گولی لگتے ہی گردن سے خون کا فوّارہ اُبَل پڑا۔ حلق میں بھر جانے والے خون نے سب انسپیکٹر غلام دستگیر کو دوسری سانس لینے تک کا موقع نہیں دیا۔ حملہ تھا ہی اتنا شدید کہ شعیب خان کی حفاظت پر مامور چار پولیس اہلکاروں میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا اور اب خون میں ڈوبی چاروں لاشیں پولیس وین میں پڑی تھیں۔
آپ کے لیے شاید یہ تفصیلات بھیانک اورہولناک ہوں مگر 1990 کی دہائی کے کراچی میں ہزاروں پولیس افسران و اہلکاروں اور سیاسی و مذہبی تنظیموں کے لاکھوں کارکنوں کے ساتھ ساتھ ہم صحافیوں کے لیے تو یہ سب کچھ معمول بن چکا تھا۔
سیاسی، فرقہ وارانہ اور لسانی تشدد، یا چھینا جھپٹی اور قتل و غارت۔۔۔ کون سا جُرم تھا جسے اِس شہر کے باسیوں نے ہوتے نہ دیکھا ہو۔
بعض اوقات تو پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ سڑک پر بہتا خون، ماورائے عدالت قتل ہونے والے کسی بے قصور سیاسی کارکن کا ہے یا دہشتگردی کا شکار کسی بے بس پولیس اہلکار کا ؟ کسی ٹارگٹ کلر کا ہے یا ’ان کاؤنٹر سپیشلسٹ‘ کا؟
اُس روز بھی پولیس وین سے بہتے ہوئے خون سے پتا نہیں چل رہا تھا کہ یہ ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کا ہے یا زخمی ہو کر بچ جانے والے شعیب خان کا۔
کراچی کے ’سیاسی جرائم یا مجرمانہ سیاست‘ کے انتہائی پراسرار کردار شعیب خان کو جانتے تو شاید بہت ہی کم لوگ ہوں گے مگر پروفائل کا عالم یہ تھا کہ شعیب خان کے کاروبار پر ہاتھ ڈالنے کے لیے صوبے کے اُس وقت کے گورنر کو ملک کے فوجی صدر اور آرمی چیف تک جانا پڑا تھا اور آئی ایس آئی سربراہ کو کراچی بھیجا گیا تھا۔
شعیب خان کراچی انڈر ورلڈ کا کوئی معمولی کردار نہیں تھے۔ شہر کی پولیس دن کی روشنی میں شعیب خان کے خلاف قتل و اقدامِ قتل، جُوا، سٹہ اور بَھتّہ خوری جیسے مقدمات درج کرتی تھی اور رات کے اندھیرے میں اُسی پولیس کے اعلیٰ ترین افسران شعیب خان کی ’پارٹی‘ میں شرکت کرتے تھے۔
میں شعیب خان کی پروفائل پر کئی سال تک کام کرتا رہا۔ میری تحقیق کے مطابق شعیب خان کی چار بہنیں اور چھ بھائی تھے۔ جس علاقے میں شعیب خان بڑے ہوئے وہاں ’مختار کی چائے‘ بہت مشہور تھی۔
اس چائے خانے پر علاقے کے ایک پرانے مکین بزرگ نے کئی برس قبل مجھے بتایا کہ شعیب خان ’نوعمری میں بلاوجہ ہی لوگوں سے الجھ جایا کرتے تھے۔ تھوڑا مزاج کا گرم تھا۔ اندازہ تو اسی زمانے میں ہوتا تھا کہ یہ سیدھی سادی زندگی نہیں گزارے گا۔‘
خبر رساں ادارے اردو پوائنٹ نے چار فروری 2005 کو اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ ابتداً شعیب خان نے کراچی وسطی کے علاقے عزیز آباد میں موٹر سائیکل کرائے پر دینے کا کاروبار شروع کیا اور گاہے بگاہے علاقے کی پولیس کے لیے مخبری بھی کر دیتا تھا۔
ہائی پروفائل کریمنل کیسز میں شعیب اور اُن جیسے کئی افراد کے وکیل رہنے والے ایک قانون داں نے بتایا کہ ’شعیب کا خاندان روشن باغ کے قریب بھی رہائش پذیر رہا۔ یہاں شعیب خان کے بھائیوں کی وی سی آر اور ویڈیو کیسٹس کرائے پر دینے کی ایک دکان ’ایس کے ویڈیو‘ تھی۔‘
پاکستان کے انگریزی جریدے ’نیوز لائن‘ کی ستبمر 2001 کی اشاعت میں صحافی غلام حسنین کے تحقیقاتی مضمون کے مطابق شعیب جوئے سٹّے کے کاروبار سے جُڑ گئے۔
’جُوا شعیب خان کے لیے نیا ہرگز نہیں تھا کیونکہ یہ کام شعیب کے والد اختر علی خان برسوں سے کر رہے تھے۔‘
تمغۂ شجاعت سمیت کئی قومی و سرکاری اعزازات حاصل کرنے والے سندھ پولیس کے سابق ایس پی فیاض خان اُن تفتیشی افسران میں شامل رہے جنھوں نے دورانِ حراست شعیب خان سے بھی تفتیش کی۔
فیاض خان کا کہنا ہے کہ ’ڈسٹرکٹ سینٹرل میں جُوا شعیب کے والد کے بغیر ہوتا ہی نہیں تھا۔ وہ پولیس سے اجازت لے کر برسوں تک جُوا چلاتے رہے۔‘