سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف مقدمات کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیوں پر سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل سے زیر حراست 103 افراد کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
پیر کو سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی جسٹس عرفان سعادت خان بینچ میں شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر درخواست گزار جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بینچ کے سائز پر اعتراض عائد کردیا۔
انھوں نے کہا کہ 103 ملزمان زیر حراست ہیں، ان کے اہل خانہ عدالتی کارروائی میں شامل ہونا چاہتے ہیں چنانچہ عدالت اہل خانہ کو سماعت دیکھنے کی اجازت دے۔
اس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ کمرہ عدالت بھرا ہوا ہے، انھیں کہاں بٹھائیں گے؟ عدالت آنے پر اعتراض نہیں ہے، ان کا معاملہ دیکھ لیتے ہیں۔
بعد ازاں جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل نے نو رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کر دی، انھوں نے کہا کہ ہم نے اپنی متفرق درخواست میں بھی 9 رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی تھی، عدالت سے استدعا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کمیٹی سے گزارش کرے کہ نو رکنی بینچ بنایا جائے۔
سماعت کے دوران خیبرپختونخوا حکومت نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کر دی ہے، خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے صوبائی کابینہ کی قرارداد عدالت میں پیش کر دی۔ خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے دلیل دی کہ انٹرا کورٹ اپیلیں واپس لینا چاہتے ہیں۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ کابینہ قرارداد پر تو اپیلیں واپس نہیں کر سکتے، مناسب ہوگا کہ اپیلیں واپس لینے کے لیے باضابطہ درخواست دائر کریں۔
بعد ازاں فوجی عدالتوں کے خلاف درخواست گزاروں نے بینچ کے ساتھ نجی وکلا پر بھی اعتراض عائد کر دیا، اس موقع پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سرکاری اداروں کی جانب سے اٹارنی جنرل نے پانچ اپیلیں دائر کر رکھی ہیں، بعض وزارتوں کی جانب سے نجی وکلا کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، اٹارنی جنرل نے خود اپیلیں دائر کی ہیں تو عوام کا پیسہ نجی وکلا پر کیوں خرچ ہو؟
وکیل خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ بینچ کی تشکیل کے لیے مناسب ہوگا کہ معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے، پہلے بھی نو رکنی بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پہلے ہی نو رکنی بینچ بن جاتا تو آج اپیلوں پر سماعت ممکن نا ہوتی۔
بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل سے زیر حراست 103 افراد میں سے بریت کے اہل افراد کے حوالے سے تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ بتائیں کتنے ملزمان کو کتنی سزائیں ہوئی ہیں؟ یہ بھی بتائیں کتنے ملزمان بری ہوئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹرائل مکمل ہو چکا ہے لیکن عدالت نے حتمی فیصلے سے روکا تھا، عدالت نے کہا آپ ہدایات لے لیں۔
اس کے بعد عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 28 مارچ تک ملتوی کردی۔