیو ویکسینیشن مہم کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ میں انسانی بنیادوں پر وقفےکی درخواست کا خیر مقدم کیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے کا کہنا ہے اس مہم میں تین الگ الگ مراحل میں، پٹی کے وسطی، جنوبی اور شمالی حصوں میں پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔
ڈبلیو ایچ او کا مقصد پوری پٹی میں ویکسین کی 90 فیصد کوریج حاصل کرنا ہے، جو غزہ کے اندر وائرس کی منتقلی کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔