وہ شخص جو اب ڈھاکہ کی سڑکوں پر بارش میں گھوم پھر رہا ہے، اس نے پانچ سال سے زائد عرصے تک سورج نہیں دیکھا۔ اتنے عرصے بہت کم روشنی میں گزارنے کے بعد اب ابر آلود دن بھی اس کی آنکھیں اتنی روشنی کی طرف بھی دیکھ کر چندھیا رہی تھیں۔
وہ شخص جس عقوبت خانے میں تھا، وہاں اسے صرف پرانے زمانے کے پنکھوں کی آوازیں اور ان قیدیوں کی چیخیں سنائی دیتی تھیں جن پر تشدد ہوتا تھا۔
ایک سڑک پر کھڑا یہ شخص اب اپنی بہن کے فون نمبر کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس جگہ سے کوئی 200 کلومیٹر کے فاصلے پر وہی بہن اس عقوبت خانے میں قید رہنے والوں کی کہانیاں پڑھ رہی تھیں جو فوجی انٹیلیجنس ہیڈکوارٹرز کی بدنام زمانہ جیل ’ہاؤس آف مررز‘ جسے بنگلہ زبان میں ’اینا گور‘ اور اردو میں ’آئینہ گھر‘ کہا جاتا ہے، میں رکھا گیا۔
یہ زیادہ تر وہ لوگ تھے جو شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت میں اغوا کیے گئے اور پھر یہاں قید رکھے گئے تھے۔ یہ ایک ایسا دور تھا جس میں حکومت پر تنقید کرنے والے اگلے دن یہاں پر ہوتے تھے۔
شیخ حسینہ اب طلبہ تحریک کی وجہ سے ملک سے فرار ہو چکی ہیں اور یہاں قید کیے گئے افراد کو اب رہا کیا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیش کے ایک دور دراز علاقے میں ایک نوجوان خاتون اپنے کمپیوٹر کو یہ جاننے کے لیے گھور رہی ہیں کہ کہیں ان کے بھائی بھی ان لوگوں میں تو نہیں جنھیں وہاں سے رہائی ملی؟
انھوں نے ہر دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بے بس ہو کر اس بھائی کا جنازہ بھی پڑھ لیا تھا۔ جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ انھیں ان کے زندہ بچ جانے کی امید نہیں تھی اور پھر انھوں نے دل کو تسلی دینے کے لیے آخری رسومات تک ادا کر دیں۔
ڈھاکہ میں اپریل 2019 میں جس دن مائیکل چکما نامی اس نوجوان کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر کچھ نامعلوم افراد نے انھیں زبردستی ایک کار میں پھینکا تو اس وقت انھوں نے یہی سمجھا کہ اب ان کی زندگی کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔
وہ برسوں سے بنگلہ دیش کے جنوب مشرقی حصے چٹاگانگ کے پہاڑی علاقے کے لوگوں کے حقوق کے لیے مہم چلا رہے تھے اور یوں حکام کی نظروں میں آ گئے تھے۔
مائیکل کا تعلق بدھ مت سے ہے جو بنگلہ دیش کی 170 ملین مسلم اکثریتی آبادی کا محض دو فیصد ہیں۔
مائیکل کی تلاش کے لیے ایک بھرپور مہم چلائی گئی اور سنہ 2020 میں ہائیکورٹ میں ایک پیٹیشن بھی دائر کی گئی مگر انھیں کوئی صحیح جواب نہ مل سکا
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مائیکل فوج کی طرف سے چٹاگانگ ہل کے علاقے میں آباد بدھ مت آبادی سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کے خلاف ایک آواز بن کر ابھرے تھے۔ انھوں نے اس علاقے سے فوجی تسلط کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔
جس دن انھیں اغوا کیا گیا اس کے اگلے دن وہ ’آئینہ گھر‘ کے ایک سیل میں پہنچا دیے گئے تھے۔ یہ دارالحکومت ڈھاکہ میں ’ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فورسز انٹیلیجنس‘ کے زیر استعمال ایک کمپاؤنڈ کے اندر واقع سیل تھا۔
مائیکل کے مطابق انھیں جس سیل میں قید رکھا گیا تھا اس کی نہ کوئی کھڑکی تھی اور نہ وہاں دھوپ آتی تھی۔ وہاں صرف دو ‘ایگزاسٹ فین‘ تھے جن کی آواز کانوں میں پڑتی تھی۔ ان کے مطابق یہاں کچھ عرصے بعد وقت اور دن کا احساس کھو جاتا ہے۔
ان کے مطابق ’میں وہاں دوسرے قیدیوں کی چیخوں کی آوازیں سنتا تھا، اگرچہ میں انھیں دیکھ نہیں سکتا تھا مگر ان کی چیخیں بہت خوفناک تھیں۔‘
انھیں جو خود پتا چلا وہ یہ تھا کہ یہ چیخیں اس سیل میں موجود دیگر قیدیوں کی تھیں جن سے تفتیش کی جا رہی تھی۔
ان کے مطابق وہ مجھے ایک کرسی سے باندھ دیتے تھے اور پھر زور سے اسے گھماتے تھے۔ وہ اکثر مجھے بجلی کا کرنٹ لگانے کی دھمکی دیتے تھے۔
مائیکل کے مطابق ’وہ مجھ سے کہتے تھے کہ آپ شیخ حسینہ واجد پر تنقید کیوں کرتے ہیں۔‘
اس حراستی مرکز کے باہر مِنٹی چکما کو اپنے بھائی کا غم کھا رہا تھا۔ ان کے مطابق وہ اپنے بھائی کی تلاش میں کئی پولیس تھانوں میں گئیں مگر پولیس یہ کہتی تھی کہ انھیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں اور وہ پولیس حراست میں نہیں۔
’اس کے بعد کئی مہینے گزر گئے اور ہمارا درد کرب میں بدل گیا۔ میرے والد کی بھی صحت خراب ہونا شروع ہو گئی۔‘
مائیکل کی تلاش کے لیے ایک بھرپور مہم چلائی گئی اور مِنٹی نے سنہ 2020 میں ہائیکورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کی مگر انھیں کوئی صحیح جواب نہ مل سکا۔
ان کے مطابق ’پورا خاندان ایک صدمے اور اذیت سے گزر رہا تھا۔ اپنے بھائی کے بارے میں کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ انھیں کہا رکھا گیا۔‘
پھر سنہ 2020 میں مائیکل کے والد کورونا وائرس کی وبا سے فوت ہو گئے۔ اس کے 18 ماہ بعد خاندان والوں نے یہ سوچا کہ مائیکل بھی مر چکے ہوں گے۔
منٹی کے مطابق ہم امید کھو چکے تھے۔ لہٰذا بدھ مت کی رسومات کے مطابق ’ہم نے ان کی آخری رسومات ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے بھاری دل سے ایسا کیا۔ ہم سب بہت چیخے چلائے۔‘
بنگلہ دیش میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انھوں نے سنہ 2019 میں شیخ حسینہ واجد کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سے جبری گمشدگیوں کے 600 سے زیادہ مقدمات کا ریکارڈ مرتب کیا۔
اس سے اگلے سال شیخ حسینہ واجد پر یہ الزامات بھی لگے کہ وہ اپنے ناقدین اور مخالفین کی آواز دبانے کے لیے ان کو ہدف بنا رہی ہیں تاہم انھوں نے اور ان کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق کچھ نام نہاد گمشدہ افراد کو رہا کیا گیا یا پھر انھیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ کچھ ایسے بھی تھے جن کی لاشیں ملی ہیں۔ اس تنظیم کے مطابق ابھی تک 100 کے قریب لوگ لاپتہ ہیں۔
بنگلہ دیش کی سکیورٹی ایجنسیز کی خفیہ جیلوں سے متعلق افواہیں لاپتہ افراد کے لواحقین اور دوستوں تک بھی پہنچیں۔
منٹی نے جب لاپتہ کیے جانے والے افراد سے متعلق تفصیلی ویڈیو دیکھی تو انھیں یہ امید پیدا ہوئی کہ کہیں نہ کہیں ان کے بھائی بھی موجود ہوں گے مگر ڈھاکہ میں ان خفیہ مراکز کے بارے میں پہلی بار اس وقت پتا چلا جب نیٹرا نیوز نے مئی 2022 کو ایک تحقیقاتی خبر شائع کی۔
اس خبر کے مطابق یہ حراستی مرکز ڈھاکہ کے مرکز میں واقع ملٹری کیمپ میں موجود ہے۔ اس خبر میں اس سیل میں رہنے والوں کے احوال بھی شائع ہوئے۔
جس طرح کے حالات یہاں قید رہنے والوں نے سنائے وہ مائیکل کی طرف سے سنائے جانے والے متعدد واقعات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انھیں برس ہا برس سورج کی دھوپ تک دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔
ان میں سے ہی ایک معروف زمان ہیں۔ جو بنگلہ دیش کے قطر اور ویتنام میں سابق سفیر رہ چکے ہیں، جنھیں پہلی بار سنہ 2017 میں ’آئینہ گھر‘ میں قید رکھا گیا تھا۔
اگرچہ انھوں نے حکام کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اس سیل کے واقعات عام نہیں کریں گے مگر اس حراستی مراکز میں گزرے اپنے 15 ماہ کے بارے میں انھوں نے بی بی سی کو تفصیلات بتائیں۔
دوسرے قیدیوں کی طرح جنھوں نے اس حراستی مرکز میں قید کاٹی انھیں بھی یہ ڈر تھا کہ اگر انھوں نے اس متعلق کچھ بولا تو پھر کوئی مصیبت ٹوٹ سکتی ہے۔
نیٹرا نیوز سے سنہ 2022 میں اس حراستی مرکز کے صرف ان سابقہ قیدیوں نے بات کی جو اس وقت بنگلہ دیش میں نہیں رہ رہے تھے۔
معروف زمان اس وجہ سے اب بولنے کے لیے آمادہ ہوئے کہ شیخ حسینہ واجد خود فرار ہو چکی ہیں اور ان کی حکومت پانچ اگست کو ختم ہو چکی ہے۔
انھوں نے تفصیلات بتائیں کہ کیسے انھیں کمرے میں بغیر دھوپ کے رکھا گیا۔ ان کے مطابق دو پنکھوں کی آوازوں کے علاوہ باہر سے بھی آوازیں آتی تھیں۔ ان سے ان کے حکومت کی بدعنوانی پر لکھے گئے کالموں سے متعلق پوچھ گچھ ہوتی تھی۔
ان کے مطابق ’پہلے ساڑھے چار ماہ تو جیسے موت کے کنویں میں گزرے۔ وہ مسلسل مارتے تھے، دھکے دیتے اور گن پوائنٹ پر دھمکیاں دیتے۔ یہ ناقابل برداشت تھا۔ میں نے سوچا کہ صرف موت ہی مجھے اس عذاب سے باہر نکال سکتی ہے۔‘
مائیکل کے برعکس انھیں کسی اور عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ’میں نے مہینوں بعد پہلی بار کسی پرندے کے چہچہانے کی آواز سنی اور یہ اتنی سریلی تھی کہ میں اپنے احساسات بیان نہیں کر سکتا۔‘
ان کی بیٹی اور چاہنے والوں کی مہم کے بعد انھیں سنہ 2019 میں مارچ کے اختتام پر رہا کر دیا گیا۔ اس کے ایک ماہ بعد مائیکل کو اس سیل میں ڈال دیا گیا۔
کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی اعلیٰ قیادت کو بتائے بغیر شاید جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل ہوتے تھے۔
مائیکل چکما جیسے لوگ ان خفیہ عقوبت خانوں میں برسوں پڑے رہے مگر شیخ حسینہ واجد، ان کے وزرا اور عالمی امور کے مشیر گوہر رضوی اغوا جیسے الزامات کی تردید کرتے رہے۔
شیخ حسینہ کے بیٹے سجید واجد ابھی بھی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ وہ یہ الزامات سکیورٹی اداروں پر عائد کرتے ہیں کہ فوجی قیادت میں کچھ لوگوں نے بغیر بتائے بالائے قانون اقدامات اٹھائے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ اس بات سے مکمل طور پر متفق ہیں کہ یہ ہر لحاظ سے غلط ہے۔ میرا یہ یقین ہے کہ یہ احکامات اعلیٰ سطح سے نہیں آئے۔ مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ اس کے بارے میں سن کر مجھے صدمہ ہوا۔‘
مائیکل کے علاوہ ’آئینہ گھر‘ سے اور بھی بڑے بڑے نام سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر عبدالہیٰ امان عظمی اور بیرسٹر احمد بن قسیم شامل ہیں۔
ان دونوں نے خفیہ حراستی مرکز میں آٹھ برس گزارے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے ترجمان روینا شمداسانی کا کہنا ہے کہ یہ بات تو واضح ہو گئی کہ مائیکل سمیت متعدد سیاستدانوں اور کارکنان ان حراستی مراکز میں رکھا گیا اور ’اب بنگلہ دیش میں نئی انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سکیورٹی ایجنسیز کو پابند بنائے کہ وہ ایسے تمام خفیہ حراستی مراکز کی تفصیلات سامنے لائیں اور جو لوگ ابھی بھی لاپتہ ہیں ان کے بارے میں بھی بتائیں۔‘
معروف زمان کو پہلی بار سنہ 2017 میں ’آئینہ گھر‘ میں قید رکھا گیا تھا
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اس بات سے اتفاق کیا ہے۔ حکومت نے چند دن قبل شیخ حسینہ واجد کے دور میں 2009 سے سکیورٹی ایجنسیز کی طرف سے جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے ایک پانچ رکنی کمیشن تشکیل دیا ہے اور ایسے لوگ جو زندہ ہیں ان پر جو قیامت گزری، وہ انصاف کے متلاشی ہیں۔
معروف زمان کا کہنا ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ذمہ داران کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے اور تمام متاثرین اور ان کے خاندان والوں کو معاوضہ ادا کیا جائے۔‘
شیخ حسینہ واجد کے بنگلہ دیش چھوڑنے کے دو دن بعد آئینہ گھر کے سامنے کھڑے مائیکل یہ سوچ رہے تھے کہ اب کیا کیا جائے۔
انھیں 15 منٹ قبل ہی ان کی رہائی کے بارے میں خبر ملی۔ اب بہت کچھ ان کے ذہن میں چل رہا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’میں اپنی بہن کے فون نمبر کے آخری دو ہندسے بھول گیا۔ میں نے بہت کوشش کی مگر میں ان ہندسوں کو یاد نہ کر سکا۔ اس کے بعد میں نے ایک رشتہ دار کو کال کی جنھوں نے پھر گھر والوں کو میرے بارے میں خبر سنائی۔‘
آنسوؤں میں تر منٹی نے بتایا کہ ’میں بہت پرجوش تھی۔ اگلے دن انھوں (مائیکل) نے مجھے کال کی۔ میں نے اس ویڈیو کال پر انھیں پانچ سال بعد دیکھا تھا۔ ہم سب چلا رہے تھے۔ میں انھیں پہچان بھی نہ سکی۔‘
گذشتہ ہفتے ان دونوں بہن بھائی کی پانچ سال بعد براہ راست ملاقات بھی ہو گئی۔ مائیکل بہت کمزور لاغر مگر زندہ اپنی بہن کے سامنے موجود تھے۔
منٹی کے مطابق ’ان کی آواز مختلف لگ رہی تھی۔‘ مائیکل بہت عرصے اندھیرے میں رہنے کی وجہ سے اب کئی طرح کے صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔
ان کے مطابق ’میں فون نمبر اور ناموں پر غور نہیں کر سکتا۔ مجھے دھندلا نظر آتا ہے۔ اب میں علاج کروا رہا ہوں اور ڈاکٹروں نے مجھے نظر کی عینک دی ہے۔‘
اب اس عرصے میں مائیکل کے خاندان پر کیا کچھ گزری۔ ان کی قید کے چند دن بعد انھیں بتایا گیا کہ ان کے والد کی وفات ہو چکی ہے۔
اس کرب میں بھی انھیں ایک امید ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’یہ ایک نئی زندگی کا آغاز ہے۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ میں مر گیا تھا اور دوبارہ زندہ ہو گیا ہوں۔ یہ احساسات میرے لیے ناقابل بیان ہیں۔‘