دریائے سندھ میں ڈولفنز کو لاحق شدید خطرات

Pinterest LinkedIn Tumblr +

ذوالفقار علی بھٹو

’دریائے سندھ میں پنجاب کے تمام دریاؤں کا پانی شامل ہے‘۔

یہ الفاظ 1902ء کی انڈیا کمیشن رپورٹ میں لکھے گئے۔ آج جنوبی ایشیا کا طویل ترین دریائے سندھ، پنجاب سے نکلنے کے بعد اس کا پانی بہ مشکل ہی آگے جا پاتا ہے اور 300 کلومیٹر دور سمندر میں ملنے تک اس کا راستہ تقریباً خشک ہوچکا ہے۔

محققین نے پیش گوئی کی ہے کہ 2040ء تک پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ پانی کی کمی کا سامنا ہوگا جس کے لیے ہمارے فرسودہ نظام آب پاشی سے پانی کا اخراج اور پانی کا ضیاع کافی حد تک ذمہ دار ہوگا۔

سائنسدان دریائی ڈولفن کو اشاریے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ میٹھے پانی کے ماحولیاتی نظام میں ڈولفنز کی صحت اور بقا پانی کے معیار کی جانب اشارہ کرتی ہے جو انسانوں کو بتاتا ہے کہ آیا دریا کا پانی اچھا ہے یا نہیں۔

اسی طرح یہی کام دریائے سندھ کے لیے دریائے سندھ کی ڈولفنز کرتی ہیں۔ دریائی ڈولفنز جنہیں 1969ء میں معدوم قرار دے دیا گیا تھا، مقامی لوگوں، سندھ کے محکمہ جنگلی حیات اور بہت سے دیگر افراد کی مدد سے 1972ء میں 100 ڈولفنز معجزانہ طور پر بازیافت ہوئیں جبکہ ورلڈ وائلڈلائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق 2017ء میں ان کی تعداد 2 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ سروے میں سامنے آیا کہ پاکستان کی 60 فیصد دریائی ڈولفنز سندھ میں ہی پائی جاتی ہیں۔

تاہم گزشتہ سرویز کے برعکس 2022ء میں ہونے والے آخری سروے میں سامنے آیا کہ پنجاب کے خطے میں ڈولفنز کی تعداد میں اضافے کے آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ اس کے علاوہ شمالی سندھ جوکہ ڈولفن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے وہاں مطالعہ کرنا باقی ہے کیونکہ تواتر سے سیلاب کا سامنا کرنے والے ان علاقوں میں ڈاکوؤں کا غلبہ ہے۔

خراب موسم، شمالی علاقوں میں نئے ڈیمز کی تعمیر اور پنجاب میں دریائے سندھ سے پانی لینے کے منصوبوں کی وجہ سے دریائے سندھ میں ڈولفنز کی بقا داؤ پر لگی ہے۔

ماحولیاتی نظام خطرے میں

دریائے سندھ کی ڈولفن—تصویر: اسامہ مقصود

دریائے سندھ کی ڈولفن—تصویر: اسامہ مقصود
قدیم انڈس ویلی سیویلائزیشن کے دور سے کینال ہمارے زمینی منظرنامے کا حصہ رہے ہیں جنہیں انگریزوں، پاکستان فوج اور عالمی بینک نے وسعت دی۔ یہ کینال فصلوں کے لیے ضروری پانی کی فراہمی کا سبب بنتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سے زرخیز، کاشت کی زمینوں کی تعداد میں کمی بھی واقع ہوتی ہے۔

جب آب پاشی کی وجہ سے زیادہ پانی کھیتوں میں جاتا ہے تو نمک کے ذخائر بنتے ہیں کیونکہ پانی تیزی سے بخارات نہیں بن پاتا۔ یہ کلیدی وجہ ہے کہ زرخیز زمینوں پر برف نما سفید نمک جم جاتی ہے اور یہ زمین فصلیں اُگانے کے لیے زرخیز نہیں رہتیں۔

2008ء کے ایک تحقیقی مطالعے میں پاکستان کے سندھ طاس میں نمکیات، پانی کی لاگت اور زرعی معیشت کو ہونے والا معاشی نقصانات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق دریائے سندھ کے آب پاشی نظام میں شامل 43 فیصد زمین میں پانی کی سطح انتہائی کم ہے جوکہ 3 میٹر سے بھی کم ہے اور اس سے 71 لاکھ ہیکڑ زمین متاثر ہورہی ہے۔

دہائیوں سے لوگ کوششوں میں مصروف ہیں لیکن زمینوں میں زائد پانی جمع ہونے اور نمکیات کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مؤثر تجاویز سامنے نہیں آسکی ہیں۔ ایک تجویز کردہ حل 1970ء کی دہائی میں سامنے آیا کہ ٹیوب ویل لگائی جائیں تاکہ زمین سے زائد پانی کی نکاسی ہوسکے اور یہ بالخصوص موہن جو ڈرو کو نمکیات کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔ تاہم یہ تجویز اس طرح کارگر ثابت نہ ہوسکی جیسی کہ امید کی گئی تھی۔

کھیتوں میں آب پاشی کے ذریعے زیادہ پانی اور نمکیات روکنے کا ایک اور حل یہ بھی ہے کہ یہاں مقامی پودے لگائے جائیں جیسے کہ تماریسک اور نمک کی جھاڑیاں جوکہ دریا کنارے لگے جنگلات میں عام ہیں۔ تاہم اس عمل کے ذریعے زمین کو اپنے نقصان کی تلافی کرنے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔

2022ء کے انڈس ریور ڈولفن نیشنل سروے کے دوران لیہ میں

2022ء کے انڈس ریور ڈولفن نیشنل سروے کے دوران لیہ میں

پہلے ہی تناؤ کا شکار دریائی ماحولیاتی نظام کو مزید نقصان موسمیاتی تبدیلی نے پہنچایا ہے۔ 2010ء میں گلیشیئرز پگھلنے سے آنے والے سیلاب سے پاکستان کا پانچواں حصہ ڈوب گیا تھا، 2011ء میں ایک اور بڑا سیلاب آیا جس میں سندھ کو شدید نقصان پہنچا۔ تاہم 2022ء میں ہم نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب دیکھا جہاں ملک کے ایک تہائی حصے نے اس کے مضمرات کا سامنا کیا۔

جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے، خشک سالی کا خطرہ تلوار کی مانند ہمارے سروں پر لٹک رہا ہے جبکہ ہیٹ ویوز ہر سال بد سے بدتر ہورہی ہیں۔ جون میں کراچی کی طویل ہیٹ ویو میں کم از کم 49 افراد اپنی جانوں سے گئے جبکہ ریلیف ورکز کہتے ہیں کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے زیادہ تھی۔

گزشتہ سال برازیل نے ایک سنگین مسئلے کا سامنا کیا۔ 2 اکتوبر 2023ء کو ٹیفے جھیل ایمازون دریا کی 120 ڈولفنز مردہ پائی گئیں۔ ان کے مرنے کی وجوہات خشک سالی اور شدید گرمی بتائی گئی کہ جس میں پانی کا درجہ حرارت 43 ڈگری تک پہنچ گیا۔ ایک ایسے دریائی نظام میں اس نوعیت کے واقعے کا پیش آنے سے جو ہمارے اپنے نظام سے بہت زیادہ بہتر ہے، ہمیں اپنے دریا کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہونا چاہیے۔

ایمازون دریا کا طاس جہاں سے بہت سے دریا، نہریں، قدرتی کینال اور چینلز بہتے ہیں وہاں ڈولفنز کسی رکاوٹ کے بغیر آزادی سے تیرتی ہیں۔ ایمازوں کے برعکس دریائے سندھ میں افسوس ناک طور پر ڈولفنز کو تیرنے کے لیے صرف ایک ہی چینل دستیاب ہے جس میں بھی 6 بیراج اور ایک ڈیم ان کے راستے میں رکاوٹ کی مانند موجود ہیں۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ ہمارے ملک کی 60 فیصد ڈولفنز (جنہیں مقامی سطح پر بولہن کہا جاتا ہے) سندھ میں پائی جاتی ہیں۔ چونکہ یہ نشیبی علاقہ ہے اس لیے بالائی علاقوں میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ ڈولفنز بھی ماثر ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کی سطح میں معمولی سی تبدیلی بھی بہت سے دریائی مخلوق کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے جبکہ یہ دریا کنارے رہنے والے لوگوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔

دریائے سندھ کی صورتحال

پنجاب میں لیہ کے قریب دریائے سندھ کے اوپر فلیمنگو کا جھنڈ—تصویر: اسامہ مقصود

پنجاب میں لیہ کے قریب دریائے سندھ کے اوپر فلیمنگو کا جھنڈ—تصویر: اسامہ مقصود

خشک موسم کے دوران دریائے سندھ کے جنوبی حصے سکھر بیراج کا دورہ کافی پریشان کن ثابت ہوا۔ پنجاب کا دریائے سندھ واقعی ایشیا کا ’شیر دریا‘ ہے کیونکہ یہاں اس کی چوڑائی 35 کلومیٹر ہے جبکہ اس میں ہزاروں جزائر بھی موجود ہیں۔

لیکن 15 بیراجز اور 150 چھوٹے بڑے ڈیمز کے اس سلسلے نے دریائے سندھ جیسے بڑے دریا کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ سندھ میں دریا تو 200 میٹر تک بھی مشکل سے چوڑا ہوتا ہے جبکہ یہاں اوسط گہرائی بھی 3 فٹ ہے اور اپنے اختتام تک سمندر میں جانے سے قبل تو یہ مکمل طور پر خشک ہوجاتا ہے۔

جنوری 2023ء میں سکھر کے ایک دورے میں، میں نے سندھو ماں کا بھی دورہ کیا اور سادھو بیلہ کے مشہور جزیرے پر بنے مندر تک جانے کے لیے ایک کشتی پر سفر کیا۔ وہ علاقہ کہ جہاں پہلے دریا ساحل کو اپنے گھیرے میں لے لیتا تھا اب وہاں پانی کی سطح 20 فٹ تک کم ہوچکی ہے۔

سادھو بیلہ پر بنے مندر کی سیڑھیاں بھی پہلے دریائے سندھ کے پانی میں ڈوب جاتی تھیں جبکہ یہ دریائے سندھ کی سرمئی گاد سے ڈھکا ہوا تھا۔ دریا کے کنارے جنگلات کی کٹائی اور بیراجز کی تعمیر کی وجہ سے حالیہ برسوں میں گاد کی بلندی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ڈھانچہ گاد کو نیچے ڈیلٹا کی طرف جانے سے روکتا ہے جبکہ یہ سمندری پانی کی مداخلت بھی روکتے ہیں اور یوں جزیرے پر بنا یہ مندر اپنی جگہ ٹھہرا رہتا ہے۔

سادھو بیلہ مندر کے ایک عقیدت مند اور مندر کمیٹی کے رکن مہیش کمار نے ریت کے ٹیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا، ’جب ہم بچے تھے تو گاد کبھی بھی مسئلہ نہیں بنا۔ بچپن میں ہم خشک موسم میں ان سیڑھیوں پر چلتے تھے،‘

سکھر میں پاکستان کی سب سے زیادہ ڈولفنز پائی جاتی ہیں۔ میں 2005ء سے ڈبلیو ڈبلیو ایف اور محکمہ جنگلی حیات سندھ کے ساتھ مل کر ان ڈولفنز کی تحفظ کی کوششوں میں مصروف ہوں۔ 2022ء میں مجھے انڈس ڈولفن سروے کا حصہ بننے کا اعزاز ملا اور اب میں پاکستان کے 4 صوبوں میں سے تین میں ڈولفنز دیکھ چکا ہوں۔

پنجاب اور سندھ کے دریا کے درمیان فرق انتہائی نمایاں ہے۔ پنجاب میں دریا چوڑائی میں زیادہ اور طاقتور ہے جبکہ سندھ آنے تک اس کی چوڑائی بہت کم ہوجاتی ہے جبکہ موسم سرما میں تو ہم کچھ حصوں پر چل کر ہی دریا پار کرسکتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کا نقصان

مصنف (درمیان) 2006ء میں خیرپور میں اپنے پہلے ڈولفن ریسکیو میں حصہ لے رہے ہیں

مصنف (درمیان) 2006ء میں خیرپور میں اپنے پہلے ڈولفن ریسکیو میں حصہ لے رہے ہیں
موسمیاتی تبدیلی پر مغرب کو بھی موردالزام ٹھہرایا جاسکتا ہے لیکن متعلقہ معاملہ عالمی سے زیادہ مقامی ہے۔ 1960ء کا پاک-بھارت سندھ طاس معاہدہ دریائے سندھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ عالمی بینک جس کی ثالثی میں یہ معاہدہ طے ہوا، اس نے نئے بیراج بنانے کے لیے رقم فراہم کی۔ ان میں سے ایک کوٹری بیراج ہے جوکہ دریائے سندھ کے آخری بیراجز میں شامل ہے۔ یہ نہروں میں جانے والے پانی کو روکتا ہے۔ خشک مہینوں میں دریائے سندھ کے 300 کلومیٹر کی سمندری پٹی پر کوٹری سے آگے پانی ہی نہیں آتا۔

کوٹری بیراج کی وجہ سے ٹھٹہ اور بدین سے سندھ کے دیگر اضلاع میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔ سمندر آگے آنے کی وجہ سے تقریباً ہزاروں ایکڑ زمین کو نقصان پہنچایا ہے اور اس کے دریا کے بالائی بہاؤ پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

کچھ لوگ بیراجز اور ڈیمز کی تعمیر کو سراہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے دریا کا پانی سمندر میں جا کر ضائع نہیں ہوتا۔ اب وقت ہے کہ پوچھا جائے کہ یہ پانی ضائع کون کرتا ہے؟

جب دریا، سمندر سے منقطع ہوجاتا ہے تو ہائیڈرولوجیکل سائیکل میں خلل آتا ہے۔ ہائیڈرولوجیکل سائیکل تمام دریاؤں کے نظام پر کام کرتا ہے۔ یہ وہی سائیکل ہے کہ بارش کے بادل سمندر میں بنتے ہیں اور یہ دریا کے ڈیلٹا علاقے تک سفر کرتے ہیں اور اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر برستے ہیں اور دریا کو پانی سے بھر دیتے ہیں۔ اس سائیکل سے نہ صرف دریا بلکہ زیرِزمین پانی کے ذرائع اور گلیشیئرز میں بھی پانی جمع ہوتا ہے۔ گلیشیئرز پگھلتے ہیں، دریا بھر جاتے ہیں، پانی سمندر میں پہنچتا ہے اور یہ پھر بخارات بن کر بادل بناتا ہے اور پھر یہ سلسلہ بار بار سائیکل کی صورت میں چلتا رہتا ہے۔

پہلے پاکستان میں دو مون سون آتے تھے۔ ایک بحیرہ عرب سے دریائے سندھ کے راستے پر چلتا جبکہ دوسرا خلیجی بنگال سے گنگا کے راستے آتا ہے۔ موجودہ دور میں ہمیں صرف خلیجی بنگال کے مون سون کی بچی کچی بارشیں ملتی ہیں۔

تاہم ہمارے گلیشیئرز انتہائی تیزی سے پگھل رہے ہیں اور اس سے پاکستان کے دو بڑے ڈیموں تربیلا اور منگلا میں پانی کی کمی واقع ہورہی ہے۔ جب گلیشیئرز پگھلتے ہیں تو پانی کا بپھرا ریلا آتا ہے اور یہ اپنے ساتھ تودے، مٹی اور پتھر لے کر آتا ہے جنہیں جنگلات نے ایک جگہ سنبھالا ہوا ہوتا ہے۔ یہ تودے ڈیمز اور بیراجز کے پیچھے جمع ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ڈیم میں پانی کم آتا ہے اور پانی کے اسٹوریج میں بھی نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔

ٹیفے جھیل میں جو ہوا وہ صرف اس کی ایک جھلک ہے جبکہ پاکستان کو مستقبل میں اس سے بھی خراب حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

’دریائے سندھ آخری سانسیں لے رہا ہے‘
دریائے سندھ کا پانی کشمیر اور تبت میں گلیشیئرز کی تیزی سے پگھلنے کے سلسلے منحصر پر ہے۔ اس پانی کو بھی ذخیرہ کرنے کی غرض سے مختلف مقامات پر روک لیا جاتا ہے۔ جنوب میں میٹھے پانی کے دیگر ذرائع جیسے کہ کوہ سلیمان، کیرتھر پہاڑیوں، اروڑ پہاڑیوں اور کاٹھور سب ہی کو برابر کیا جا رہا ہے، وہاں کان کنی کی جا رہی ہے یا ریئل اسٹیٹ بنائے جارہے ہیں۔ ہم خود اپنے اقدامات سے منظم طریقے سے پانی کے ذرائع کا خاتمہ کررہے ہیں۔

کسی دور میں سندھ کو پانی کے وسائل میں مالا مال سمجھا جاتا تھا جس کا پانی بحیرہ عرب اور رن کچ میں شامل ہوتا تھا۔ موسم گرما میں ایک بڑا دلدلی علاقہ جسے ’میٹھا سمندر‘ کہا جاتا ہے، وہ سیہون کو ملتان سے جوڑتا اور ایک اور ایسا ہی دلدلی ٹکڑا گجرات کو ٹھٹہ سے جوڑتا تھا۔ موسمِ سرما میں پانی کا بہاؤ کم ہوجاتا اور سندھ کے گھنے جنگلات بڑھتے اور دنیا بھر سے ہجرت کرکے آنے والے ہزاروں پرندوں کو اپنی جانب راغب کرتے۔

19ویں صدی کے وسط میں انگریز جنرل ہینری پوٹنگر نے تبصرہ کیا کہ ’جنگل اور وسیع خطوں کو اب تامریسک جھاڑیوں اور رینک کی پودوں نے گھیر لیا ہے تاہم اسے دوبارہ کاشت کاری کے لیے موزوں بنایا جاسکتا ہے‘۔ یہ جملہ ہمارے مقامی لوگوں کے ساتھ دریائے سندھ کے تعلق کی داستان سناتا ہے۔ سندھ جہاں پہلے 40 فیصد جنگلات تھے، 1974ء میں یہ شرح کم ہوکر 25 فیصد رہ گئی لیکن اگر آج کے دور کی بات کی جائے تو اندازے کے مطابق سندھ میں صرف 2.5 فیصد جنگلات ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ اب ہم دریائے سندھ کو صرف جانداروں کے ایک ماحولیاتی نظام کے حوالے سے نہیں سمجھیں بلکہ یہ تو مجموعی طور پر مصائب میں گھرا ہے اور اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اب ہم عدم مساوات کو عام سمجھنے لگے ہیں کہ شمال کو سندھ کے مقابلے میں زیادہ پانی مل رہا ہے۔ تاہم تاریخ الگ داستان سناتی ہے جس کے مطابق کسی زمانے میں سندھ ایک نخلستان تھا۔

آج بھی ہمارے ملک میں ماحولیاتی نظام کو بچانے کے لیے خاطر خواہ متحدہ کوششیں نہیں کی جارہیں۔ اس کے بجائے ہم ایسے پرانے اور آزمودہ طریقے پر انحصار کررہے ہیں جو پانی کو ذخیرہ کرنے پر مرکوز ہے۔ یہ صوبوں کے درمیان عدم مساوات کا سبب بن رہا ہے جبکہ جانداروں کو لاحق سنجیدہ مسائل کے لیے کوئی پائیدار حل فراہم نہیں کیا جارہا۔

سائنس تو واضح طور پر کہتی ہے کہ دریا کو پھلنے پھولنے کے لیے سمندر درکار ہوتا ہے۔ دریائے سندھ کے ماحولیاتی نظام کا حصہ انسان بھی ہیں اور ہم ہی اسے بچا سکتے ہیں۔

Share.

Leave A Reply