احساسات!!!!!! پاکستانی جمہوریت

Pinterest LinkedIn Tumblr +

   احساسات!!!!!! پاکستانی جمہوریت

رضوان احمد گدی

 

آج کل پاکستان کی سیاست میں جو ہلچل ہے اس سے ہر پاکستانی پریشان ہو رہا ہے کہ یہ ملک میں کیا ہو رہا ہے بہت سے پاکستانیوں کے لئے نئی بات ہے وہ اس لئے بھی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے وہ ہر لمحہ باخبر ہو رہے ہیں اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جو کھلواڑ پاکستان بننے کے بعد سے کھیلا گیا وہ تاحال جاری ہے بلکہ اس کھلواڑ میں آدھا ملک بھی گنوا بھیٹے ہیں دراصل اس ملک میں ہمیں سیاستدان اچھے ملے نہیں اور جو ملے تو انہیں آشیر باد نا ہونے کی وجہ سے پذیرائی نہیں ملی آج ملک میں جتنے سیاست دان اپنی ناکامی کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کو گردانتے ہیں دراصل وہ انہی کہ ذریعے تو لیڈر بنتے ہیں بھٹو صاحب ایوب خان کے بیٹے تھے وہاں سے راہ و رسم بڑھائی جب دیکھا ایوب کا زوال ہو رہا ہے تو ان ہی کے ذریعے پاپولر لیڈر بنے 1985 کے بعد ان قوتوں کو ادراک ہو چلا تھا کہ بے نظیر بھٹو پاکستان میں قوت حاصل کرینگی تو سادہ اور کاروباری نواز شریف کو آگے لایا گیا اور بے نظیر کے مقابل کھڑا کیا جب اسٹیبلشمنٹ نے اس وقت کے وزیراعظم جونیجو کو ہٹھایا اور انہوں نے مزاحمت کی کوشش کی تو انکے کہنے پرجونیجو صاحب مسلم لیگ کے صدر بھی تھے تو نواز شریف نے پیسے اور پنجاب کے اقتدار کے بل بوتے پر جونیجو جیسے شریف انسان کو رسواء کیا اور مسلم لیگ ن تخلیق کی تو تمام نوازشات کے ساتھ سندھ میں بڑی اکثریت کے غالب امکان کی وجہ سے شہروں میں راتوں رات اسلحہ کی نمائش کے ساتھ الطاف حسین کو مضبوط کیا گیا اور انہیں پپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کے لئے ہر سہولت سے نوازا انہیں 30 سال بھرپور مینڈیٹ بسا اوقات حکومت دو شہروں کا مکمل کنٹرول دیا لیکن انہوں نے اپنی عوام کو نوازنے کے بجائے محرومیاں اور جاہل بنا کر پپلز پارٹی اور سندھی سے ڈرا کر ہمشیہ ووٹ لئے اور جب موقعہ ملا بے غیرتی سے پپلز پارٹی سے بھی مل گئے شہری سسٹم پولیس،انتظامیہ،سارے شعبہ عوام یرغمال تھے بے نظیر صاحبہ نے 1988 میں فوج کو تمغہ جموریت دیا جب جب موقعہ ملا اسٹیبلشمنٹ سے مراعات لیں نواز شریف 1993 میں آنکھیں دکھائیں تو بے نظیر صاحبہ انکے تعاون سے ہی حکومت میں آئیں اور 1996 میں نواز شریف انکے تعاون کی بدولت دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئے 90 کی دہائی میں دونوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہ ہی ہارس ٹریڈنگ لچھر بازی کرپشن کے ذریعے حکومت کی میرا سوال یہ ہے کہ جب تمیں موقع ملے تو اسٹیبلشمنٹ کے پاؤں پڑھ جاؤ اور جب کمر سیدھی ہو تو ساری برائی اسٹیبلشمنٹ میں نظر آتی ہے عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے لیڈر بنے اعتراف بھی کرتے تھے لیکن نا اہلی نالائقی سے حکومت کی عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس دیا انکی ناکامی میں سب سے بڑا کردار انکی وہ تقریریں بنی جو انہوں نے وزیر اعظم بننے سے پہلے کی تھیں کیا عوام کو سبز خواب دکھائے نوجوان طبقہ پڑھے لکھے لوگ انہیں نجات دہندہ سمجھتے تھے لیکن انہوں نے جیتنے کے بعد مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا آج جو کچھ ہو رہا ہے اہل علم و تاریخ دان کے لئے نیا نہیں ہے بدقسمتی سے ہماری تاریخ اسی طرح بھری پڑی ہے کہ بھٹو،ضیاء،بے نظیر بھٹو،نواز شریف،الطاف حسین،چوہدری شجاعت،فضل الرحمن،آصف زرداری،بلاول،عمران خان سب اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے لیڈر بنے اور جب غیر ملکی آقاؤں سے ملتے ہیں تو انکے ایجنڈے کے مطابق اسٹیبلیشمنٹ سے لڑ جاتے ہیں کرپشن کے پیسے کے بل بوتے پر سیاست کرتے ہیں عوام کی انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی نا کوئی اچھی روایات قائم کرتے ہیں نا انکے پاس پاکستانی عوام،اداروں کے لئے کوئی پروگرام ہوتا ہے بس بھاشن ہوتا ہے عوام 1947 سے یہ ہی دیکھ رہی ہے لہذا عوام پریشان نہ ہوں یہ سب کھاؤ پیو پارٹی سے ہیں جموریت انکے لئے پیسے کمانے کا بہترین ذریعہ ہے

 

 

 

 

 

 

Share.

Leave A Reply