مسیحا کی مدتِ ملازمت: محمد حنیف کا کالم

Pinterest LinkedIn Tumblr +

بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ایک کمزور، ڈگمگاتی، شرمسار جمہوریت بھی ایک مضبوط اور رحم دل آمریت سے بہتر ہے۔

ساتھ یہ میں بتایا جاتا رہا کہ پاکستان کا واحد مسئلہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا، کوئی منتخب حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرتی۔

جمہوریت کے تسلسل کے معجزے کے طور پر پہلے ہمسایہ ملک انڈیا کو پیش کیا جاتا تھا۔ اب صرف تاسف سے سر ہلایا جاتا ہے۔

حال ہی میں ایک بزرگ نے فرمایا کہ شاید پاکستان کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہاں پر جمہوری حکومت کو نہیں چلنے دیا گیا بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر کبھی آمریت کو نہیں چلنے دیا گیا۔

دنیا میں سویلین اور فوجی دونوں طرح کی ڈکٹیٹر شپ موجود رہی ہیں۔ کوئی 20 سال، کوئی 30 سال۔

قذافی کتنے سال نکال گیا، فیدل کاسترو اپنے ازلی دشمن امریکہ کی بغل میں بیٹھ کر تقریباً نصف صدی تک راج کرتا رہا۔ شام میں ساری دنیا کی طاقتوں نے اپنی اپنی جنگیں لڑ لیں لیکن بشار الاسد ابھی بھی قائم دائم ہے۔

مصر نے بھی جمہوریت کا مزہ لینے کی کوشش کی لیکن پھر ایک فوجی ڈکٹیٹر کی قیادت میں ہی سکون پایا۔

پاکستان میں ایوب خان تھے، فیلڈ مارشل بھی بن گئے، مبینہ طور پر زرعی انقلاب بھی لے آئے لیکن 10 سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ ایک جنرل کو آ کر ہٹانا پڑا۔

جنرل ضیا الحق ’مرد مومن، مرد حق‘ نے اپنے دشمنوں کو ایسے مات کیا تھا کہ لگتا تھا کہ ان کا سایہ تا ابد ہمارے سر پر قائم رہے گا۔ ان کے جہاز کو حادثہ پیش آگیا۔ قوم سمجھی کہ معجزہ ہو گیا۔

اسلام آباد، 23 مارچ، پریڈ

اس کے بعد جنرل مشرف تھے جو کہتے تھے کہ میری وردی میری کھال ہے، میں یہ کیسے اُتاروں؟ آخر اتر گئی اور ان کا جنازہ بھی عوام کی نظروں سے دور ادا کیا گیا۔

جمہوریت کے شیدائی کہتے ہیں کہ پاکستان میں ڈکٹیٹرشپ طویل عرصے تک اس لیے نہیں چل سکتی کہ پاکستان ایک متنوع قوم ہے۔ عوامی نمائندگی کے بغیر مختلف صوبوں اور قومیتوں کو ساتھ رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی عوام کو ایک بار اپنے نمائندے چننے کا چسکہ لگ جائے تو وہ بار بار اپنے چور اُچکے خود چننا چاہیں گے۔

لیکن پاکستان میں آمریت کی بار بار ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاید قوم کو تو مسیحا کی تلاش رہتی ہو لیکن ہمارے عسکری اداروں کے اندر ایسی کوئی خواہش موجود نہیں۔

اعلیٰ درجے کی کمان میں سب اپنے سپہ سالار کو سیلوٹ کرتے ہیں، احکام بجا لاتے ہیں لیکن یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایک منٹ کے نوٹس پر سپہ سالار کی جگہ لے سکتے ہیں اور اگر اس سے بہتر نہیں تو اُس جیسی سپہ سالاری کر ہی سکتے ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستانی افواج ملک کا واحد ادارہ ہے جو میرٹ پر چلتا ہے۔ جہاں صوبے دار کا بیٹا جنرل بن سکتا ہے۔ ترقی پانے کے لیے باہر بیٹھے کسی سیٹھ، کسی سیاستدان کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔

جب کوئی آمر اپنے اقتدار کو مزید طول دینا چاہتا ہے تو ادارہ خود ہی اس سے جان چھڑانے کی تدبیر کر لیتا ہے۔

آمریت کی مسلسل ناکامی کے بعد جب سے ہم نے ہائبریڈ ماحول طاری کیا ہے تو بقول سینیئر تجزیہ نگار اور گائیک علی آفتاب ’ایکسٹنشن کے رولے‘ پڑ گئے ہیں۔

ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے کہ جس نے ایکسٹنشن لی ہے اس نے اپنی بے عزتی خود ہی کروائی ہے۔

جنرل کیانی پہلے تین سال مدبر تھے، درویش تھے۔ تین سال کی ایکسٹنشن کے بعد وہ شہدا کے نام پر کالونیاں بنانے والے بھائی کے سہولت کار ٹھہرائے گئے۔

اسلام آباد، 23 مارچ پریڈ

راحیل شریف سے ڈرتے ہوئے طالبان اپنے غاروں سے نکلتے نہیں تھے۔ انھوں نے بھی اپنی ایکسٹنشن کے لیے بڑی شاہراہوں پر پوسٹر لگوائے کہ ’جانے کی باتیں جانے دو۔‘

ضیا الحق کے زمانے میں انور شمیم کو ایکسٹنشن ملی تھی۔ اس کے بعد سے ہر تین سال بعد نیا چیف آتا رہا ہے۔

چھ سال پہلے غزوہ ہند کے خواب دیکھنے والی قوم کو ایک چھوٹی سی تعبیر بھی دی کہ ایک انڈین جہاز گرایا، پائلٹ کو پکڑا، چائے پلائی، واپس بھیج دیا۔

فضائیہ چالیس سال سے اتنی پروفیشنل رہی ہے کہ کبھی کسی کو ایکسٹنشن دینے کی ضرورت نہیں پڑی ہے۔ اگر کسی نے مانگی بھی ہے تو ملی نہیں۔

ہمارے حاضر ایئر فورس کے سپہ سالار ظہیر احمد باہر سدھو کو ایک سال کی ایکسٹنشن مبارک۔

جب انھوں نے 23 مارچ کو اسلام آباد میں فلائی پاسٹ کی قیادت کی تو ہمارے سپریم کمانڈر آصف زرداری اور سپہ سالار عاصم منیر آسمان کی طرف دیکھتے رہے اور تالیاں بجاتے رہے۔

اُن کے بیج میں وزیر اعظم بھی تھے۔ اس قومی دن پر سپہ سالار کی ایکسٹنشن کا بھی اعلان ہو گیا تاکہ قوم اس اضطراب میں نہ رہے کہ ہم نے عزت کرنی ہے یا بےعزتی کا وقت شروع ہوا جاتا ہے۔

Share.

Leave A Reply