کراچی سٹریٹ کرائم: سماء کے سینیئر پروڈیوسر اطہر متین ڈکیتی کی واردات کے دوران فائرنگ سے ہلاک
کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں جمعے کی صبح فائرنگ کے ایک واقعہ میں نجی نیوز چینل سما ٹی وی کے سینیئر پروڈیوسر اطہر متین اس وقت ہلاک ہو گئے جب پولیس کے مطابق انھوں نے ’ڈکیتی کے دوران مزاحمت‘ کی۔
ایس پی پولیس گلبرگ طاہر نورانی کے مطابق یہ واقعہ نارتھ ناظم آباد کے علاقے کے ڈی اے چورنگی اور پہاڑ گنج کے درمیان صبح ساڑھے آٹھ سے نو بجے کے قریب پیش آیا۔
دوسری جانب ایس ایس پی وسطی رانا معروف کا کہنا ہے کہ ملزمان شہری کو لوٹ رہے تھے، اسی دوران اطہر متین نے واردات ناکام بنانے کے لیے اپنی گاڑی سے ملزمان کی موٹرسائیکل کو ٹکر مار دی۔
اطہر متین کے بھائی طارق متین نے بی بی سی کو بتایا کہ واقعہ کے بارے میں سنتے ہی وہ جائے وقوعہ پر پہنچے جہاں ’لوگ بتا رہے تھے کہ ڈاکو کسی خاتون سے ڈکیتی کر رہے تھے جب اطہر نے انھیں کار سے ہِٹ کیا لیکن انھیں زیادہ چوٹ نہیں لگی، انھوں نے فائرنگ کی اور فرار ہوگئے۔‘
ایس پی پولیس گلبرگ طاہر نورانی نے کہا کہ صحافی اطہر متین اپنے بچوں کو سکول چھوڑ کر گھر جارہے تھے جب انھیں موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے روکنے کی کوشش کی، تاہم اطہر متین نے مزاحمت کی اور ڈاکوؤں کو کار سے ٹکر ماری۔‘
ان کے مطابق ملزمان نے فائرنگ کی اور ایک شہری کی موٹر سائیکل لے کر فرار ہو گئے۔
پولیس کے مطابق گولیوں کے خول اور موٹرسائیکل تحویل میں لی جا چکی ہے جبکہ سی سی ٹی وی کیمرے کی ریکارڈنگ کا بھی معائنہ کیا جارہا ہے۔
’رینجرز بھی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے‘
طارق متین نے بی بی سی کو بتایا کہ اس علاقے میں مسلسل وارداتیں ہو رہی تھیں۔ ’پولیس کی ذمہ داری تھی لیکن آس پاس رینجرز کے بھی سینٹرز ہیں، وہ بھی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔‘
اطہر متین نے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا تھا اور وہ سنہ 2005 سے صحافت سے منسلک تھے۔ انھوں نے سما سے قبل آج ٹی وی اور اے آر وائی نیوز کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ اس وقت وہ سما میں سینیئر پروڈیوسر تھے۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس نے اطہر متین کی ہلاکت پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
کے یو جے کے صدر شاہد اقبال اور جنرل سیکریٹری فہیم صدیقی سمیت مجلس عاملہ کے تمام اراکین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں صحافیوں پر حملوں، تشدد اور انھیں قتل کئے جانے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے لیکن حکمران چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔
’اطہر متین کے قتل کے واقعے کے فوراً بعد ہی ابتدائی تفتیش کے نام پر واقعے کو ڈاکووں کی فائرنگ قرار دے دیا گیا ہے، جو تفتیش کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ ان کے مطابق ایک صحافی کے ساتھ پیش آئے واقعے کی ہر پہلو سے تفتیش کے بعد ہی پولیس کو ایسا کوئی بیان دینا چاہیے تھا۔‘
اطہر متین: ٹھنڈے مزاج کے کم گو انسان
اطہر متین کے ساتھ ماضی میں کام کرنے والے صحافی فیض اللہ خان کا کہنا ہے کہ اطہر متین نیوز روم کے شور شرابے، چیخنے چلانے والے ماحول میں بھی ایک ٹھنڈے مزاج کے کم گو انسان اور انتہائی پروفیشنل صحافی تھے۔
ان کے مطابق ’اے آر وائی اور سما دونوں میں کام کرتے وقت اپنی رپورٹس کے سلسلے میں ان سے رابطہ رہتا تھا۔‘
سنجے سادھوانی اطہر متین کے ساتھ سما میں کام کر رہے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیشہ ہنستا مسکراتا، ہر چھوٹے بڑے سے عزت سے پیش آنے والا شخص تھا اور انتہائی پروفیشنل پروڈیوسر تھے، سیکھنے اور سکھانے میں کوئی کمتری نہیں سمجھتے تھے۔‘
کراچی سٹریٹ کرائم میں اضافہ
پولیس اور شہریوں کے درمیان تعاون کے لیے بنائے گئے ادارے ’سٹیزن پولیس لیژان‘ کمیٹی کی جنوری میں جاری کی گئی 13 ماہ کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2021 میں گن پوائنٹ پر کل 4,453 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں جبکہ رواں سال جنوری میں مزید 419 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں۔
اسی طرح گذشتہ سال شہر کے مختلف علاقوں سے 46,388 موٹر سائیکلیں بھی چوری ہوئیں جبکہ گزشتہ ماہ میں 3,908 موٹر سائیکلیں چوری ہوئیں۔
سی پی ایل سی کے اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جنوری 2021 سے دسمبر 2021 تک شہر میں 25,188 موبائل فون چھینے گئے، جبکہ رواں سال جنوری 2022 میں مزید 2,499 موبائل فون چھینے گئے۔
کراچی پولیس کے سربراہ کا پچھلے دنوں ہی تبادلہ کیا گیا۔ نئے ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے اپنی اولین ترجیحات میں سٹریٹ کرائم کی روک تھام گنوائی ہے۔
وزیرداخلہ کی مزید رینجرز بھیجنے کی آفر
کراچی میں گذشتہ چند ماہ میں سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے جن میں موبائل، موٹرسائیکل اور اے ٹی ایم سے نکلنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران مزاحمت پر جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں۔
وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے سما ٹی وی سے بات کرتے ہوئے اس قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت سندھ کہے تو وہ مزید رینجرز بھیج سکتے ہیں۔
وزیر داخلہ کے مطابق سینیئر صحافی کا ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل ایک بہیمانہ واقعہ ہے۔ انھوں نے چیف سیکریٹری اور آئی جی سندھ سے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اطہر متین کی ہلاکت کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ انھوں نے ملزمان کی گرفتاری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
’اطہر متین کے قاتلوں تک پہنچ جائیں گے‘
ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کا دعویٰ ہے کہ اطہر متین کے قاتلوں سے متعلق پولیس کے پاس کچھ مواد ہے اور وہ جلد ان تک پہنچ جائیں گے۔
ہائی کورٹ میں ایک مقدمے میں پیشی کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سٹریٹ کرائم کے حوالے سے ہماری پالیسی واضح ہے: سٹریٹ کریمنلز کا پرانا ریکارڈ چیک کرنا چاہیے، ان کی شناخت کرنی چاہیے، اچھے کیس بنانے چاہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی بستیاں جہاں یہ سٹریٹ کریمنلز رہتے ہیں، وہاں انٹیلیجنس بنیادوں پر کارروائی کرنی چاہیے۔‘
بقول ان کے سٹریٹ کرائم کی ایک وجہ بے روزگاری بڑھنا بھی بتائی جاتی ہے۔ ’اس کے علاوہ منشیات استعمال کرنے والے بھی سٹریٹ کرائم میں ملوث ہوتے ہیں کیونکہ ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہوتا اور وہ اس طرح کرائم کرکے اپنی منشیات کا بندوبست کرتے ہیں۔‘