کالم : چشم دید
تحریر : شہزاد احمد
مورخہ 8 اپریل 2022
عنوان : پاکستانی سیاست میں نیا موڑ اور عوام کے تاثرات
جب بھی کسی ملک کی حکومت بنتی ھے حکومتی ارکان کا چناو تعلیم ، تجربہ ، معاملہ فہیم افراد اور ملک کے آٸین کا علم ھونے کی بنیاد پر کیا جاتا ھے تاکہ ملک کو چلانے میں کسی بھی طرح کی رکاوٹ اڑے نہ آٸے جبکہ ھمارے ھاں ووٹ نظریاتی نہیں بلکہ شخصی ھے ایم این اے اور ایم پی اے کے چناو کے لٸے اپنے تعلق والے امیدوار یا اپنے چچا ، ماموں کے دوست کو ووٹ دے کر قومی خیانت کی جاتی ھے یہی امیدوار براٸے قومی و صوباٸی اسمبلی شخصی و تعلقاتی ووٹ سے جیت کر حکومتی ڈھانچے کا حصہ بنتے ھیں ان کے پاس صرف شخصی ووٹ کی طاقت ھے یا تعلقاتی افرادی قوت اس کے علاوہ نہ وہ آٸین پاکستان سے واقف ھیں نہ تعلیمی معیار رکھتے ھیں اگر تعلیمی معیار ھوتا تو جعلی ڈگری ایشو نہ بنتا تجربے کی اگر بات کی جاٸے تو ھماری قوم میں ایک نیا ٹرینڈ چل رھا ھے کہ نٸے چہرے اگے لاو پرانے چہروں سے ھم اکتا چکے ھیں ۔ جب ملکی و قومی سطح پر ایسے مساٸل ھوں گے تو پھر حکومتیں ۔ اپوزیشن ۔ سینٹ بھی ایسی ھی ھو گی وہ فیصلے منظر عام پہ آٸیں گے جن پہ ان کا اختیار نہیں ۔ آج کل ملکی سیاست نٸے رنگ دکھا رھی ھے سپیکر و ڈپٹی سپیکر نے غیر آٸینی فیصلہ دیا وزیر اعظم کی ایڈواٸز پر صدر پاکستان نے غیر آٸینی اسمبلی تحلیل کی اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد شروع کی تو حکومتی بیان کے مطابق یہ بیرونی سازش تھی امریکہ نے پاکستان کے اندر بہت بڑا سازشی پلان ترتیب دیا ھے سیاست میں غیر آٸینی اقدام کو دیکھتے ھوٸے سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر سے پوچھا کہ یہ فیصلے کے اختیارات کیوں استعمال کٸے گے آپ ایسے فیصلے کے مجاز کب سے ھیں ان سوالات کے اٹھنے کے بعد حکومتی ڈھانچے سمیت سپیکر کو بھی پتہ چلا کہ فیصلے کا اختیار ان کے پاس نہیں ۔ اس ساری سرگرمی کی تفصیلات بذریعہ الیکٹرونک ۔ پرنٹ اور سوشل میڈیا عوام تک پہنچے تو عوام کٸی گروپوں میں تقسیم ھو گٸی پی ٹی آٸی ۔ ن لیگ ۔ پی پی پی کے حامیوں نے اپنا میدان جنگ کھول لیا ۔ بحث مباحثہ ۔ ریمارکس ۔ تبصروں کا بازار گرم ھو گیا بلکہ تبصرے کے ساتھ ساتھ ہر شخص اپنی ذات میں عدالت بن گیا ملک کے چاروں طرف سے عوامی فیصلے آنے شروع ھو گے ۔ عدلیہ بھی حیران ھے کہ پاکستان میں 22 کروڑ ایکٹنگ ججز صاحبان ( عوام ) نے فیصلے سنا دیٸے ھیں غریب نے فیصلہ دیا کہ موجودہ حکومت نے ریکارڈ مہنگاٸی کی ھے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ایسی حکومت کا خاتمہ وقت کی اھم ضرورت ھے جبکہ عدالت عالیہ نے حکومت کو دوبارہ بحال کر دیا ھے غریب کی نظر میں یہ ظلم ھے کاروباری لوگ اسمبلی ٹوٹنے کی وجہ سے اداس ھیں کہ ھم جتنی بھی مہنگاٸی کر لیتے ھمیں کسی نے نہیں پوچھنا موجودہ حکومت کا خاتمہ ھمارے زوال کا باعث بن رھا ھے ۔ اگر دیکھا جاٸے تو ملک اس وقت سیاسی اکھاڑا بنا ھوا ھے پل پل کی خبریں کبھی حکومت ہنس رھی ھے اور اپوزیشن رو رھی ھے کبھی حکومت رو رھی ھے اور اپوزیشن چشن منا رھی ھے کیا مہذب معاشرے میں ایسا ھوتا ھے جہاں سب ان پڑھ ھوں وھاں دو جماعت پاس راجہ ھوتا ھے ۔ اس وقت ملک میں ایسی ھی صورت حال بنی ھوٸی ھے دو جماعت پاس راجہ کی ڈگری اٹھا کر گھوم رھے ھیں اور ملک کمزور سے کمزور ترین سطح پہ پہنچ چکا ھے عوام نٸے تبصرے کرنے کے لٸے پل پل کی خبر کے انتظار میں ھے اور حکومتی اہلکار اپنا بلڈ پریشر چیک کروا رھے ھیں اپوزیشن نعرے پہ نعرہ لگا رھی ھے ۔ یہ تمام وہ تاثرات ھیں جو وقتاً فوقتاً عوام کی جانب سے سننے کو مل رھے ھیں