مقبوضہ بیت المقدس میں کشیدگی، اسرائیل کی غزہ پر بمباری
حالیہ تشدد کارروائیوں کے دوران 170 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر فلسطینی مظاہرین ہیں – فوٹو: انٹرنیٹ
مقبوضہ بیت المقدس کے اطراف ہونے والے حالیہ پرتشدد واقعات کے بعد مبینہ طور پر فلسطینی علاقے سے فائر کیے گئے راکٹوں کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر فضائی حملہ کر دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کے خصوصی دستوں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں رات کو 5 گرفتاریاں کیں، چار ہفتے قبل حملوں اور مظاہروں میں اضافے کے بعد سے اسرائیل کی جانب سے ہلاکت خیز چھاپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
کشیدگی کا مرکز مقبوضہ بیت المقدس کے اسرائیل کے ساتھ ملحقہ پرانے شہر میں واقع مسجد اقصیٰ کا متنازع احاطہ رہا ہے، جسے یہودی ٹمپل ماؤنٹ کے نام سے جانتے ہیں۔
رمضان کے دوران نماز کی ادائیگی کیلئے وہاں جمع ہونے والے فلسطینی نمازی اسرائیلی پولیس کی بھاری نفری کی حفاظت میں یہودی زائرین کے دورے کے ساتھ ساتھ ان کی مسجد میں رسائی پر پابندیوں کے باعث مشتعل ہیں۔
یہودیوں کو مخصوص اوقات میں اس جگہ کا دورہ کرنے کی اجازت ہے لیکن وہاں عبادت کرنے کی ممانعت ہے۔
یہودیوں کے عید فسح کے تہوار کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان میں ہونے والے پرتشدد واقعات نے گزشتہ سال جیسے واقعات کے دوبارہ ہونے کے خدشات کو جنم دیا ہے، گزشتہ سال بھی اسی طرح کے حالات نے 11 روزہ جنگ کو جنم دیا تھا جس کے دوران غزہ کے کچھ حصوں کو تباہ کر دیا تھا۔
گزشتہ روز جنوری کے بعد سے اس طرح کے پہلے واقعے میں حماس کے زیر کنٹرول بلاک کیے گئے علاقے سے جنوبی اسرائیل میں مبینہ طور پر راکٹ فائر کیے جانے کے بعد انتباہی سائرن سنے گئے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ فائر کیے گئے راکٹ کو آئرن ڈوم ایئر ڈیفنس سسٹم نے ناکام بنایا۔
چند گھنٹے بعد اسرائیلی فضائیہ نے کہا کہ اس نے جوابی کارروائی میں حماس کی ہتھیاروں کی فیکٹری کو نشانہ بنایا۔
غزہ میں عینی شاہدین اور سیکیورٹی ذرائع کے مطابق حماس نے دعویٰ کیا کہ اس نے حملے کو ناکام بنانے کیلئے اپنے طیارہ شکن دفاعی سسٹم کا استعمال کیا، حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
23 لاکھ آبادی پر مشتمل آبادی کے علاقے میں کسی بھی دھڑے نے فوری طور پر راکٹ کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
یہ حملہ ہفتوں سے جاری بڑھتے ہوئے پر تشدد واقعات کے بعد سامنے آیا جس میں کل 23 فلسطینی اور عرب اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں، جاں بحق ہونے والوں میں وہ مبینہ حملہ آور بھی شامل ہیں جنہوں نے چار مہلک حملوں میں اسرائیلیوں کو نشانہ بنایا تھا۔
راکٹ فائر کیے جانے کا واقعہ بھی مسجد اقصیٰ کے احاطے اور اس کے ارد گرد اسرائیلی اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والے تشدد کے ایک ہفتے کے آخر میں ہوا ہے، ان پر تشدد کارروائیوں کے دوران 170 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر فلسطینی مظاہرین تھے۔
سفارتی ذرائع نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس منگل کو ہونا ہے جس میں تشدد میں اضافے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے پرانے شہر کی دیواروں کے گرد یہودی قوم پرستوں کو مارچ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
گزشتہ سال تشدد کی اسی طرح کی لہر کے بعد اسی طرح کی ایک پریڈ کے دوران غزہ سے راکٹ فائر ہوا تھا جس کے نتیجے میں 11 روزہ جنگ شروع ہوئی تھی۔
اس تنازع میں کم از کم 260 فلسطینی جاں بحق ہوئے تھے جن میں بہت سے جنگجو بھی شامل تھے اور ایک فوجی سمیت اسرائیلی جانب سے 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
مسجد اقصیٰ جو یہودیوں کا سب سے مقدس اور مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے اس کے احاطے میں ہونے والے واقعات نے گزشتہ صدی کے دوران متعدد بار تشدد کو جنم دیا ہے۔
حماس نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی خالص اسلامی مقام کے طور پر حیثیت کو برقرار رکھے گی۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حماس فی الحال جنگ نہیں چاہتی، اس کی ایک وجہ اس کی عسکری صلاحیتوں کا کم ہونا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حماس اس بات سے بھی محتاط ہے کہ ایک نیا تنازع اسرائیل کو حالیہ مہینوں میں غریب غزہ کے رہائشیوں کو جاری کیے گئے ہزاروں ورک پرمٹ منسوخ کرنے پر مجبور کر سکتا ہے، جہاں بے روزگاری 50 فیصد کے قریب ہے۔
لیکن ایک اور فلسطینی دھڑے اسلامک جہاد کا کہنا ہے کہ دشمن کی جانب سے غزہ کی امداد بند کرنے کی دھمکیاں ہمیں مقبوضہ بیت المقدس میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرے گی۔
اسلامک جہاد کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ہزاروں جنگجو اور راکٹ موجود ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے گزشتہ روز کہا کہ امریکا کو کشیدگی پر سخت تشویش ہے اور اس تمام صورتحال میں سینئر امریکی حکام اسرائیل فلسطینی اتھارٹی اور عرب حکومتوں کے اپنے ہم منصبوں سے ٹیلی فون پر رابطے میں ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم نے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کے احاطے کا تاریخی تشخص اور حیثیت برقرار رکھیں اور ”اشتعال انگیز“ اقدامات سے گریز کریں۔