نو فلائی لسٹ: ’مریم نواز نے خود ضمانت دی کہ ملیکہ بخاری وطن واپس آ کر قانون کا سامنا کریں گی‘

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پاکستان تحریک انصاف کی سابق رکن قومی اسمبلی ملیکہ بخاری کا کہنا ہے کہ انھیں مطلع کیا گیا ہے کہ ان کا نام نو فلائی لسٹ سے ہٹا دیا گیا ہے اور اس ضمن میں انھوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کا شکریہ ادا کیا ہے۔

پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کے مطابق مریم نواز کی ’انڈر ٹیکنگ‘ پر ملیکہ بخاری کو بیرون ملک سفر کے لیے ’ون ٹائم اجازت‘ دلوائی گئی ہے۔

ملیکہ نے گذشتہ روز ایک پیغام میں وزیر اعظم شہباز شریف سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنی علیل بڑی بہن سے ملاقات کے لیے بیرون ملک جانا چاہتی ہیں جس کا نوٹس خود مریم نواز نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لیا تھا۔

وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق نو فلائی لسٹ میں ان افراد کا نام شامل ہوتا ہے جن کے بارے میں کسی عدالت نے کوئی حکم نامہ جاری کیا ہو یا پھر نیب، ایف آئی اے یا قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی طرف سے اس شخص کو لسٹ میں ڈالنے کی درخواست کی گئی ہو۔خیال رہے کہ ملیکہ بخاری کو نو مئی کے واقعات کے بعد ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد ایک پریس کانفرنس کے ذریعے انھوں نے پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔

ملیکہ بخاری کی بیرون ملک سفر کی درخواست اور مریم نواز کی مداخلت
ایکس پر ملیکہ بخاری نے اپنی مختلف پوسٹس کے ذریعے یہ کہا تھا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں اور آئین پاکستان انھیں سفر کرنے کی بنیادی آزادی دیتا ہے۔

انھوں نے بتایا تھا کہ ان کی 46 سالہ بہن آسٹریلیا میں اپنی زندگی کی بازی لڑ رہی ہیں اور وہ اس وقت ان کی موجودگی میں ہونا چاہتی ہیں۔ ’وہ اس وقت وینٹیلیٹر پر ہیں۔ ڈاکٹروں نے ہمیں 24 گھنٹے دیے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ انھیں وینٹیلیٹر پر ہی رکھا جائے یا انھیں مردہ قرار دیا جائے۔‘

ملیکہ بخاری نے کہا تھا کہ انھیں ایک سال سے غیر قانونی طور پر اس لسٹ پر رکھا ہوا ہے اور انھوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے درخواست کی کہ انھیں ایک دفعہ کی اجازت دی جائے کہ وہ اپنی بہن کے پاس جا سکیں۔خیال رہے کہ ملیکہ بخاری کو نو مئی کے واقعات کے بعد ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد ایک پریس کانفرنس کے ذریعے انھوں نے پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔

ملیکہ بخاری کی بیرون ملک سفر کی درخواست اور مریم نواز کی مداخلت
ایکس پر ملیکہ بخاری نے اپنی مختلف پوسٹس کے ذریعے یہ کہا تھا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں اور آئین پاکستان انھیں سفر کرنے کی بنیادی آزادی دیتا ہے۔

انھوں نے بتایا تھا کہ ان کی 46 سالہ بہن آسٹریلیا میں اپنی زندگی کی بازی لڑ رہی ہیں اور وہ اس وقت ان کی موجودگی میں ہونا چاہتی ہیں۔ ’وہ اس وقت وینٹیلیٹر پر ہیں۔ ڈاکٹروں نے ہمیں 24 گھنٹے دیے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ انھیں وینٹیلیٹر پر ہی رکھا جائے یا انھیں مردہ قرار دیا جائے۔‘

ملیکہ بخاری نے کہا تھا کہ انھیں ایک سال سے غیر قانونی طور پر اس لسٹ پر رکھا ہوا ہے اور انھوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے درخواست کی کہ انھیں ایک دفعہ کی اجازت دی جائے کہ وہ اپنی بہن کے پاس جا سکیں۔

ملیکہ بخاری کی پوسٹ

اس پوسٹ کے جواب میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے جواب دیا کہ ’ملیکہ مجھے متعلقہ حکام سے بات کرنے دیں۔ میں امید کرتی ہوں آپ نے باضابطہ درخواست جمع کروائی ہوئی ہے۔‘

پوسٹس کے اس تبادلے کے چند گھنٹوں بعد ملیکہ بخاری نے ایکس پر مریم نواز کی بروقت مداخلت کا شکریہ ادا کیا اور فہرست سے اپنے نام ہٹائے جانے کی تصدیق کی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پنچاب کی وزیر اطلات عظمیٰ بخاری نے کہا ’ملیکہ بخاری کے خلاف نو مئی کے معاملات پر بہت ساری ایف آئی آرز ہیں اور جوڈیشل کمپلیکس حملے میں بھی ان کا نام شامل ہے۔ یہ ان مقدمات کے سلسلے میں کئی دن جیل بھی رہی ہیں۔ کیونکہ یہ کیس پینڈنگ ہے، اس لیے ان کا نام نو فلائی لسٹ میں بھی موجود تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا ’یہ سمجھ لیں کہ وزیر اعلیٰ صاحبہ نے انسانی بنیاوں پر انڈر ٹیکنگ (ضمانت) دی ہے کہ وہ واپس آ جائیں گی اور جن مقدمات میں وہ مطلوب ہیں، وہ قانون کے مطابق ان کا سامنا کریں گی۔ اس حوالے سے انھیں ایک دفعہ کی اجازت دلوائی گئی ہے۔‘

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ یہ ان کی سیاسی ٹریننگ ہے اور ان کی پارٹی کا اصلی چہرہ ہے۔ ان کی قیادت ’ہر چیز کو سیاست میں نہیں لے کر آتی۔‘

ان کے مطابق مسلم لیگ ن کا ’ایک نرم گوشہ بھی ہے اور وہ حکومت کرتے ہوئے اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔‘

ملیکہ بخاری کی پوسٹ

دریں اثنا جب دونوں خواتین کے درمیان پوسٹس کے ہونے والے تبادلے کے متعلق مقامی میڈیا نے خبریں چلانا شروع کیں تو مسلم لیگ نواز کی رکن صوبائی اسمبلی نے ٹی وی چینلز پر لگنے والی خبروں کے سکرین شاٹس کو ایکس پر پوسٹ کیا اور وزایر اعلیٰ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ’ایسی ہے میری لیڈر‘۔

اس کے جواب میں ملیکہ بخاری نے لکھا کہ انھیں ’غیر قانونی طور پر ایک سال نو فلائی لسٹ پر رکھا گیا‘ اور ہزاروں بے گناہ لوگ ہیں جنھیں بغیر کسی جرم کے اس لسٹ میں ڈالا گیا ہے۔

انھوں نے یہ بھی لکھا کہ انھوں نے باوقار طریقے سے مریم نواز کی مداخلت پر ردعمل دیا ہے اور ان کے درد کو ’کیمپین کے لیے استعمال کرنا بند کیا جائے۔‘

’قانون کے مطابق چلنا چاہیے آقاؤں کی خواہشات پر نہیں‘
اس واقعے پر سوشل میڈیا پر ایک طرف لوگ مریم نواز کی تعریف کرتے ہوئے اسے احسن اقدام قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب صارفین اسے صرف تشہیری مہم کہہ رہے ہیں۔

ایکس پر صارف آشر عزیم گل نے اس عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’یہ ’اچھا کام‘ کر کے آپ نے ثابت کر دیا ہے کہ لوگوں کو قانونی بنیادوں پر نہیں بلکہ حکام کی خواہش پر نو فلائی لسٹ میں ڈالا جا سکتا ہے۔

’براہ کرم سمجھیں کہ قوموں کو قانون کے مطابق چلنا چاہیے نہ کہ موجودہ آقاؤں کی خواہشات پر۔‘

آشر عظیم گل کی پوسٹ

ایک اور صارف مسز ایس فیصل نے بھی مریم نواز کے اس عمل کو ’پبلسیٹی سٹنٹ‘ قرار دیا اور کہا ’مریم، آپ ہی ہیں جنھوں نے گذشتہ 22 مہینوں سے تمام خواتین کے ساتھ ایسا ہونے دیا۔

’اس لیے ہمدرد ہونے کے بارے میں اشتہارات دینا بند کریں۔‘

سلیم جاوید کی پوسٹ

سلیم شہزاد جاوید نے مریم نواز کی مداخلت کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’مریم نواز شریف کے اس ہمدردانہ قدم کے لیے واقعی تعریف کرتا ہوں۔ سیاست دشمنی نہیں ہوتی، یہ صرف اختلاف رائے کی بات ہوتی ہے۔‘

عزیرہ شاہ نے لکھا ’اچھا قدم ہے لیکن یہ لوگ اس کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ کبھی بھی آپ کے لیے کوئی رحم، ہمدردی یا آپ کا احترام نہیں کریں گے۔‘

’نو فلائی لسٹ‘ کیا ہے اور اس سے کون نام ہٹا سکتا ہے؟
وزارت داخلہ کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک نے بتایا کہ نو فلائی لسٹ کو سٹاپ لسٹ بھی کہا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ نو فلائی لسٹ عدالتی فیصلے کی روشنی میں تیار کی جاتی ہے جس میں اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کوئی بھی شخص کسی مقدمے میں مطلوب ہو اور اس کے بیرون ملک جانے کا خدشہ ہو تو اس کا نام سٹاپ لسٹ میں شامل کرنے کی درخواست وزارت داخلہ سے کر سکتے ہیں جس کے بعد سیکریٹری داخلہ وہ نام لسٹ میں داخل یا نکالنے کے مجاز ہیں۔

وزارت داخلہ کے اہلکار نے بتایا کہ نو فلائی لسٹ پر عملدرآمد پاکستان سے بیرون ملک جانے والے افراد کے لیے ہوتا ہے۔ اس میں کسی کا بھی نام ہو تو وہ صرف 30 روز تک رہ سکتا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص اس مدت کے گزرنے کے باوجود بھی ان اداروں کو مطلوب ہو تو دوبارہ سٹاپ لسٹ میں نام ڈالنے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑتا ہے۔

Share.

Leave A Reply