’انسولین رزیسٹینس‘ کیا ہے اور کیا روزہ رکھ کر اس طبی پیچیدگی پر قابو پایا جا سکتا ہے؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

گذشتہ دو برسوں کے دوران میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ’انسولین رزیسٹینس‘ (انسولین کے خلاف جسمانی اعضا کی مزاحمت) کے حوالے سے بہت بات کی جا رہی ہے۔ اس موضوع پر کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جبکہ یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر ورزش اور مخصوص غذاؤں کا احاطہ کرتی ہزاروں ایسی ویڈیوز موجود ہیں جنھیں بنانے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ مخصوص غذائیں یا ورزش کر کے انسولین رزیسٹینس سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے یا اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

اس اصطلاح کے مقبول عام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسولین رزیسٹینس انسانی جسم میں پیچیدہ طبی مسائل بشمول ٹائپ ٹو ذیابیطس کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔

اس رپورٹ میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ’انسولین رزیسٹینس‘ آخر ہے کیا، اس کی عمومی علامات کیا ہوتی ہیں اور کیا روزہ رکھ کر اس پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے؟

انسولین کیا ہے؟

انسولین انسانی جسم میں موجود ہارمونز میں سے ایک انتہائی اہم ہارمون ہے۔ ہمارے جسم میں موجود ایک اہم عضو لبلبہ ہے جس کا بنیادی کام ہمارے جسم کو درکار انسولین بنانا ہے۔

انسولین کا بنیادی کام ہمارے جسم میں بلڈ شوگر کو منظم یا ریگولیٹ کرنا ہے۔ ہمارا جسم توانائی کے ذریعے کے طور پر انسولین کو سٹور کرتا ہے۔

اگر لبلبہ انسانی جسم کو درکار مطوبہ مقدار میں انسولین پیدا نہیں کرتا یا بہت کم کرتا ہے یا جسم لبلبے کی جانب سے بنائی گئی انسولین کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے سے قاصر رہتا ہے تو صحت کے بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

Digital image of the human body focussing on the pancreas

اگر لبلبہ مناسب مقدار میں انسولین پیدا نہ کرے تو یہ صورتحال طبی پیچدگیوں کا باعث بن سکتی ہے

ہمارے جسم میں انسولین کیسے کام کرتی ہے:

  • جو بھی کھانا ہم کھاتے ہیں ہمارا جسم اس کو گلوکوز میں تبدیل کر دیتا، اور یہ گلوکوز ہمارے جسم کے لیے توانائی کا بنیادی ذریعہ ہوتا ہے
  • اگلے مرحلے میں یہ گلوکوز ہمارے خون کے نظام میں شامل ہوتی ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہمارا لبلبہ جسم کے لیے درکار انسولین کا اخراج کرتا ہے
  • یہ انسولین خون کے نظام میں موجود گلوکوز کو ہمارے پٹھوں اور جگر کے خلیوں میں داخل کرنے میں مدد کرتی ہے تاکہ اسے توانائی کے ذریعے کے طور پر فی الفور استعمال کیا جا سکے یا بعد کے استعمال کے لیے ذخیرہ کیا جا سکے
  • جب گلوکوز ہمارے جسم کے خلیوں میں داخل ہوتا ہے اور خون میں اس کی سطح کم ہو جاتی ہے، تو یہ لبلبے کے لیے اشارہ ہوتا ہے کہ وہ مزید انسولین کا اخراج بند کر دے
Illustration of an insulin molecule: Insulin is a protein hormone produced in the pancreas that regulates the metabolism of carbohydrates, proteins and fats and it does this by promoting the uptake of glucose from the blood by liver cells, skeletal muscle cells and fat cells

انسولین ایک اہم ہارمون ہے

انسولین رزیسٹنس یا انسولین کے خلاف مزاحمت کیا ہے؟

’انسولین رزیسٹنس‘ ایک پیچیدہ عمل ہے جو اس وقت ہوتا ہے جب ہمارا جگر اور عضلات انسولین کو استعمال کرنے کے بجائے اس کے خلاف مزاحمت کرنے لگتے ہیں جس کے باعث ہمارے جسم کے اعضا ہمارے خون میں موجود گلوکوز کو مؤثر طریقے سے جذب یا ذخیرہ کرنا بند کر دیتے ہیں۔

اس صورتحال کے باعث لبلبہ کنفیوزن کا شکار ہو جاتا ہے اور ہمارے خون میں موجود گلوکوز کی اضافی سطح پر قابو پانے کے لیے اضافی انسولین پیدا کرتا اور اس کا اخراج کرتا ہے۔ جسم کو درپیش یہ حالت ’ہائپر انسولینمیا‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

جب جسم کے خلیات اور اعضا کی انسولین کے خلاف مزاحمت مزید بڑھتی ہے تو یہ خون میں گلوکوز کی زیادتی کا باعث بنتی ہے۔ اور یہ صورتحال ٹائپ ٹو ذیابیطس اور دیگر طبی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے۔

تاہم، اگر انسولین کے خلاف خلیوں کی مزاحمت بڑھ جاتی ہے، تو یہ خون میں گلوکوز کی بلند سطح کا باعث بنتی ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ٹائپ 2 ذیابیطس اور دیگر طبی حالات کا باعث بن سکتی ہے۔

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس میں بطور کنسلٹنٹ فزیشن کام کرنے والے فرینکلن جوزف کہتے ہیں کہ جسم کی انسولین کے خلاف مزاحمت ایک پیچیدہ صورتحال ہے جس کا تعلق ہمارے طرز زندگی، ماحولیاتی عوامل اور جینیٹکس سے ہے۔

اس عارضے کے لاحق ہونے کی وجہ ہر شخص میں مختلف ہو سکتی ہے۔

Franklin Joseph

پروفیسر جوزف

وہ کہتے ہیں کہ کسی انسان میں انسولین کے خلاف مزاحمت کی درج ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں:

  • موٹاپہ یا جسم میں موجود اضافی چربی (خاص کر پیٹ میں موجود چربی) جسم میں انسولین رزیسٹینس کی بڑی وجہ ہو سکتا ہے
  • جسمانی طور پر غیرفعال رہنا: ہمارے طرز زندگی میں جسمانی سرگرمی کا شامل نہ ہونا بھی اس کی وجہ بن سکتا ہے
  • جینیاتی عوامل: کچھ لوگ جینیاتی طور پر انسولین کے خلاف مزاحمت کا شکار ہوتے ہیں
  • ناقص خوراک: پراسیسڈ فوڈز، ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹس، اور شکر والی غذائیں انسولین کے خلاف ہمارے جسم کی مزاحمت میں حصہ ڈال سکتی ہیں۔ یہ غذائیں بلڈ شوگر میں تیزی سے اضافے کا سبب بن سکتی ہیں، جس سے وقت کے ساتھ ساتھ لبلبے سے انسولین کے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے
  • • دائمی تناؤ: ہمارے جسم میں تناؤ کے ہارمونز (جیسا کہ کورٹیسول) انسولین کی بلڈ شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت میں مداخلت کر سکتے ہیں
  • نیند میں خلل: نیند کی کمی یا نیند کا معیار بہتر نہ ہوتا ہمارے جسم میں انسولین کی حساسیت کو متاثر کر سکتا ہے۔ نیند کی کمی جسمانی ہارمونز کی سطح میں خلل ڈال سکتی ہے اور انسولین کے خلاف مزاحمت کا باعث بنتی ہے
  • طبی پیچیدگیاں: پولی سسٹک اووری سنڈروم اور فیٹی لیور جیسی بیماریاں انسولین کے خلاف مزاحمت کا خطرہ بڑھا سکتی ہیں
  • بڑھتی عمر: جیسے جیسے عمر ڈھلتی جاتی ہے ویسے ویسے ہمارے اعضا اور ان کے خلیے انسولین کے لیے بہتر ریسپانس دینے کی صلاحیت کھوتے جاتے ہیں اور اس کے باعث بتدریج انسولین رزیسٹنس پیدا ہوتی ہے
Lantern with a crescent moon shape on the beach with a sunset sky

رمضان کے روزے

آج کل رمضان کا مہینہ چل رہا ہے اور بہت سے مسلمان باقاعدگی سے اس مہینے میں روزہ رکھتے ہیں۔

تاہم ماہرین کا مشورہ ہے کہ وہ افراد جو کسی بیماری یا عارضے کا شکار ہیں انھیں روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے لازمی مشورہ کرنا چاہیے۔

یونیورسٹی ہاسپیٹل برمنگھم سے منسلک ماہر ذیابیطس پروفیسر وسیم حنیف کہتے ہیں کہ خاص کر وہ افراد جو ذیابیطس کا شکار ہیں انھیں روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کو ذیابیطس ہے تو روزے رکھنا آپ کے لیے خطرناک بھی سکتا ہے اور یہ دیگر طبی پیچیدگیوں کو جنم بھی دے سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق چند طبی تحقیقات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ روزہ رکھنا انسولین سینسیٹیویٹی کو بہتر کر سکتا ہے خاص کر ان افراد میں جو ٹائپ ٹو ذیابیطس یا انسولین رزیسٹینس کا شکار ہیں۔

مزید برآں، کچھ افراد ماہ صیام میں وزن میں کمی یا جسم میں موجود اضافی چربی کی کمی سامنا بھی کر سکتے ہیں اور یہ تبدیلیاں انسولین کے لیے ہمارے جسم کی حساسیت اور میٹابولزم پر اثر ڈال سکتی ہیں، خاص طور پر ان افراد میں جو موٹاپے کا شکار ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ رمضان کے دوران روزے رکھنے کا انسولین رزیسٹینس پر اثر ہر شخص میں مختلف ہو سکتا ہے اور اس کا تعین کسی بھی شحص کی عمر، جنس، صحت کو درپیش مسائل، کھانے پینے کی عادات اور جسمانی سرگرمی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

’رمضان میں روزے رکھنے والے افراد، خاص طور پر ذیابیطس کے مریضوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی صحت پر نظر رکھیں اور اس ضمن میں اپنے معالج سے رابطے میں رہیں تاکہ وہ صحت میں بہتری کے ساتھ اور محفوظ انداز میں روزے رکھ سکیں۔‘

عمان میں مقیم ماہر غذائیت ریم العبداللط کا کہنا ہے کہ چاہے آپ وقفے وقفے سے روزے رکھ رہے ہوں یا رمضان کے دوران باقاعدگی سے روزے رکھ رہے ہیں صحت کو بہتر رکھنے کے لیے صحت مند کھانے کی عادات کو اپنانا ضروری ہے۔

کیا ’انٹرمٹنٹ فاسٹنگ‘ ایک حل ہے؟

آج کل انٹرمٹنٹ فاسٹِنگ یا وقفے وقفے سے بھوکے رہنا کا چلن عام ہے اور یہ کرنے کا بنیادی مقصد وزن کم کرنا ہوتا ہے۔ وقفے وقفے سے بھوکے رہنا یا روزہ رکھنے نے حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں خاصی توجہ حاصل کی ہے اور بہت سے ڈاکٹر اور ماہرین غذائیت اس کے صحت سے متعلق فوائد کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے مراد کسی مخصوص دن یا ہفتے کے دوران کھانے سے پرہیز کرنا ہے۔

ڈاکٹر نتن کپور انڈین ریاست تامل ناڈو کے کرسچن میڈیکل کالج یونیورسٹی ہسپتال میں اینڈو کرائنولوجی (ہارمونل عوارض جیسا کہ ذیابیطس، موٹاپا اور تھائرائیڈ) کے پروفیسر ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کچھ طبی ریسرچ ظاہر کرتی ہے کہ کہ وقفے وقفے سے روزہ رکھنے کے طبی فوائد ہوتے ہیں، تاہم وہ ساتھ ساتھ متنبہ کرتے ہیں کہ یہ سب کے لیے موزوں نہیں ہے۔

وہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا آپ پوری زندگی انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کر سکتے ہیں؟ ’ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصہ ایسے کرنے سے آپ اپنا وزن کسی حد تک کم کر لیں مگر جیسے ہی آپ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ ختم کریں گے تو وزن کا اضافہ پہلے سے کہیں زیادہ ہو گا۔‘

دوسری جانب پروفیسر جوزف کا کہنا ہے وقفے وقفے سے روزہ رکھنا یا بھوکا رہنے کے معاملے پر اب بھی طبی تحقیق جاری ہے مگر دستیاب ریسرچ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایسا کرنا جسم کی انسولین کی حساسیت کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔

A senior aged Indigenous Navajo woman, checking her blood glucose level with a smartphone application

جسم میں انسولین کی مقدار کی جانچ پڑتال کرتے رہنا چاہیے

انسولین رزیسٹینس کی علامات کیا ہیں؟

انسولین کے خلاف ہمارے جسم کی مزاحمت کی ابتدائی علامات کچھ زیادہ نمایاں نہیں ہوتی ہیں۔

تاہم کچھ علامات ایسی ہیں جو آپ کے جسم میں اس مسئلے کی موجودگی کی نشاندہی کر سکتی ہیں۔

پروفیسر جوزف کے مطابق ان علامات میں بھوک میں اضافہ، تھکاوٹ، جسم کا اضافی وزن کم کرنے میں دشواری، جلد پر سیاہ دھبے (خاص طور پر گردن، بغل یا کمر پر)، ہائی بلڈ پریشر، گڈ کولیسٹرول میں کمی اور بیڈ کولیسٹرول میں اضافہ اور پولی سسٹک اووری سنڈروم۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر انسولین رزیسٹنس ٹائپ ٹو ذیابیطس اور خون میں گلوکوز کی سطح میں نمایاں اضافے کا باعث بنتی ہے تو دیگر علامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جیسا کہ بار بار پیشاب آنا، پیاس میں اضافہ اور نظر کا دھندلا پن وغیرہ۔

پروفیسر جوزف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ علامات ہر شخص میں دوسرے شخص سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہی علامات جسم میں کسی دوسری طبی پیچیدگی یا بیماری کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں چنانچہ ایسی علامات ظاہر ہونے پر اپنے معالج سے لازمی رابطہ کریں تاکہ مسئلے کا پتہ لگایا جا سکے۔

پروفیسر جوزف کے مطابق تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ انسولین رزیسٹینس کے شکار 70 سے 80 فیصد افراد بالآخر ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکار ہو جاتے ہیں اور اگر وقت پر علاج نہ کیا جائے تو یہ مسئلہ مزید سنگین طبی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

Red apple with measuring tape to measure length - treatment of obesity and diabetes, measurement of blood pressure

روزمرہ خوارک میں تبدیلی اور ادویات کا استعمال انسولین رزیسٹینس سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے

کیا انسولین رزیسٹینس سے چھٹکارا پانا ممکن ہے؟

پروفیسر جوزف کہتے ہیں کہ ’طرز زندگی میں تبدیلی اور بعض صورتوں میں ادویات کے ذریعے انسولین رزیسٹنس کے مسئلے سے چھٹکارا یا اسے کسی حد تک بہتر کیا جا سکتا ہے۔

ماہر غذائیت ریم العبداللط انسولین رزیسٹین کے شکار افراد کو مشورہ دیتی ہیں کہ ’اپنی خوراک پر پوری توجہ دیں، میٹھا کھانے سے گریز کریں اور نشاستے والی غذائیں کم سے کم کھائیں۔‘

پروفیسر جوزف اور ریم دونوں کا مشورہ ہے کہ باقاعدگی سے ورزش کو اپنی زندگی میں شامل کریں جبکہ وزن میں کمی، خاص طور پر پیٹ کے گرد موجود چربی میں کمی، انسولین کی حساسیت کو بہتر بنا سکتی ہے۔

پروفیسر جوزف کہتے ہیں کہ دائمی تناؤ سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی اہم ہے۔ ’مراقبہ، یوگا، گہری سانس لینے کی مشقیں، یا قدرتی نظاروں کے قریب وقت گزارنے جیسی تکنیکوں کے ذریعے تناؤ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‘

مناسب نیند لینا بھی ایسی صورتحال میں انتہائی ضروری ہے۔

تاہم آخر میں تمام افراد کے لیے مشورہ یہ ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنے معالج سے رابطہ کریں، طبی مشورہ لیں تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کا بہتر طریقہ کار کیا ہو سکتا ہے۔

Share.

Leave A Reply