کیا مولانا فضل الرحمان احتجاجی تحریک کے اعلان سے موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کو قائم ہوئے چند ہی دن ہوئے ہیں کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے احتجاجی جلسوں کا اعلان کر دیا ہے اور اس میں بڑا فیصلہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا سامنے آیا ہے جو ایک بھرپور تحریک شروع کر رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کے اس فیصلے نے بظاہر سیاسی ہلچل تو پیدا کر دی ہے اور اس پر بحث بھی ہو رہی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل ابھی مکمل ہوا ہے اور فوری طور پر احتجاجی تحریک سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا جمعیت علمائے اسلام کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ روز ایک ویڈیو پیغام میں چار بڑے اعلان کیے ہیں جس میں انھوں نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ حالیہ انتخابات کے نتائج کو وہ مسترد کرتے ہیں۔

اپنے پیغام میں مولانا نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ، عوام کی نمائندہ کم اور اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ زیادہ ہے، اس لیے اب ہمیں عوام کی طرف جانا ہو گا اور انھیں اعتماد میں لینا ہو گا اور اس کے لیے عوام کو ووٹ کے حق کے لیے متحد کرنا ہو گا۔‘

مولانا فضل الرحمان کے چار بڑے فیصلوں میں ایک تو انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنا ہے جبکہ دوسرا 25 اپریل سے بلوچستان کے شہر پشین سے ایک تحریک کا آغاز ہے جس کو ’عوامی اسمبلی‘ کا نام دیا گیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان بھی کیا اور کہا کہ ان کی جماعت کا کوئی امیدوار ان انتخابات میں حصہ نہیں لے گا۔

اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی بات چیت کرنے کا اعلان کیا۔

بظاہر اس وقت حزب اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے جس کے حمایت یافتہ آزاد اراکین پارلیمان میں سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو کر موجود ہیں۔

واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام اور پی ٹی آئی ماضی میں سخت مخالف جماعتیں رہی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازیاں بھی کی جاتی رہی ہیں تو کیا اب ان دو جماعتوں کی بات چیت سے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جا سکے گا یا دونوں جماعتیں الگ الگ تحریک شروع کریں گی۔

الیکشن

جے یو آئی اور پی ٹی آئی ساتھ ساتھ مگر کیسے؟
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے تو پہلے ہی سے احتجاجی تحریک کا اعلان کر رکھا ہے اور 30 مارچ کو اسلام آباد میں جلسہ بھی منعقد کرنے کا ارادہ ہے اور یہ سلسلہ جاری بھی رہے گا۔

جب ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا پی ٹی آئی اور جے یو آئی ساتھ ساتھ احتجاج میں شامل ہو سکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے پہلے ہی مولانا فضل الرحمان سے دو مرتبہ رابطے کیے جا چکے ہیں اور اس کا مقصد جمہورت کا قیام تھا کیونکہ یہ بار بار جمہوریت کو جو بریکیں ڈال دی جاتی ہیں اس سے پارلیمان کمزور ہوتا ہے۔

شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ احتجاج تو ہوتے رہتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان نے جو پارلیمانی سیاست میں دلچسپی کم کی ہے یا اس میں شریک نہیں ہو رہے وہ تشویشناک ہے کیونکہ جب سیاسی اور جمہوری جماعتیں پارلیمان سے باہر ہوں گی تو پھر دیگر قوتوں کو مواقع ملتے ہیں اور جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر مولانا فضل الرحمان عوامی مینڈیٹ کے بارے میں احتجاج کرتے ہیں تو وہ ضرور ان کی حمایت کریں گے اور ایک ساتھ جمہوریت کے قیام کے لیے جدو جہد کی جا سکتی ہے۔

’انتخابات میں ان کے ساتھ کیا ہوا مولانا اس کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو سمجھتے ہیں‘
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے لیے اس وقت حزب اختلاف کی جماعتوں نے پی ڈی ایم کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا تھا اور اس کی سربراہی مولانا فضل الرحمان کو دی گئی تھی۔

پی ڈی ایم کی بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ تھی لیکن پی ڈی ایم کو ضرورت پڑنے پر پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت بھی دستیاب ہوتی تھی۔

پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم اقتدار میں آئی اور اس میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو بھی مکمل حصہ دیا گیا تھا جس میں وفاقی وزارتیں اور خیبر پختونخوا میں گورنر کا عہدہ شامل تھا۔

انتخابات کے دوران بھی یہی تاثر تھا کہ خیبر پختونخوا کی سطح پر جمعیت علمائے اسلام اور پرویز خٹک کی جماعت پی ٹی آئی پی حکومت قائم کریں گی کیونکہ نگران سیٹ اپ میں ان ہی جماعتوں کے قریبی افسران کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا تھا۔

انتخابی نتائج توقع کے برعکس آنے پر مولانا فضل الرحمان نے اپنا سخت رد عمل ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس دوران مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ نون کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں لیکن کوئی خاطر خواہ پیشرفت نظر نہیں آئی جس کے بعد جے یو آئی نے پارلیمان کے اندر سپیکر ڈپٹی سپیکر اور وزیر اعظم کے عہدے کے لیے انتخاب میں حصہ نہیں لیا تھا۔

پی ڈی ایم

اب مولانا فضل الرحمان کے اعلان سے موجودہ حکومت میں شامل ماضی کی اتحادی جماعتیں بھی پریشان ہو سکتی ہیں۔

سینیئر تجزیہ کاراور صحافی علی اکبر نے بی بی سی کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے اور مولانا فضل الرحمان سیاسی جوڑ توڑ اور اپنی پوزیشن کے لیے بہتر چالیں چلنے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات سے پہلے تک تو جمعیت علمائے اسلام کی پوزیشن اچھی سمجھی جا رہی تھی لیکن انتخابات کے بعد نتائج توقعات کے برعکس آئے اور مولانا فضل الرحمان کو یہ صدمہ لاحق ہے کہ انتخابات میں ان کے ساتھ کیا ہوا اور اس کا ذمہ دار وہ اسٹیبلشمنٹ کو سمجھتے ہیں۔

علی اکبر کا کہنا تھا کہ اس وقت طاقت کا مظاہرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مولانا واضح کرنا چاہتے ہیں کہ واقعی اسٹیبلشمنٹ نے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں اور اس کے لیے احتجاجی تحریک کا اعلان کیا، جس سے وہ اسٹیبلشمنٹ پر پریشر ڈالنا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان میں سیاسی جوڑ توڑ ہو، حکومتوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوں، یا سیاسی اتحاد کے قیام کے لیے کوششیں ہوں، مولانا فضل الرحمان اس میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں 2018 کے انتخابات کے بعد جب پی ٹی آئی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو ان انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو مرکز اور خیبر پختونخوا میں زیادہ سیٹیں نہیں ملی تھیں جس پر مولانا فضل الرحمان نے احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور انھیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز سمیت دیگر جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی کیونکہ اس وقت پی پی پی اور پی ایم ایل کے قائدین کے خلاف قائم مقدمات کی عدالتوں میں سماعت کی باتیں ہو رہی تھیں۔

مولانا فضل الرحمان نے اکتوبر 2019 کو پی ٹی آئی حکومت کے خلاف صوبہ سندہ کے شہر سکھر سے احتجاجی تحریک کے لیے لانگ مارچ شروع کیا تھا اور انھیں یہ امید تھی کہ سندھ سے پیپلز پارٹی اور پنجاب سے مسلم لیگ نواز کے لوگ بڑی تعداد میں ان کے ساتھ شریک ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور سکھر نے مولانا نے تحریک کا آغاز کیا اور پھر اسلام آباد میں انھوں نے دھرنے دیے تھے لیکن ان کے اس احتجاج کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا اور پھر دھرنے کو لپیٹ دیا گیا تھا ۔

مولانا فضل الرحمان نے اب اپنی عوامی اسمبلی کی تحریک کا نشانہ اسٹیبلشمنٹ کو بنایا ہے اور ان کی تنقید بھی اسٹیبلشمنٹ پر ہے۔

مولانا کے ویڈیو بیان میں ایسا کچھ سامنے نہیں آیا کہ وہ اب کیا چاہتے ہیں اور اس تحریک سے انھیں کیا حاصل ہو گا یا ان کا مطالبہ کیا ہے تاہم سینیئر صحافی علی اکبر کہتے ہیں کہ ابھی ابھی انتخابات ہوئے ہیں اور اب فوری طور پر احتجاجی تحریک سے کوئی نتائج حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کو کچھ وقت مل جائے اور وہ کچھ ڈیلیور نہ کر پائیں تو پھر اگر اپوزیشن کی جماعتیں تحریک شروع کرتی ہیں تو اس کے نتائج نکل سکتے ہیں اور حکومت یا اسٹیبلشمنٹ پر پریشر بھی بڑھ سکتا ہے۔

Share.

Leave A Reply