جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل دیے گئے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی۔
ڈان نیوز کے مطابق جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے 6 ججز کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیے جانے کے کچھ دیر بعد یہ پیش رفت سامنے آئی۔
خط میں جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے لکھا کہ اعتماد کرنے پر وزیراعظم، کابینہ، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
انہوں نے لکھا کہ میں نے 6 ججوں کے لکھے گئے خط اور کابینہ کی جانب سے منظور کردہ ٹرمز آف ریفرنس کے ساتھ ساتھ متعلقہ آرٹیکل 209 کو دیکھا ہے۔
مزید لکھا کہ ججوں نے خط میں سپریم جوڈیشل کونسل اور اس کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کیا ہے، لہٰذا یہ عدالتی وقار کی خلاف ورزی ہوگی کہ ایسے معاملے کی انکوائری کروں، جو سپریم جوڈیشل کونسل یا سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
انہوں نے خط میں لکھا کہ یہ معاملہ آرٹیکل 209 کے تحت نہیں آتا۔
واضح رہے کہ 30 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے الزامات پر ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ اجلاس نے 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 معزز جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا۔
اجلاس کو بتایاگیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ اعلامیے کے مطابق عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی وزیر اعظم سے ملاقات میں انکوائری کمیشن کی تشکیل تجویز ہوئی تھی۔
بعد ازاں کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے ’ڈان نیوز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے کمیشن کی سربراہی کا کہا گیا تھا، حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے ٹی او آرز کا بغور جائزہ لیا ہے اور میں نے کمیشن کی سربراہی کے لیے رضامندی ظاہر کردی ہے۔
قبل ازیں، وزیراعظم نے چیف جسٹس کو کابینہ کی منظوری سےجوڈیشل کمیشن قائم کرنےکی یقین دہانی کرائی تھی۔
یاد رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔
خط میں کہا گیا تھا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔
مزید کہا گیا تھا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔
27 مارچ کو انٹیلی جنس ایجنسیز کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں لگائے گئے الزامات کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 2 گھنٹے طویل فل کورٹ اجلاس کسی حتمی فیصلے کے بغیر اختتام پذیر ہوا تھا۔
اگلے روز 28 مارچ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔
اسی روز وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کرانے کا اعلان کردیا تھا۔
اسلام آباد میں اٹارنی جنرل انور منصور کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ وزیراعظم کی چیف جسٹس اور سینئر ججز سے ملاقات ہوئی جو ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی اور ملاقات بڑے خوشگوار ماحول میں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے خط کے معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے جبکہ چیف جسٹس نے بھی تحقیقاتی کمیشن بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس کل ہوگا، وزیراعظم کل خط کا معاملہ کابینہ کے سامنے رکھیں گے، کابینہ اجلاس میں کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دیا جائے گا، جبکہ غیر جانبدار شخصیت انکوائری کمیشن کی سربراہی کرے گی۔